عمران خان اور حسن نیازی چچا بھتیجا؟

سولہ مارچ کے اخبارات میں یہ خبر سرخی میں شایع ہو ئ تھی کہ عمران خان کا بھتیجا حسن نیازی سٹی یونیورسٹی لندن میں طلبہ یونین کے صدارتی الیکشن کو صرف دو ووٹوں سے ہار گیا ۔ اور ساتھ اس نے دھاندلی کا بھی الزام لگایا ہے ۔ کہ مجھے ہرایا گیا ہے ۔ لیکن ساتھ اس پر بھی یہ الزام ہے کہ اس نے ایک پاکستانی معروف سیاستدان کے بارے میں کوئ نامناسب الفاظ استعمال کئے تھے ۔ جس کی وجہ سے اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ مانے یا نہ مانے لیکن چچا بھتیجا بالکل ایک جیسے ہیں ۔ دونوں کو الفاظ کے فرق کا بالکل بھی ادراک نہیں ۔ اس کے چچا عمران خان نے بھی دھاندلی دھاندلی کے کھیل میں عدلیہ کے لیے شرمناک کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ جو بعد میں عدالت کے بلانے پر یہ کہہ کر جان چھڑائ ۔ کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ شرمنا ک غلط لفظ ہے ۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ کہ شرمناک تو پانچ سال کے بچے سے بھی پوچھ لیں ۔وہ بھی اس کا مطلب بتا دے گا ۔ لیکن بقول (انقلابی ) حضرات کے عالمی سطح کے ایک لیڈر جو خیر سےملک پر وزیر اعظم سے کم عہدے کا خواب دیکھتا نہیں ۔ اس کو شرمناک کے لفظ کا معنیٰ معلوم نہ ہو ۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ اب آپ اندازہ لگا لیں ۔ کہ اس کے بھتیجے نے طلبہ یونین کے صدارتی انتخابات کے کمپئین میں اپنی تقریروں میں جو زبان استعمال کی ہے ۔ تو وہ کیسے الفاظ ہو نگے ۔جس سے کسی طالبعلم کی دل آزاری ہوئ ہو ۔ اور اس نے غصے میں اپنا رد عمل کا اظہار کیا ہوگا ۔ یاد رکھیں لوگ لیڈر کے رویے اس کے الفاظ اس کے الفاظ کے ہیر پھیر اور اونچ نیچ کو بہت گہرائ سے دیکھتے ہیں ۔ تو میر امطلب یہ ہے کہ عمران کو گیارہ مئی کے انتخابات میں جو ناکامی ہو ئ تھی ۔وہ بھی سو فی صد اس کے لہجے کی کڑواہٹ ۔اخلاقی گراوٹ اور الفاظ کی بے تکھے پن کی وجہ سے ہوئ تھی ۔ یاد رکھیں کہ دنیا میں قابل احترام لوگ اپنی زبان اور لہجے کی مٹھاس کی وجہ قابل احترام ہوتے ہیں ۔ عمران خان تو نیلسن منڈیلا کی مثالیں دے کر نہیں تھکتے ۔لیکن نیلسن منڈیلا کی طرح بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔وہ نیلسن منڈیلا کبھی اپنی تقریروں میں مخالف کے لیے کبھی بھی توہین آمیز یا سخت الفاظ جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔استعمال نہیں کرتے تھے ۔اور اسی لیے وہ عالمی دنیا کے لیے قابل احترام شخصیت تھے ۔ وہ ایک مشہور قول ہے ۔کہ کسی کی پہچان علم سے نہیں ہوتی ۔ بلکہ ادب سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ علم تو ابلیس کے پاس بھی بہت تھا ۔ لیکن ادب سے وہ محروم تھا ۔ اس لیے ان کو جا ن لینا چاہیے ۔ کہ اپنی لہجوں میں تبدیلی لانےکی کوشش کرے ۔ کسی کو گالی دینا اصل میں اپنے آپ کو گالی دینا ہے ۔ لیکن اس بات کا سیانے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے ۔ آج عمران واحد سیاستدا ن ہے۔جس نے کسی بھی پارٹی کے لیڈر شپ کو نہیں بخشا ۔اور آج ہر محاط پر بالکل یک تنہا ہے ۔ اور کوئ اس کا ہمنوا نہیں ہے ۔ جو لہجہ عمران خان کا تھا وہی لہجہ اس کے نونہال بتیجھے حسن نیازی نے بھی استعمال کیا ہے ۔ اور آج اس کا بھی وہی حال ہے ۔ جو اس کے چاچا کا ہے ۔ عمران خان کو یہ بات یاد رکھناچاہیے کہ نیلسن منڈیلا بننے کے لیے اپنی میں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا پڑے گا ۔ اور شیریں مزاری ،جہانگیر ترین ،شاہ محمود قریشی ،اور اعظم سواتی کےمشوروں سے جان بچانی ہوگی ۔ ورنہ آپکا مستقبل اصغر خان اور آپکی پارٹی کامستقبل اس کی تحریک استقلال سے بالکل بھی مختلف نہیں ہو گا ۔ اور وزیر اعظم بننا آپ کا خواب ہی رہ جا ئے گا ۔ اور اصغر خان کی طرح صرف ایک ڈائری ہی آپ کے سیاست کا کل اثاثہ رہ جائے گا ۔ اور آنے والے وقتوں میں کو ئ ایسا پاکستانی نہیں ہوگا۔جو آپ کے نام سے واقف ہو گا ۔ یاد رکھیں ۔ کہ ہمارے ملک کے موجودہ سیاستدانوں میں کو ئ ایسا نہیں ہوگا ۔ جس نے عروج کے وقت میں اصغر خان کے ہاں میں ہاں نہیں ملایا ہو گا ۔ لیکن آج وہ سب اصغر خان کے نام کو بھی بھول چکے ہیں ۔ اور کسی اور کی آنگن میں موسمی پرندے کی طرح اس کے پیا ر کے نعمے گا رہے ہیں ۔ یہ دنیا بہت ظالم ہے ۔ یہ جو شیخ رشید ،جہانگیر ترین ،خورشید قصوری ،اعظم سواتی ،اور علیم خان آج آپکی بلائیں لے کر نہیں تکتھے یہ ابھی کل کی بات ہے ۔ کہ اسی مشرف کے دست وبازو تھے،لیکن آج اس کا نام بھی لینا گوار نہیں کرتے ۔ بس آکے سمجھنا آپ کا کا م ہے ۔آپکےلیے پاکستان میں نواز شہباز سے زیادہ یہی تیرے ساتھی خطر نا ک ہیں ۔

syed abubakar ali shah
About the Author: syed abubakar ali shah Read More Articles by syed abubakar ali shah: 28 Articles with 20561 views 36 years old men .graduate and civil employer .write articles for hamariweb for learning in journalism... View More