پاکستان روز اول سے ہی دشمنوں کے گھیرے میں ہے ۔یہ دشمن
اس کی سرحدوں پر بھی بیٹھے ہیں تو دنیا بھر میں بھی پھیلے ہوئے ہیں ۔انہی
دشمنوں کے خریدے ہو ئے ایجنٹ ملک کے اندر بھی بیٹھے ہیں جو دن رات ملک کو
غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن اب ان تمام دشمنوں کے حملوں اور
سازشوں میں ہر روز کمی آ رہی ہے۔پاکستان کے دشمنوں کے سرخیل امریکہ نے نائن
الیون کے بعد پوری کوشش کی کہ وہ پاکستان کو ہر لحاظ سے اپنے قبضہ و کنٹرول
میں لے کر اس کے ایٹمی اثاثوں، میزائلوں، ٹیکنالوجی ،عظیم فوج، جہادی جذبوں
اور اسلام کی محبت سے مالا مال عوام کو اپنے شکنجے میں کس لے لیکن اس کی یہ
ساری سازش مکمل طور پرنامراد ہو گئی۔ امریکہ اس وقت افغانستان سے اپنے زخم
چاٹتا اور داغ رسوائی لئے واپس جا رہا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہ ہر لحاظ سے
پاکستان کا ہی محتاج ہے اور پاکستان کے ہی پاؤں پکڑتا نظر آتا ہے۔ یعنی جو
کل ہمیں سیدھا کرنے اور اپنے قبضے میں لینے کے خواب سجائے یہاں آئے تھے،آج
ان کی سلامتی ہمارے بغیر ممکن نہیں رہی۔ اس امریکہ نے اب اگلے وار کے طور
پر ہمارے خلاف بھارت کو پوری طرح تیار کر کے اتارا ہوا ہے۔ بھارتی لابیاں
اس وقت ہمارے ملک میں متحرک ہیں۔ ہماری سابقہ حکومت ہو یا موجودہ، دونوں اس
بات کا اعلان ببانگ دھل کرتی ہیں کہ بلوچستان ہو یا آزاد کشمیر یا ہماری
سرحدیں یا اندرون ملک کے حالات ہر جگہ بھارت ہمیں زک پہنچا رہا ہے۔ بھارت
نے پوری سازش سے بلوچستان میں لسانی، صوبائی اور قومی نفرتوں کو ابھارا۔ اس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان (اس وقت صوبے کے سارے بلوچ علاقوں جو لگ بھگ
40 فیصد بنتے ہیں) سے غیربلوچوں خصوصاً پنجابیوں کو چن چن کر مار بھگایا
گیا ہے۔ یہی قومیت اور صوبائیت کی آگ اب سندھ میں سلگائی جا رہی ہے جبکہ اس
کے اثرات صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی سلامتی
کے لئے اگر کوئی آج سب سے بڑا خطرہ ہے تو وہ یہی باہمی نفرت اور باہمی
لڑائی ہے جس کا ہم نے حل کرنا ہے اور دشمن کی اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔
اگر ہمارے ارباب اقتدار واختیار پوری سنجیدگی سے اس مسئلہ کا حل نکالنے کے
لئے کوشش کریں تو یہ چنداں مشکل نہیں ہے۔ ہمیں یوم قرارداد پاکستان کے اس
مہینے میں لازمی اس بات پر غور کرنا ہے کہ آخر ہم نے پاکستان بنایا کیوں
تھا؟ اور اس کو بنانے کی وجہ اور بنیاد کیا تھی؟
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم بھارت سے صرف اورصرف مذہب کی بنیاد پر علیحدہ
ہوئے تھے۔ ہمارے ملک کے بانی قائد محمد علی جناح نے دو ٹوک الفاظ میں
انگریزوں سے کہا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں جو ان
کے ساتھ مل کر کبھی اور کسی صورت نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے بارہا یہ کہا کہ
ہمارا آئین اور قانون صرف اور صرف اسلام ہو گا جو ہمارے ملک کے حصول کی اصل
بنیاد ہے۔ اب ہمارے علیحدہ ملک لینے کی وجہ تو بالکل صاف اور واضح تھی جسے
ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھلانا شروع کر دیا۔ پھر ہمارے ہی لوگوں نے
یہ باور کرنا اور کرانا شروع کر دیا کہ ہم اسلام کے بغیر بھی ملک چلا سکتے
ہیں۔ اس نئی فکر اور سوچ کا سب سے خطرناک نتیجہ ہمارے ملک کے ٹوٹنے کی شکل
میں اس وقت سامنے آیا جب 16 دسمبر 1971ء کو ہماری افواج نے ہمارے ملک پر
حملہ کر کے بھارت کی افواج کے سامنے ڈھاکہ کی ریس کورس گراؤنڈ میں ہتھیار
ڈالے تھے۔
ہم ذرا غور تو کریں کہ ہمیں مشرقی پاکستان سے جوڑ کر اور ملا کر رکھنے والا
’’نسخہ کیمیا‘‘ کون سا تھا؟ ان سے ہماری زمینی رشتہ تو سرے سے نہیں تھا
۔ہمارا اور ان کا فاصلہ ہزاروں کلو میٹر کا تھا۔ رنگ، نسل، زبان، علاقہ،
رسوم و رواج، بودوباش سمیت ہم اور وہ ہر لحاظ سے الگ تھے۔ ہمیں اور انہیں
ملا کر اور اکٹھا رکھنے والا نسخہ کیمیا صرف اسلام تھا جس کی بنیاد پر ہم
نے مل کر یہ ملک حاصل کیا تھا۔ اس اسلام سے دوری اور اسے ملک کا قانون اور
دستور نہ بنانے کا نتیجہ ہمارے ملک کے ٹوٹنے کی شکل میں نکلا۔ جو پریشانی
اور مصیبت ہمیں 1970ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے لاحق ہوئی
تھی وہ پریشانی آج ہمیں بلوچستان، سندھ اور دیگر علاقوں کے حوالے سے لاحق
ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دشمنوں سے پیسے لے کر علاقوں اور
نسلوں کی بنیاد پر پارٹیاں بناتے ہیں اور پھر اپنے اپنے حقوق کے نام پر ملک
کے دوسرے حصوں کے خلاف آواز بلند کر کے اپنی سیاست کو چمکاتے اور دشمن کے
ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ ان سب لوگوں اور مسئلوں کا حل صرف اور صرف اس نظریہ
اسلام میں موجود ہے جس کی بنیاد پر یہ ملک حاصل ہوا تھا۔ ہمارے ملک کے تمام
صوبوں اور تمام صوبوں میں رہنے والی تمام اقوام اور تمام لوگوں کے مابین
مشترک صرف اسلام ہے۔ اگر ہم اسے آج بھی اپنے ملک کا دستور بنا لیں تو ہمارے
سارے جھگڑے ختم ہو کر محبتوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
ہم کہیں نہ کہیں! دنیا تو آج بھی کہتی ہے کہ پاکستان دنیا میں اسرائیل کے
علاوہ دوسری ریاست ہے جو کسی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر بنی ہے۔ کیا ہم یہ
نہیں جانتے کہ اس اسرائیل کا آئین ایک ہی جملے پر مشتمل ہے اور وہ
’’اسرائیل کا آئین تورات ہے‘‘ کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ یہودی قوم
جو صدیوں سے دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا نشانہ بنی پھرتی تھی ۔اس کے رہنے
کو ٹھکانہ نہیں تھا، انہوں نے جب اپنی تورات کو اپنا آئین بنایا تو انہوں
نے اس کی بنیاد پر سارے یورپ اور امریکہ کو بھی اس حالت تک پہنچا دیا کہ وہ
ان یہودیوں کی کاسہ لیسی پر مجبور رہیں اور ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے
ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارا آئین ’’قرآن و سنت‘‘ ہو
سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمان اپنی نظریں اس پاکستان کی جانب اٹھائے
ہوئے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ سعودی عرب جیسا معاشی لحاظ سے طاقتور و مضبوط ملک
پاکستان سے ہی اپنے دفاعی و معاشی معاملات استوار کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب
کا یوں پاکستان کی جانب بڑھنا، اپنی دولت پاکستان پر نچھاور کرنا اور
پاکستان سے اپنی حفاظت کے لئے عسکری صلاحیت اور فوج طلب کرنا کوئی عام بات
نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں سعودی عرب ہی تو وہ واحد ملک ہے جہاں قرآن و سنت
کے مطابق حدود اور قوانین قائم ہیں ۔ ان قوانین کو مٹانے کے لئے امریکہ اور
یورپ اپنی تمام تر سازشوں میں نامراد ہیں۔ آج وہ سعودی عرب پاکستان کی طرف
اس قدر الفت و محبت سے بڑھ رہا ہے کہ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اگر ہم سعودی عرب کی طرز پر قرآن و سنت کو اپنا دستور بنا کر اس ریاست کو
اس کے قیام کے مقصد سے آشکار کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی وہ
طاقت بن جائیں گے کہ جس کا مقابلہ عالم کفر کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ سعودی
عرب کی روشن مثال ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ ان کے پاس تو کوئی جنگی
سازوسامان اور طاقت بھی نہیں لیکن محض اسی کلمہ طیبہ کی بنیاد پروہ اس قدر
مضبوط و مستحکم ہیں کہ ساری دنیا کا کفر ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوا نظر آ
رہا ہے۔اگر پاکستان اسلام کی بنیاد پر آگے بڑھے تو ملک کی ساری نفرتیں اور
محبتیں نہ صرف ختم ہوں گی بلکہ ہم دنیا کی سب سے موثر قوم بھی بن جائیں گے
جس کے لئے صرف ایک ہی قدم اٹھانا باقی ہے اور وہ ہے پاکستان کا مطلب کیا
لاالہ الا اﷲ۔ پاکستان کا مقصد کیا لاالہ الا اﷲ۔ پاکستان کی منزل کیا
لاالہ الا اﷲ۔ |