یوکرین:جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی

قومی مسائل خاص طور پر انتخابات کبھی کبھار ہمارے اعصاب پر اس طرح سوار ہوجاتے ہیں کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے نہایت اہم تبدیلیاں بھی اپنی جانب ہماری توجہ مبذول کرانے میں ناکام رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یوکرین میں رونما ہونے والے غیر معمولی واقعات بھی ہمیں متوجہ نہ کرسکے۔ہوا یوں کہ مسیویو(یوروپینیونین) ایک عرصے سےجنابیوکر(یوکرین)پر ڈورے ڈال رہی تھیں اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں اپنے رشتۂ نکاح کا اعلان کرتےیوکر کی زوجہ بیگم کرامہ(کرائمیہ)نےایک چالاک لومڑی کی طرحان سےقطع تعلق کرلیا۔ اس پر یوکر صاحب بندرکی مانندہوا میں اچھلے لیکن اس سے پہلے کہ مس یویواپنے بھائی ناٹو کی مدد سے انہیں سنبھالتی کرامہ بیگم نے مسٹربھالو (روس) سے بیاہ رچا لیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ لومڑی اور بھالواپنے نئے گھر سنسار میں دادِ عیش دےرہے ہیں اور مسٹر یوکر و مس یویو مع اعزہ و اقارب غم اندوہ کا شکار ہیں ۔ یہ معاملہ۱۰۰۰ہفتوںتکلگاتارچلتےرہنےکاریکارڈتوڑنے والی ہندی فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ سے کم دلچسپ نہیں ہے اس کے باوجودکوئی اس پر غور نہیں کرتا ۔

یوکرین تنازعہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ یوکرین کے روس نواز صدروکٹر یانوکوویچ نےگزشتہ ماہِ نومبر میں یوروپی یونین کے ساتھ معاہدکرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی شرائط رکھ دیں۔ اس کی وجہ ان کے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے ۔ بس پھر کیا تھا ساری مغرب نواز نمک خواربرادری حرکت میں آگئی اور نوکوویچ ان کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہو گئے ۔ ان مظاہروں میں حزب اختلاف پیش پیش تھا عالمی ذرائع ابلاغ اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا تھا ۔ بالکل اسی طرح جیسے ترکی کے اندر ہونے والے احتجاج کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ یو کرین کی راجدھانی کئیف کی سڑکوں پر ایک طرف مظاہروں میں شدت آرہی تھی اور دوسری جانب پارلیمان کے ممبران کو ایک ایک کرکے خریدا جارہا تھا اور اس کا نقطۂ عروج اس وقت آیا جب کہ حزب اختلاف کے غلبہ والی پارلیمان نے آئینی صدر کے ساتھ کئے گئے ۲۱ فروری کےمعاہدے کو بالائے طاق رکھ کر انہیں برخواست کردیا اور اسپیکر الیکژانڈر ٹرچی نوف کو قائم مقام صدر بنا دیا۔

کئیف میں جسوقتصدر کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اس وقت مشرقی سرحد پرواقع روس سے متصل نیم خودمختارصوبے کرائمیہ میں صدر نوکوویچ کی حمایت میں مظاہرےہورہے تھے۔ بعد میں جب معزول شدہ صدر کئیف سے فرار ہو کر روس میں نمودار ہوےتو روسی فوج کرائمیہ میں داخل ہوگئی ۔ روسی فوج کی پشت پناہی میں مظاہرین نےاہمسرکاری عمارتوں اور ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا اور ان پر روسی پرچم لہرا دیا۔ اسی کے ساتھ کرائمیہ کی صوبائی حکومت کو برخواست کردیا گیا اور سرگئی آکسیونوو کی سربراہی میں ایک نئی حکومت قائم ہوگئی ۔گویا کرائمیہ کے مرکزی شہرسمفیروپولمیں وہی ڈرامہ کھیلا گیا جو کئیف میں رچایا گیا تھا لیکن فرق یہ تھا کہ وہاں یوروپ اور امریکہ مظاہرین کے حمایت کررہے تھے اور اسے عظیم انقلاب قرار دے رہے تھے نیزروس اس کوغیر آئینی بیرونی سازش قرار دے رہا تھا جبکہ کرائمیہ میں روس کی سرپرستی میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کومغرب ایک آزاد ملک کی خودمختاری میں فوجی مداخلت اوراس کی سالمیت کے لئے خطرہ قرار دے کر اس کی مخالفت کررہا تھا ۔ روسی اور امریکی الزام تراشی پر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
آپ کہتے ہیں پرایوں نے کیا ہم کو تباہ
بندہ پرور کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو

اس معاملہ کی نزاکت و اہمیت کے پیشِ نظر امریکی صدر براک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب ولادمیر پوتن سے ٹیلی فون پر تقریباً ۹۰ منٹ گفتگو کی اور کہا کہ روس نے یوکرین میں فوج بھیج کر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ صدر براک اوباما نے روسی صدر پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں اپنی فوجوں کو واپس بلائے۔ اس کے جواب میں روسی صدر ولادمیر پوتن نے کہا کہ ماسکو یوکرین میں روسی بولنے والوں لوگوں کے مفادات کا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ان کے مطابق یوکرین اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ روسی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ روس کیلئے سب سے بڑی پریشانی یوکرین کے یوروپی یونین میں شامل ہو جانے کے بعد بحر اسود میں ناٹو فوجوں کی آمد ہے ۔ اس سے نہ صرف روس غیر محفوظ ہو جائیگا بلکہ خطے میں اس کی فوجی برتری کا بھی خاتمہ ہو جائیگا ۔ چونکہ روسی بحری دستہ کرائمیہ کی بندرگاہ پر تعینات ہے اس لئے وہاں اپنا فوجی تسلط برقرار رکھنا روسی ضروری سمجھتے ہیں ۔

یوروپ اور امریکہ کی گیدڑ بھپکی کا روس اور کرائمیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۸مارچ ؁۲۰۱۴کوکرائمیہ کی نوزائدہ پارلیماننےروسمیں کرائمیہ کی شمولیت کے بارے میں اصولی فیصلہ کرلیا۔کرائمیہ کے نائب وزیر اعظم رستم تیمیرگالیئیو نے جب عوام کے سامنے اس فیصلے کااعلان کیا توحاضرین نے"روس زندہ باد"کےنعروں سےاس کا خیرمقدم کیا۔ رستم نےیہبھی بتایا کہکرائمیہ کی روس میں شمولیت کی بابت ۱۶مارچ کواستصواب رائے کرایا جائے گا۔ ریفرینڈم میں عوام سے تین سوال کئے گئے کہ آیا وہ وفاق روس میں کرائمیہ کی شمولیت کے حق میں ہیں؟یا ؁۱۹۹۲ میں منظور کردہ کرائمیہ کے آئین کی بحالی چاہتے ہیں جس کے تحت کرائمیہ کو یوکرین میں شامل کیا گیا تھا ؟ یا دیگر اصلاحات پر اکتفا کریں گے ؟
اس بیچ امریکہ اور اس کے ہمنواؤں نے اقوام متحدہ میں کرائمیہ کے اندر منعقد ہونے والے استصواب کو غیر قانونی قرار دے دیا اورسلامتی کونسل کے اندرریفرنڈم کے خلاف قرارداد پیش کردی لیکن وہ بھول گئے کہ جس روس کے خلاف یہ قراداد پیش کی جارہی ہے وہ بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کامستقل رکن ہے اور بڑی آسانی سے اسےویٹوکرسکتا ہے ۔ ہوا بھی یہی روس نے اپنے حق کااستعمال کرتے ہوئے قراردادکومنظور ہونےسےروک دیا۔ اس کے بعد اقواممتحدہ میںروس کےمستقل مندوب وتالی چرکن نے اعلان کیا کہ روس کرائمیہ کےحقرائےدہی کیتعظیمکرے گا۔اس بابت روس کا موقف شہزاد احمد کے اس شعر کی طرح تھا؎
تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے میں
میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی ہو جائے

اس مسئلہ پر سلامتی کونسل میں پھر ایک بار سرد جنگ کا سا ماحول بن گیا تھا۔چین نے اس بکھیڑے میں پڑنے سے یہ کہتے ہوئےغیر جانبدار ہو گیا کہ اس اقدام سے تصادم اور مسائل پیدا ہوں گے۔ یورپی یونین نے کرائمیہ میں ہونے والے ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی کے ساتھ یوکرین کے دارالحکومت کئیف میں ایک پریس کانفرنس کرتےہوئےیورپ نواز وزیرِاعظم آرسینی یاٹسنیوک نےکرائمیہ کی یوکرین سےعلیحدگی کی حمایت کرنے والے سیاست دانوں کو"ان کی اس حرکت پرسزا دینے" کی دھمکی دے ڈالیلیکن کیا پدیّ اور کیا پدیّ کا شوربہ کی مثل کسی نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔

اقوام متحدہ میں منھ کی کھانے کے بعد استصواب کو روکنے کیلئے اس سے دودن قبل امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے لندن میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کرکےیوکرین کے بحران پرتبادلہ خیال کیا۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری روس کو پہلےہی خبردار کرچکے تھے کہ اگر اس نے کرائمیہ کو اپنے ساتھ ملاکر یوکرین کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔۔ ملاقات کےبعدپریس کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئےکیری نے کہا وہ نہیں جانتے کہ کرائمیہ میں ریفرنڈم کےبعدروس کےصدر ولادی میرپوتن کیا فیصلہ کریں گے۔ اس کے برعکس روسی وزیرِ خارجہ نے کہا اس مسئلے پر روس اور مغرب کے درمیان خلیج بدستور برقرار ہے۔ ان کے مطابق یوکرین میں روس نواز حکومت کے خلاف یورپ نواز حزبِ اختلاف کی بغاوت کے بعد کرائمیہ کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہےاور ان کا ملک کرائمیہ کے عوام کی خواہشات کا احترام کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ روسی افواج کا باقی ماندہ یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں۔

حسبِ منصوبہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ استصواب منعقد ہوے۔کرائمیہ کی خبر رساں ایجنسی "کریم انفورم" کے مطابق ۲۳ ممالک سے تعلق رکھنے والے ۱۳۵ مبصرین اور کرائمیہ کی سیاسی جماعتوں اور سماجی انجمنوں کے ۲۴۰ اراکین نے ریفرینڈم کی نگرانی کی اور کسی شدید دھاندلی کی نشاندہی نہیں کی۔ریفرنڈم کمیشن کے نگران میخائل میلے شیوو کے مطابق ۸۳فی صد لوگوں نے اس رائے شماری میں حصہ لیا۔کرائمیہ کےوزیرِ اعظم سرگئی آکسیونوو نےریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے کے ۹۳ فی صد سے زائد رائے دہندگان نے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیااور یہ اطلاع بھی دی کہ کرائمیہ کا ایک وفد اگلے دن ماسکو پہنچے گا تاکہ روس میں کرائمیہ کی شمولیت سے وابستہ معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ کرائمیہ کے مرکزی شہر سمفیروپول میں ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ایک بڑا مظاہرہ اورجشن منایا گیا جس میں شرکاء روس اور کرائمیہ کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ کنسرٹ میں حصہ لینے والے روس اور کرائمیہ کے مقبول موسیقاروں نے حب الوطنی پر مبنی گیت پیش کئےگویا پیشگی جشنِ آزادی کا اہتمام ہو گیا۔

ان واقعات کے بعد یوروپ اور امریکہ روس پر اقتصادی پابندی لگانے کی دھمکی تو دے رہے ہیں لیکن ہمت نہیں جٹا پارہے اس لئے کہ ایندھن کے حوالے سے یوروپ اور یوکرین کا انحصار روس پر ہے اور روس کی ناک دبائی جاتی ہے تو یوروپ کا منھ کھل جاتا ہے ۔ اس صورتحال نے سرد جنگ کے روایتی حریف روس اور امریکہ کی منافقانہ پالیسی کو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا اور یہ حقیقت ظاہر کردی کہ ان استحصالی گِدھوں کے اصول نظریا ت کی بنیادابن الوقتی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ آزادی وحقوق انسانی کےبلند بانگ دعووں کے پسِ پردہ صرف اور صرف مفاد پرستی کارفرما ہوتی ہے۔ پہلے امریکہ کے موقف پر نظر ڈالیں جسے کرائمیہ میں روس کی مداخلت پر اعتراض ہے جبکہ خود امریکی وزارتِ داخلہ کے حکام نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ بیس سالوں میں یوکرین میں جمہوریت کی بحالی پر ۵ بلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے جب بھی جمہوریت کی بحالی پر رقم خرچ کرنے کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب حکومت کا تختہ پلٹنا لیا جاتا ہے۔ استعماری قوتوں کے بل بوتے پر پلنے اور چلنے والی تحریکوں پر محسن نقوی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎
شکل اس کی تھی دلبروں جيسی
خو تھي ليکن ستمگروں جيسی
ميری دنيا کےبادشاہوں کی
عادتيں ہيں گداگروں جيسی

امریکہ نے کرائمیہ کی نئی حکومت کے قیام پر اور روس کی جانب سے اسے تسلیم کئے جانے پر غم غصہ کا اظہار کیا ہے لیکن ایسی ہی جلدبازی ایک ماہ قبل امریکہ اور یوروپی یونین نے یوکرین کی بلاجواز قائم ہوجانے والی الیکژانڈرٹرچینوفکی حکومت کو تسلیم کرکے دکھلائی تھی۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی خودمختار ملک میں فوجی مداخلت کی مخالفت کرنے والے بھول گئے کہ خود امریکہ نے نوریگا کو گرفتار کرنے کی خاطرپنامہ میں فوج کشی کی تھی۔ گرینڈا میں امریکیوں کو یرغمال بنائے جانے کا شور مچا کر ہلہ بول دیا تھا جبکہ کسی کو یرغمال بنایا ہی نہیں گیا تھا ۔ عراق فوج روانہ کرنے کیلئے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کا بہانہ بنایا گیا جو سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ افغانستان میں ناٹو فوجی بلاثبوت ۱۱ ستمبر کا الزام لگا کر داخل ہوگئے جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی ۔ وزیرستان میں آئے دن ڈرون حملوں سے بے قصور لوگوں کو شہید کردیا جاتاہے لیکن اس وقت کسی کوخودمختار ملک میں مداخلت کاخیال تک نہیں آتاہے۔

یوروپ و امریکہ کا ایک الزام یہ بھی ہے روس نےاستصواب رائے کو تسلیم کرکے پڑوسی ملک کی سالمیت سے کھلواڑ کیا ہے اور مہذب دنیا اس خلاف ورزی کو قبول نہیں کرے گی ۔لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سربیا سے کوسوو کو الگ کرنے کیلئے اسی طریقۂ کار کو نہایت مہذب جواز تسلیم کیا گیاتھا ۔ جنوبی سوڈان کی علٰحیدگی کیلئے کئے جانے والے ریفرنڈم کی پرزورحمایت کی گئی تھی ۔ایریٹیریا کو اسی طریقے سے ایتھوپیا سے جدا کیا گیا۔ مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے جدائی کیلئے اسی حکمتِ عملی کا انتخاب کیا گیا اور اگر ایسا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو اس میں برا کیا ہے؟ ہندوستان میں کشمیری استصوابِ رائے کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے اور اس کی حمایت کرنے والے کو قوم دشمن قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ کشمیر سمیت ناگالینڈ اور میزورم کے مسائل کا حل فوجی تسلط نہیں بلکہ استصواب رائے ہے۔ جو لوگ ساتھ نہیں رہنا چاہتے انہیں زبردستی ساتھ رکھنا خوداس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی عذاب میں گرفتار رکھنے کا مترادف ہے نیز اگر وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو استصواب رائے کا نتیجہ ازخودعلٰحیدگی پسندوں کے خلاف دلیل بن جاتا ہے۔

روس کے موقف میں بھی بڑے بڑےجھول صاف دکھائی دیتے ہیں ۔ روس کا دعویٰ ہے یوکرین کی نئی حکومت نے آئینی صدر کو برخواست کرکےدستوری کے خلاف بغاوت ہے اسی لئے انہوں نے وکٹر یونوکووچ کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے اور اسی کو یوکرین کا جائز حکمراں مانتے ہیں لیکن ان کا دوغلا پن اس وقت واضح ہوگیا جب اس بحران کے دوران مصر کے وزیر دفاع نے ماسکو کا دورہ کیا تو پوتن نے خود استقبال کیا ۔ دو بلین ڈالر کے اسلحہ کا وعدہ کیا اور مبارکباد دیتے ہوئے کہا مجھے پتہ چلا ہے تم نے صدارتی انتخاب لڑنے کا من بنا لیا ہے ۔یہ بڑا ذمہ دارانہ فیصلہ ہے اور اس معاملہ میں میری ذاتی اور روسی عوام کی نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں ۔ کیایوکرینی خودساختہ وزیراعظم آرسینییاٹسنیوککی طرح السیسی نے بھی صدرمورسی کے ساتھ وہی معاملہ نہیں کیا جو وکٹر کے ساتھ کیا گیا؟ ایسے میں ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت چہ معنی دارد؟بلکہ السیسی کا دامن تو معصوم شہداء کے خون سے بھی داغدار ہے ۔

کرائمیہ کے اندر اپنی فوجی مداخلت کو جواز پوتن نے اس طرح پیش کیا وہاں رہنے والی روسی عوام کا تحٖفظ کرنا اس کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ کئیف میں قائم ہونے والی قوم پرست یوکرین حکومت سے انہیں خطرہ ہے لیکن یہی خطرہ دمشق میں قائم بعثی بشارالاسدسےشام کی عوام کو ہے جو گزشتہ دو سالوں سے معصوم عوام کا بے دریغ خون بہا رہا ہے اور روس ہر قدم پر اس کامعاون و مددگار بنا ہوا ہے ؟ کیا کرائمیہ کے لوگوں کی طرح شام کے عوام کا خونِ ناحق کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ روس کو نہ ہی کرائمیہ کی عوام سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ شام کے مسائل میں کوئی دلچسپی ہے ۔ کرائمیہ اور شام دونوں مقامات پر اسے اپنے فوجی تنصیبات کی حفاظت کرنی ہے اب اگر ایسا کرتے ہوئے کسی مظلوم کی مدد ہوتی یا ظالم کو فائدہ پہنچتا ہوتو اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مغرب کے مادہ پرستانہ نظریہ حیات کا یہ سب سے بڑا فتنہ ہے

امریکہ کا مشہور جریدہ فوربزہرسال دنیا کے سب سے مؤثر ترین افراد کی فہرست شائع کرتا ہے ۔ سال ؁۲۰۱۳ کے لئے اس نے ولادی میرپوتن کو براک اوباما پر فوقیت دی ہے ۔ گذشتہ تین برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اوباما فوربز کی اس فہرست میں پہلے درجے سے نیچے آئے ہیں۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکی صدر کی ملکی سیاست پر گرفت نسبتاً کمزور ہوئی جبکہ روسی سیاست میں پوتن کا دبدبہ برقرار رہا۔فوربز کا کہنا ہے کہ ولادی میر پوتن بارہ برس سے روسی سیاست میں کلیدی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ انہیں مارچ ؁۲۰۱۲میں دوبارہ روس کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس امریکہ میں ’شٹ ڈاؤن‘ اور قرض کی حد کے بحران کی وجہ سے صدر اوباما کی گرفت متاثر ہوئی ہے۔یوکرین بحران کے بعد ایسا لگتا ہے گویا پوتن نے بین الاقوامی سطح پر اوبامہ کومات دے دی ہے لیکن اس ادلا بدلی سے دنیا کی مظلوم عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے دنیا بھرکے انصاف پسندان نام نہاد چارہ گروں سے صاف صاف کہہ دیں ؎
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452828 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.