ان دنوں نئے صوبے بنانے کے مطالبات بہت زور و شور سے جاری
ہیں۔دیکھا جائے تونہ نئے صوبے بنانا ہی کوئی گناہ ہے جسکی ممانعت ہو اور نہ
ہی کوئی ایسا کار ثواب یا امر لازم جس کے بغیر کوئی چارہ کا ہی نہ ہو۔مگر
حد تو یہ کہ زیادہ تر یہ مطالبات جذبہ حب الوطنی یا عوامی فلاح کے خیال کے
بجائے ذاتی مفادات اور سیاسی شعبدہ بازی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔خواہ اس سے
قومی و حدت ہی کیوں نہ داو پر لگ جائے۔
علیحدہ صوبے بنانے کا مطالبہ اگر درست مان بھی لیا جائے تو موجودہ وقت اور
ملکی صورتحال اس قسم کے مطالبات کے لیے مناسب نہیں لگتی۔سیاسی صورتحال یہ
ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں، اداروں کے مابین
ٹکراؤ کی کیفیت ہے ،معیشت کی ڈوبتی صورتحال کے حوالے سے خود حکومتی
نمائندوں،گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ نے تشویش کا اظہار کیا
ہے۔بلوچستان کی نازک صورتحال،خارجہ محاذ پر پسپائی، کرپشن کے میگا اسکینڈلز
،توانائی کا بحران جیسے ان گنت محاذ پہلے سے کھلے پڑے ہیں۔اس صورتحال میں
ملک کی تقسیم در تقسیم کا مطالبہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ اگر درست سمجھ بھی لیا جائے
تو فقط لسانی بنیادوں پر صوبے کا قیام قومی و حدت کے منافی دکھائی دیتا
ہے۔اگر ایسا ہوا تو ہم فی الحال صوبہ پنجاب اور آگے چل کر پاکستان کو تقسیم
کرنے کا فارمولہ طے کر دیں گے اور آنے والے دنوں میں ہمیں پوٹھوہاری، ہند
کو اور پاکستان بھر سے درجن بھر زبانیں بولنے والوں کی طرف سے علیحدہ صوبوں
کے مطالبات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
سرائیکی صوبہ کے حق میں دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ صوبے میں سرائیکی
نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے پالیسی سازی میں شراکت نہیں ہو سکتی۔جس کی وجہ
سے سرائیکی علاقہ معاشی و معاشرتی طور پر ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا
ہے۔لیکن یہ ایک غلط دلیل ہے اگر ترقی کا راز علیحدہ صوبے کے قیام میں ہی
پوشیدہ ہوتا تو بلوچستان میں نہ تو پسماندگی ہوتی اور نہ ہی یہ ترقی کی دوڑ
میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں اس قدر پیچھے ہوتا ۔جہاں تک سرائیکی علاقے کی
نمائندگی کا تعلق ہے تو پچھلی دو تین دہائیوں پر ہی نظر ڈالیں تو بہت سے
سرائیکی نمائندے طاقت کے مراکز کا بھر پور حصہ رہے ہیں۔موجودہ حکومت کے
وزیر اعظم ، موجودہ گورنر پنجاب،وزیر خار جہ پاکستان، سینئر مشیر وزیر اعلی
پنجاب کا تعلق سرائیکی علاقہ سے ہے۔ سابق صدر پاکستان فاروق لغاری سرائیکی
علاقہ سے تعلق رکھتے تھے،1993 ء میں سرائیکی بلخ شیر مزاری وزیر اعظم
تھے،محمد علی درانی، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، مخدوم شہاب الدین،ریاض
پیرزادہ۔۔۔۔ افراد کی ایک لمبی فہرست ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے سرائیکی
عوام کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی موجود رہے۔اس
قدر طاقتور اور بااختیار نمائندوں کی موجودگی میں بھی اگر سرائیکی عوام یا
علاقے کا مقدمہ نہیں لڑا گیا تو اسے نمائندگی کے فقدان کی بجائے نمائندگان
کی نیتوں یا صلاحیتوں کا فتور قرار دینا چاہیے۔اسلام آباد اور لاہور کے
عالی شان بنگلوں میں رہائش پذ یر سرائیکی عوام کے ان" ہمد ردوں" نے اپنے
اپنے دورِ اقتدار میں نہ تو علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی اس علاقے
میں ترقیاتی کا م کروائے گئے۔ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی دور آمریت میں پورے
پنجاب کے سیاہ و سفید کے تن تنہا وارث رہے ۔ اس وقت ان کے ذہن میں علیحدہ
صوبے کا خیال کیوں نہ آیا؟ چوہدری شجاعت حسین جب وزیر اعظم تھے توانہوں نے
علیحدہ صوبوں کے قیام کو قومی مفادات کے منافی قرار دے دیاتھا ۔آج انکی
جماعت اس مطالبے میں پیش پیش ہے۔
فرض کیجئے کہ صوبے کا قیام عمل میں لایا بھی جاتا ہے تو ایک بار پھر یہی
طاقتور سیاست دان، جاگیردار، و ڈیرے اور افسر شاہی عوام پر راج کریں گے۔
گاؤں بعد میں بسے گا ڈاکو اور لٹیرے اربوں روپے کے بجٹ میں سے اپنا حق وصول
کرنے پہلے پہنچ جائیں گے اور اس بار زیادہ استحقاق اور اختیارات کے ساتھ۔۔۔۔۔۔
نیا صوبہ بنتا ہے تو ہر سال کھربوں روپے اسے چلانے کے لئے درکار ہوں گے۔
موجودہ صوبوں کی مالی حالت یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں تمام صوبوں کا
ترقیاتی بجٹ سکڑتا چلا جا رہا ہے ۔ یعنی تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، سڑکوں،
صنعت اور عوامی بہتری اور ترقی کے منصوبوں پر رقم صرف کرنے کی بجائے
انتظامی امور، حکومتی اخراجات اور تنخواہوں کی ادائیگی پر زیادہ رقم خرچ کی
جا رہی ہے ۔ ایک نئے صوبے کا مطلب ہے ایک نئی اسمبلی، اسمبلی سٹاف، وزیر
اعلیٰ اور وزیر اعلیٰ ہاؤس، وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر فوج، گور نر،
گورنر ہاؤس اور اسٹاف، ہائی کورٹ بمعہ ا سٹاف، چیف جسٹس اور دیگر ججز،
بیوروکریٹس کی لمبی فہرست، ان سب کی رہائش گاہیں، لگژری گاڑیاں، مراعات ،
استحقاقی کوٹے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کیاہم ان تمام شاہ خرچیوں کے متحمل ہو سکیں
گے؟ اور اربوں روپے اگر ان غیر ترقیاتی کاموں پر ہی صرف کر دیئے جائیں گے
تو عوام کو اس کاکیا فائدہ ہوگا؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ جو رقم علیحدہ صوبہ
بنا کر اس کے انتظامی معاملات پر خرچ کرنا مقصود ہے اسے صوبہ بنائے بغیر ہی
عوام اور علاقے کی حالت زار بہتر بنانے پر صرف کیا جائے ۔
دوسری طرف بہاولپور کو ون یونٹ کے قیام سے پہلے کی صورت پر بحال کرنے کا
مطالبہ ہے ۔ تاریخی حیثیت کی بحالی کو ہی جواز بنا لیا جائے تو خیبر
پختونخوا کے وہ حصے جو نومبر 1901ء سے پہلے پنجاب کے حصے تھے، ان کی بحالی
کا سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے ۔ بہاولپور کی بحالی کے مطالبے پر کچھ حلقوں
کی جانب سے بلوچستان میں بھی قلات، مکران، خاران وغیرہ کی سابق ریاستوں کا
جداگانہ تشخص بحال کئے جانے کے مطالبات بھی سامنے آئے۔ بہاولپور کی بحالی
کا مطالبہ کرنے والے اپنے دور ِ اقتدار میں اس مطالبے کے حق میں ایک لفظ نہ
کہہ سکے اور اب بیٹھے بٹھائے یہ معاملہ ان کے لئے زندگی موت کا مسلۂ بن گیا
ہے ۔
الگ صوبے کے مطالبے کا مقصد ایک طرف تو عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانا
ہے اور دوسری طرف اپنے سیاسی حریفوں کو کمزور کرنا یا انہیں سیاسی نقصان
پہنچانا ہے ۔ صوبوں کا قیام ہی اگر عوام کے مسائل کا نسخہ کیمیا ہے تو پھر
فقط پنجاب اور خیبر پختونخواہ پر ہی کیوں لاگو ہو؟ سندھ کی تقسیم اور مہاجر
صوبے کی آوازوں کو اگر شوشے اور سازش قرار دیا جاتا ہے تو سرائیکی صوبہ
عوام کے لئے تحفہ کیسے بن گیا؟
نئے صوبوں کے قیام پر بحث ضرور کی جانی چاہئے اور ضرورت پڑھنے پر الگ صوبے
بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مگر نئے صوبوں کے قیام کا مقصد عوام کی فلاح
و بہبود ہونا چاہئے نہ کہ اپنے سیاسی مفادات کا حصول ۔ صوبوں کے قیام کے
لئے ایک شفاف قومی کمیشن بنا کراس کے مرتب کردہ فارمولے کے تحت سائنسی
بنیادوں پر عمل کیا جانا چاہئے نہ کہ سیاسی بنیادو ں پر اور یہ فارمولا
پورے ملک پر یکساں طور پر لاگو کیا جانا چاہئے۔جیسا ہمارے پڑوسی ملک بھا رت
میں ہو رہا ہے۔
اگرچہ سرائیکی صوبے کا مطالبہ ایک نامناسب وقت پر سامنے آیا ہے ۔ مگر اس سے
قطع نظر جنوبی پنجاب کی صورتحال واقعی توجہ طلب ہے ۔ عوام کا معیار زندگی
بے حد پست ہے ۔ جاگیردارانہ نظام اور افسر شاہی کو اس سلسلے میں ذمہ دار
ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔ صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کو اپنی توانائی حکومت کی
طرف سے اس علاقے کے لئے ترقیاتی پیکج کا اعلان کروانے اور عوام کے لئے
سہولیات فراہم کروانے پر مبذول کرنی چاہئے۔ اگر عوام کے مسائل کا حل ہی
مقصود ہے تو موجود انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنا کر اور اختیارات کی نچلی سطح
تک منتقلی کے ذریعے بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ یہ دراصل اختیارات کے حصول
کی لڑائی ہے جسے عوامی مفادات سے منسوب کر کے سیاسی مفادات کی راہ ہموار کی
جا رہی ہے ۔ نئے صوبوں کی تشکیل پاکستان کے استحکام اور ملکی اتحاد و
یکجہتی کا ذریعہ بننی چاہیے۔ اگر اسے ایک سیاسی اکھاڑے کے طور پر استعمال
کیا گیا تو نہ صرف اس سے خطے کی پسماندگی دور نہیں ہو گی بلکہ ملک کمزور تر
ہو کر نئے بحرانوں کی دلدل میں دھنس جائے گا۔
|