سلسلہ اشرفیہ کی عظیم روحانی شخصیت
قطب ربانی حضرت سید طاہر اشرف جیلانی قدس سرہ
مرتب : ڈاکٹر سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی
سجادہ نشین درگاہ عالیہ اشرفیہ ، فردوس کالونی
اﷲ تبارک وتعالیٰ اس دنیا میں معصیت کے بڑھتے ہوئے رحجان کو روکنے کے لئے
ایسی یگانہ روزگار ہستیاں بھیجتا رہا جنہوں نے لالچ طمع حرص وہوس اور ان
تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف دین اسلام کی سربلندی کے لئے کام
کیا اور شرار بولہبی کے مقابل چراغ مصطفوی کی لوکو بڑھایاان ہی ہستیوں میں
سلسلہ اشرفیہ کی ایک عظیم وروحانی شخصیت قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید
محمد طاہر اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کی تھی آپ مسلکا حنفی مشرباً چشتی
اور مولدً اد دہلوی تھے آپ صحیح النسب سید تھے آپ کا سلسلہ نسب ۲۶ ویں پشت
میں حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے اور ۳۹ ویں پشت
میں سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفےٰ ﷺسے ملتا ہے ۔
ولادت باسعادت:
حضرت قطب ربانی قدس سرہ کی ولادت ۱۲ربیع اول ۱۳۰۷ھ مطابق ۱۸۸۹ء کو دہلی
میں ہوئی ابتدائی تعلیم والدہ محترمہ سے حاصل کی جو بڑی متقی و پرہیزگار
خاتون تھیں جب آپ کی عمر چارسال چارماہ چار دن ہوئی توبڑی دھوم دھام سے آپ
کی تسمیہ خوانی کی گئی بعدازاں والد گرامی نے اپنے مدرسہ حسین بخش میں
تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ۔آپ کے والد محترم کا نام حضرت حافظ سید حسین اشرف
اشرفی الجیلانی قدس سرہ متوفی ۱۳۱۸ھ تھا وہ اپنے وقت کے جید عالم دین اور
صوفی باصفا تھے اور خانوادۂ اشرفیہ کی ایک محترم شخصیت سمجھے جا تے تھے آپ
کیونکہ مدرسہ حسین بخش میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے اس لئے آپ نے
اپنے ہو نہار فرزند کو بھی اسی مدرسہ میں داخل کروایا اوراپنی نگرانی میں
تعلیم کا آغاز کروایا حضرت قطب ربانی نے بڑے ذوق وشوق سے پڑھائی کا آغاز
کیا اور چھ سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کرکے قرا ت سیکھنا شروع کی
اور بہت جلداس فن میں کمال حاصل کر لیا آپ کی آواز اس قدر جاذب اور پر اثر
تھی کہ جب کبھی آپ تلاوت فرماتے تو حا ضرین پرعجیب کیفیت طاری ہو جا تی
اکثر بزرگان دین نے آپ کی کم عمری میں ہی آپ کے منازل سلوک پر فائز ہونے کی
بشارت دی تھی چنا نچہ جب آپ کی عمر چھ سال تھی تو ایک روز اپنے والد محترم
کے پاس تشریف فرماتھے کہ ایک درویش تشریف لائے وہ پہلے تو آپ کو متجس
نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر انہوں نے آپ سے سورہ یو سف سننے کی خواہش ظاہر کی
آپ نے تلاوت شروع کی اس دوران وہ بزرگ کبھی روتے اور کبھی مسکراتے رہے
تلاوت ختم ہو نے کے بعد انہوں نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا والد گرامی نے
جب اس مسکرانے اور رونے کی وجہ دریافت کی توان درویش بزرگ نے فرمایاحضور
مسکراتا تو یو ں ہوں کہ آپ کا یہ نورالعین افق ولایت پر آفتاب بن کر چمکے
گا لاکھوں انسان اس سے فیض پائیں گے۔اور روتا اس لئے ہوں کے آپ اس کی بہار
نہ دیکھ سکیں گے یعنی اس دنیا میں نہیں ہو ں گے اس کے بعد درویش نے حضرت
قطب ربانی قدس سرہ کی پیشانی کو ایک مر تبہ پھر بوسہ دیا اور غائب ہو گئے
اس کے بعد وہ درویش کبھی نظر نہیں آئے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس واقعہ نے حضرت
حافظ سید حسین اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے دل پر گہرا اثر کیا اور
انہوں نے تعلیم کے ساتھ آپ کی روحانی تربیت بھی شروع کردی چنانچہ والد
محترم نے آپ کو ۹ سال کی عمرمیں سورہ مزمل شریف کا چلہ کروایا جو آپ نے
دریا جمنا میں ناف تک پانی میں کھڑے ہو کرکیا دوران چلہ ایک خونخوار مچھلی
نے آپ کے پیر پر کاٹ لیا لیکن آپ نے اسی حالت میں بقیہ چلہ مکمل کیا اس چلے
کی پو ری تفصیل حضرت قطب ربانی کی سوانح حیات میں مو جود ہے۔
تحصیل علم:
قرآن حکیم تجوید کے ساتھ ناظرہ کرنے کے بعد والد محترم نے آپ کو عربی
وفارسی کی کتب خود پڑھائیں ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ۱۳۱۸ ھ میں آپ سایہ
پدری سے محروم ہو گئے والد محترم کے وصال کے بعد پورے گھر کی کفالت کی ذمہ
داری آپ پر آگئی لیکن آپ نے حالات کا مقابلہ کرتے ہو ئے نہایت خوش اسلوبی
سے اس ذمہ داری کو نبھایا اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم کو بھی جاری رکھا آپ نے
وقت کے جید علماء سے درس نظامیہ کی کتب پڑھیں اور دور حدیث شریف کی تکمیل
مشہور مفتی و محدث جناب مفتی حبیب احمد علوی قدس سرہ سے کی مفتی صاحب آپ پر
بڑی شفقت فرماتے تھے اور کئی کئی گھنٹے آپ کو حدیث شریف پڑھاتے تھے مفتی
صاحب نے اپنے شاگرد میں ہو نہاری کے آثار دیکھتے ہو ئے اپنی صاحبزادی کا
عقد آپ سے کردیا شادی کے بعد آپ کی ذمہ داری میں مزیداضافہ ہو گیاچنانچہ آپ
نے اس ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونے کے لئے مدرسہ حسین بخش میں والد محترم کی
جگہ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور کئی سال تک معلمی کے فرائض انجام
دیتے رہے۔
کشمیر میں چلہ کشی :
اگرچہ محترم حضرت حافظ سید حسین اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ نے آپ کوکم
عمری میں ہی طریقت کے بہت سے اسرارورموز سے آگاہ فرمادیا تھااور اپنی
نگرانی میں چلے بھی کروائے تھے لیکن ان کے اچانک وصال سے روحانی تعلیم کا
جو سلسلہ جا ری تھا وہ ختم ہوگیاجس کا آپ کے بے حد قلق تھا یہ دور آپ کے
لئے بڑاآزمائشی تھا ایک طرف تو معاشی معاملات حضرت کے روحانی رحجانات کو
چلینج کر رہے تھے ۔اور دوسری طرف راہ سلوک کے نشیب وفراز سے کماحقہ واقفیت
کرانے والا باپ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو چکا تھا لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود
آپ نے نہایت صبرواستقامت سے حالات کا مقابلہ کیا اور عبادت وریاضت میں بھی
مشغول رہے اسی دوران آپ کی ملاقات سلسلہ اویسہ کے ایک بزرگ حضرت سید احمد
حسین المقلب امیر علی شاہ کمبل پو ش رحمۃ اﷲ علیہ سے ہو ئی انہوں نے تکمیل
مقامات میں آپ کی رہنمائی فرمائی آپ نے حضرت کمبل پو ش صاحب رحمۃ اﷲ علیہ
کی زیر نگرانی کشمیر کی دشوار گزارپہاڑیوں میں چلہ کشی کی ۔چلہ کشی سے فارغ
ہو کر جب آپ غار سے باہر تشریف لا ئے تو پرندوں نے آپ کے سر پر سایہ کیا اس
کے بعد یہ کیفیت ہوگئی کہ جب آپ کبھی دن کے وقت دھوپ میں باہر نکلتے تو دس
بارہ چلیں کہیں سے آجاتیں اور آپ کے سر پر سایہ رکھتیں آپ نے یہ صورت دیکھی
تو کچھ پڑھ کر انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا تو وہ چلیں غائب ہو گئیں
حضرت کمبل پو ش صاحب نے آپ کو بیعت نہیں کیا بلکہ مرشد کا مل کی بشارت د
یکر رخصت ہو گئے۔
مرشد کا مل سے شرف بیعت :
جب حضرت کمبل پوش صاحب نے آپ کو مرشد کامل کی بشارت دی تو کچھ دنوں بعد
مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی المعروف اشرفی میاں
قدس سرہ متوفی ۱۳۵۵ء دہلی تشریف لائے آپ کی ذات بابرکات سے سلسلہ اشرفیہ
کو جو فروغ حاصل ہوا وہ بیان سے باہر ہے ۔اشرفی میاں کی نظر خانوادہ اشرفیہ
کے اس ابھرتے ہو ئے روشن ستارے پر پڑی تو آپ نے قطب ربانی کو شرف توجہ بخشا
اور بیعت سے مشرف فرمایا معمولات خاندانی کی تعلیم دی اور خلعت خاص،خرقہ
مبارک اور تاج اشرفی سے سرفراز فرماکر سلسلہ چشتیہ قادریہ ، سراجیہ ،اشرفیہ
میں مجاز بیعت کر کے شجرہ شریف دستخط و مہر سے مزین عطا فرمایا یہ خلعت
خاص، خر قہ مبارک اور تاج اشرفی اور شجرہ شریف تبرکات اشرفی کے طور پر
درگاہ عالیہ اشرفیہ آباد (فردوس کالونی کراچی)میں محفوظ ہیں۔حضرت قطب ربانی
قدس سرہ نے ۱۳۳۲ھ میں اشرفی میاں کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور بیعت کے
فوراً بعد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ نے آپ کو سلسلہ اشرفیہ اور دیگر
سلاسل کی اجازت و خلافت عطافرمائی تھی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے علا وہ بھی
آپ کو دیگر مشائخ طریقت سے مختلف سلاسل کی خلا فتیں عطا ہو ئیں جنکی تفصیل
یہ ہے۔
۱) سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ اشرفیہ اور قادریہ جلا لیہ اشرفیہ نیز
معمریہ منوریہ کی خلا فت اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی الجیلانی
المعروف اشرفی میاں قدس سرہ سے حاصل ہو ئی۔
۲) سلسلہ عالیہ صابر یہ نقشبندیہ، سہروردیہ ،قادریہ کی خلافت حضرت سید شاہ
تسلیم احمد صاحب صابری امر وہوی علیہ الرحمۃسے حاصل ہو ئی۔
۳) سلسلہ فخریہ نظامیہ شمسیہ کی خلافت حضرت میاں عبدالصمد شاہ صاحب علیہ
الرحمۃ سے حاصل ہوئی۔
۴) سلسلہ قادریہ اویسیہ کی خلافت حضرت احمد حسین الملقب امیر علی شاہ کمبل
پوش علیہ الرحمۃ سے حا صل ہو ئی۔
۵) سلسلہ نقشبندیہ اصراریہ ابو العلا ئیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت حضرت
نوشہ میاں قادری علیہ الرحمتہ سے حاصل ہو ئی۔
سیاحت اور تبلیغ دین :
بیعت اور خلافت کے بعد آپ مرشد کا مل اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ کے حکم
سے تبلیغ دین کے لئے روانہ ہو گئے اور اس سلسلے میں پہلا سفر کلکتہ کا
کیا۔ابتداء میں لوگ آپ سے نہ واقف تھے لیکن جب دھرم تلہ کے میدان میں آپ نے
پہلی تقریر فرمائی تو اس وقت آپ کی تقریر کے بعد کئی سو ہندو مسلمان ہو ئے
اس کے بعد آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی لوگ جو ق در جو ق سلسلہ اشرفیہ
میں داخل ہو نے لگے وہاں سے آپ ضلع ’’گیا‘‘ تشریف لے گئے جوایک پسماندہ
علاقہ تھا مذہب سے دوری اور ہندوانی رسوم کا رواج عام تھا مسجدیں بہت کم
تھیں جب کہ دینی مدارس کا نام تک نہ تھا۔آپ نے جب یہ صورت دیکھی تو بہت سے
تبلیغی اور اصلاحی اقدامات کئے پہلے اپنے مریدین میں سے چند پڑھے لکھے
سمجھدار لو گو ں کو منتخب کر کے انھیں دین کے ضروری احکامات سمجھائے اور
پھر انہیں مختلف علاقوں میں بھیجا اس کے علاوہ آپ خود بھی کئی کئی گھنٹے
مسلسل درس دیتے تھے اور اصلاحی بیان فرماتے تھے جس میں نماز ،روزہ ،حج زکوۃ
،طہارت و پا کیزگی وغیرہ کے ضروری احکامات سمجھاتے تھے۔قرآن کریم کی تعلیم
کے لئے آپ نے اپنے مریدین میں سے حفاظ کو منتخب کیا اور حکم دیا کہ ان
علاقوں میں جاکرلوگوں کو قرآن کریم پڑھائیں آپ کے حکم کی تعمیل میں ان حفاظ
نے بلا معاوضہ قرآن کریم کی تعلیم دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو تین سال کے
عر صے میں قرآنی تعلیم عام ہو گئی آپ نے ضلع’’گیا‘‘ اور اس کے گردونواح میں
کئی مساجد قائم کیں اور ان میں باقاعدہ امام و مو ذن مقرر کئے ان علاقوں
میں دینی کتب کی کمی تھی جب آپ دوبارہ تشریف لے گئے تو دہلی سے کافی تعداد
میں دینی کتب اپنے ساتھ لے کر گئے اور وہاں کی مساجد و مدارس کے علا وہ لو
گو ں میں مفت تقسیم کیں۔آپ نے خود بھی بہت سی کتب تصنیف فرمائیں جواب بھی
مو جود ہیں اور انشاء اﷲ تعالیٰ وقتاً فوقتاً شائع کی جا ئیں گی ۔اس کے بعد
آپ کایہ معمول ہو گیا کہ ہر سال کلکتہ تشریف لے جاتے اور تین مہینے اسلامیہ
بلڈنگ میں زکریااسٹریٹ پر قیام فرماتے پھر ویہیں سے ضلع’’گیا‘‘اور اس کے
گردونواح کے دیگر علا قوں کا دورہ کر تے اور تبلیغی کام کا جا ئزہ لیتے
کلکتہ کے علاوہ بمبئی ،پونا ،گوالیار ،بنارس بہار اور لکھنووغیرہ میں آپ کے
مریدین کی کافی تعداد موجود تھی اور آپ ہرسال ان تمام شہروں کا دورہ فرماتے
تھے اسی طرح آپ نے چون ۵۴ سال سیاحت کی ہزاروں کو مسلمان کیا اور لاکھوں
مسلمانوں کو اصلاح کے ذریعے صراط مستقیم پر گامزن کر دیا ، لاکھوں افراد آپ
کے دست مبارک پربیعت کر کے سلسلہ اشرفیہ میں داخل ہوئے۔
کشف وکرامات:
یوں تو آپ کی ذات گرامی سے کشف وکرامات کے بیشمار واقعات ظہور پذیر ہو ئے
لیکن یہاں مضمون کی طوالت کے پیش نظر چند ایک ذکر کئے جاتے ہیں ہندوستان کے
صوبہ بہار کے ضلع ’’گیا‘‘سے کچھ دور نبی نگر ریلوے اسٹیشن سے ملحق ایک بستی
’’دیگونا‘‘کے نام سے آباد ہے۔یہاں ایک جا دوگر نے لوگوں کو ازحد پریشان اور
ہراساں کر رکھا تھا۔وہ ان سے اناج اور پیسے وصول کرتا اور جو شخص دینے سے
انکار کرتا جادو کے زور سے اس کے گھر اور کھیت میں آگ لگا دیا کرتاتھا۔حضرت
قطب ربانی کا قیام ان دنو ں کلکتہ میں تھا اس بستی کے مسلما نوں کوجب آپ کی
آمد کی خبر ملی تو انہوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ انہیں
مذکور جادوگر کے ساحرانہ مظالم سے نجات دلائی جائے حضرت نے درخواست منظور
فرمائی اور ان کے ہمراہ بستی دیگونا تشریف لے گئے جہاں ہزاروں افراد کی
موجودگی میں جادوگر سے زبردست مقابلہ ہو ا،آپ کے لئے ایک چارپا ئی کھیت کے
درمیان بچھادی گئی جس پر آپ تشریف فرما ہوئے ۔آپ نے اپناعصاز مین میں گاڑھ
دیا اور چاروں طرف حصار باندھ دیا جادوگر اور اس کے چیلے آپ کے سامنے
تقریباًبیس فٹ کے فاصلے پر بیٹھے ہو ئے تھے اس نے آپ پر پہلا حملہ یہ کیا
کہ آپکی چارپائی کے گرد آگ لگادی جب شعلے بلند ہو ئے تو مریدین گھبراگئے آپ
نے اس وقت کچھ پڑھ کر پھو نکا جس سے وہ آگ بجھ گئی اس کے بعد جادوگر نے آپ
پر کئی حملے کئے اور مختلف چیزیں سانپ اور دیگر زہر یلے جا نوروں کی شکل
میں آپکی طرف بھیجیں لیکن یہ سب چیز یں آپ کی چارپائی سے ایک فٹ کے فاصلے
پر آکر ختم ہو گئیں آخر میں اس نے اپنے تھیلے میں سے ایک لو ہے کا گھیرا
نکالا اور اسے سامنے رکھ کر کچھ پڑھنا شروع کیا تو وہ گھیرا فضا میں بلند
ہو گیا پھراس نے اشارہ کیا تو وہ گھیر ا آپ کی طرف آیااور آپ کے سر کے اوپر
دس فٹ کے فا صلے پر رک گیا۔اور اس میں سے آگ برسنے لگی اور ایک مرتبہ پھر
آپ کی چارپائی کے اطراف میں آگ لگ گئی پھر وہ گھیرا آہستہ آہستہ نیچے کی
طرف آنے لگا یہاں تک کے حضرت کے سر سے صرف دو فٹ کی بلندی پر رہ گیا جب آپ
نے ذرا تپش محسو س کی تو کچھ پڑھ کر اپنی انگلی سے اشارہ کیا آپکا اشارہ کر
نا تھا کے وہ گھیر ا تیزی کے ساتھ جا دوگر کی طرف پلٹا جا دوگر نے جب اپنے
ہی وار کو اپنی طرف آتے ہو ئے دیکھا تو گھبراگیا اور تیزی سے ایک طرف ہٹ
گیا گھیرا نہایت تیزی سے آیا اور ایک زوردار دھماکے کے ساتھ زمین میں دھنس
گیا اور اس جگہ سے پانی ابلنے لگا آپنے اپنی روحانی طا قت سے اس کا سارا
جادو سلب کرلیااور بلا آخراس نے آپ کی روحانی عظمت کے سامنے اپنی شکست کا
اعتراف کرلیا اور خود آپ کے قدموں میں گر کر توبہ کی اوراسلام میں داخل ہو
گیا جا دوگر کے ساتھ اس کے سو چیلے بھی مسلمان ہو ئے آ پ کی یہ کرامت دیکھ
کر اس بستی کے گردو نواح کے تقریباً چھ ہزار غیر مسلم مشرف بااسلام ہوئے
اور پھر سلسلہ اشرفیہ میں داخل ہو گئے آپ کی ذات سے سلسلہ اشرفیہ کو بڑا
فروغ حاصل ہو اآپ کی اس کرامت سے بستی والے ہمیشہ کے لئے اس آفت سے محفوظ
ہو گئے لو گوں نے خوش ہو کر آپ کی خدمت میں جو منقولہ اورغیر منقولہ املاک
پیش کیں آپ نے وہ تمام نو مسلم غرباء و مساکین میں تقسیم فرمادیں اور واپس
کلکتہ تشریف لے آئے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے رشدو ہدایت کے
سلسلے کو جاری رکھا۔
ہجرت پاکستان :
برکات فیوض اشرفی کی یہ شمع نور ۱۹۴۷ء تک دہلی میں فروزاں رہی اور تقسیم
ملک کے وقت حضرت قطب ربانی قدس سرہ نے معہ اہل وعیال کراچی ہجرت فرمائی آپ
پابندی قوانین شریعت پر زور دیتے تھے اور حاضرین مجلس و مریدین کو صوم و
صلوۃٰکی پا بندی کی تلقین فرماتے تھے ننگے سر بیٹھنے والے کو سخت نا پسند
کرتے تھے اور آداب محفل ملحوظ رکھنے کی سخت تا کید فرماتے تھے۔۱۹۵۶ء میں
اپنے ہندوستان کاسفر اختیار کیا اور خصوصیت سے اپنے فرزند اور جا نشین حضرت
ابو محمد شاہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی مدظلہ العالیٰ کو ساتھ رکھا اور
اٹھاراں شہروں کا دورہ کیاآپنے مریدین سے فرمایا: اب یہ میرا آخری دورہ ہے
اسکے بعدتم مجھ سے نہیں مل سکو گے لہذا جس کو مجھ سے ملنا ہو مل لے لو گ
زار و قطار روتے ہو ئے آتے تھے اور آپکی زیارت کر تے تھے اس دورے میں آپ نے
مریدین سے فرمایا میرے بعد شریعت وطریقت پرعمل کر نا لیکن شریعت کو ہر حال
میں مقدم رکھنا۔
خرابی صحت و وصال:
اس دورے کے بعد آپکی طبیعت خراب رہنے لگی علا لت کے باعث آپ حجرہ مبارک میں
رہنے لگے اور سارا کام اپنے جا نشین ابو محمد سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی
کے سپرد کردیا اور آپکے علاج کے لئے جب ڈاکٹر کرنل شاہ کو بلا یا گیا تو
انھوں نے کافی دیر آپ کا معائنہ کیا اور بعد میں مریدین سے کہا میں نے اپنی
عمر میں آج تک ایسا مریض نہیں دیکھا جب میں نے ان کے دل پر آلہ لگا یا تو
ان کے دل سے ’’اﷲ ھو اﷲ ھو ‘‘ کی آواز آرہی تھی ان میں روحانیت کا غلبہ
ہے۔اس علالت کے دوران آپ نے کراچی کے تمام قبرستانو ں کی مٹی منگواکر
سونگھی اور فرمایا یہ میری مٹی میں نہیں ملتی ہمارے لئے الگ ہی مقام ہو گا
ایک دن آپ چہل قدمی فرماتے ہو ئے اس مقام تک آئے جہاں آپ کامزار ہے مختلف
مقامات سے مٹی اٹھا کر سونگھی اور پھر ایک مقام کی نشا ندہی کر تے ہو ئے
فرمایا: ہماری مٹی اس جگہ کی ہے یہیں ہمارا مدفن ہو گا‘‘چنا نچہ ۷ اجمادی
الاول ۱۹۶۱ء میں حضرت قطب ربانی نے وصال فرمایاآپکی نمازہ جنازہ غزالی
دوراں حضرت علامہ سید احمدسعید شاہ کا ظمی نو رہ اﷲ مرقدہ نے پڑھائی اور
آپکا مزار مبارک آپکی نشان کردہ جگہ پر ہی بنا یا گیا۔
آپ نے اپنی زندگی میں اپنے فرزند اشرف المشائخ ابو محمد شاہ سید احمد اشرف
اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنی خاص نگرانی میں چلہ کشی کروائی اور
منازل سلوک عرفان طے کرانے کے بعدو قت کے جید علماء و صوفیا ء کی مو جودگی
میں سلسلہ اشرفیہ اور اس کے علاوہ دیگر سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عطا
فرمائی اور اپنا جانشین مقررکیاچنا نچہ حضرت قطب ربانی کے وصال کے بعد آپ
ہی حضرت کی درگاہ کے سجاد نشین مقرر ہو ئے آج یہ درگاہ پاکستان میں سلسلہ
اشرفیہ کا سب سے بڑا روحانی مرکز ہے۔حضرت سید احمداشرف الا شرفی الجیلانی
رحمۃ اﷲ علیہ چوالیس سال مسند سجا دگی پر رونق افروزرہے آپ نے 17دسمبر2005
ء میں وصال فرمایاآپ کے وصال کے بعد راقم الحروف کو سجادہ نشین کا شرف حاصل
ہو ا۔
والسلام مع الاکرام
شعبہ نشر و اشاعت
درگاہ عالیہ اشرفیہ ،اشرف آباد ،فردوس کالونی،کراچی
رابطہ نمبر:0321-25307 |