امریکااور مشرف دونوں ہی بے وقوف تھے .....؟
کب ہم پتّھر کے دورسے نکلے ہی تھے ..؟اَب جو دوبارہ پتّھرکے زمانے میں جانے
سے ڈرتے ہیں..؟وہ توامریکا ہی بے وقوف تھاکہ جس نے سات سمندرپار رہ کر نائن
الیون کے واقعے میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہمیں شامل کرنے کے لئے
یہ دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستانیوں تم نے میری مددنہ کی تومیں تمہیں پتّھر
کے دور میں پہنچادوں گا، اور پھر اُس وقت کے ہمارے آمر صدر پرویزمشرف
امریکا سے کہیں زیادہ ہی بے وقوف ثابت ہوئے اور وہ پتّھر کے دورمیں رہ
کربھی پتّھر کے زمانے میں جانے سے ڈرگئے اور اُنہوں نے فوراََہی اِس بے
وقوفانہ امریکی دھمکی پر اپنی اور قوم کی پینٹ ڈھیلی کردی اور یوں وہ اُس
وقت نہ صرف خود امریکاکے سامنے مُرغابن گئے بلکہ آج تک ساری قوم کو
امریکیوں کے سامنے مُرغابناکر کھیسک گئے ،آج مُلک میں دہشت گردی اور بم
دھماکوں کے باعث جتنا بھی بُراہورہایہ سب اِن کا کیادھراہے ،یعنی جیسی کرنی
ویسی بھرنی اِن دِنوں پرویزمشرف اسیری میں ہیں اور اپنی آزادی کی فکرمیں
دُبلے ہوئے جارہے ہیں،دیکھتے جائیے کہ آنے والے دِنوں میں اِن کی قسمت
کیاگُل کِھلاتی ہے تب کی تب دیکھی جائے گی ۔
ہاں توابھی میں بات کررہاتھا پتّھر کے زمانے کی تو یقین جانیئے کہ ہم تو
ابھی اُسی پتّھر کے ہی دورمیں جی رہے ہیں،جب اِنسان اِنسان کے خون کا
پیاساتھا، چارسو جاہلت کا اندھیراتھا، اور زندگی کی کوئی اُمیدنہیں
تھی،زندگی کا مقصدکوئی نہیں جانتاتھا، حیوانوں جیسی زندگی بسرکرنااِنسانوں
کا طریقہ تھا،کہیں کوئی نظم وضبط نام کی کوئی چیزنہ تھی، غرض کے ساری
بُرائیاں عام تھیں،اور آج بھی ہمارے یہاں وہ سب کچھ اُسی طرح موجودہے جیسے
کہ دورجاہلت میں تھا، گو کہ آج جس طرح میں سینہ ٹھونک یہ کہہ رہاہوں کہ ہم
آج بھی اُسی پتّھر کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جیسے کہ ہم سے پہلے سے
پہلے والے اور اِن سے بھی پہلے والے(یعنی کے ہمارے پُرکھے) پتّھر کے دورمیں
تھے آج بھی یکدم اُسی طرح ہم بھی اُسی زمانہ قدیم کے پتّھر والے وقت کی رسم
رواج میں زندہ رہ کر خودکوناکارہ بناچکے ہیں ۔
آج بھی ہمارے مُلک اور معاشرے میں زمانہ قدیم والے ظالم نظام کا تسلط ہے،
جی ہاں اُسی ظالم نظام کا تسلط جس میں ایک جاہل پنجایت کا سرغنہ بن
کراپنافیصلہ سُنادیاکرتھا،اور مظلوم کو سزامل جاتی تھی اور قاتل اور ظالم
بری ہوجایاکرتاتھا، آج بھی ہمارے مُلک اور معاشرے میں اُسی زمانے کے ظالم
پنچایتی سربراہان کی باقیات موجود ہیں،اور آج اِس جدید اور سائنسی 21ویں
صدی میں بھی دورِ جاہلت کی پنچایتی کمیٹیوں کے کارندوں نے اپنی بربریت کا
بازار گرم کررکھاہے، آج اگر ہم سب نے اِن کے ظالمانہ اور اِنسانیت سوز
پنچایتی فیصلوں کے خلاف آوازبلند نہ کی توبرادریوں کی سطح پر قائم یہ ظالم
پنچایتی کمیٹیوں کے جاہل سرغنے آئین اور قانون کی رٹ کو یوں ہی چیلنچ کرتے
رہیں گے، اوراپنی پنچایتوں میں اُسی دورِ جاہلت کے اِنسانیت سُوزفیصلے سُنا
کر بے قصور کوخطاوار اور خطاوارکو بے قصورگردان کر اِنصاف اور اِنسانیت کا
گلاگھونٹتے رہیں گے۔آپ کو میراکام تو آئینہ دکھاناتھا سو میں نے دِکھادیاہے
اور اَب آگے آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ اپنے اند ر پنچایتی کمیٹیوں کے خلاف
کتنی آوازبلندکرنے کی سکت رکھتے ہیں اور میرے کالم سے متفق ہوکر میری
آوازسے آوازملاکر قدیم پنچایتی کمیٹیوں اورجرگوں میں اَنڈہ سنڈہ فیصلے کرنے
والوں کا قلع قمع کرنے کے لئے متحرک ہوتے ہیں۔
اَب کیاچینوٹ میں پنچایت کا ہونے والافیصلہ قانونی اور اِنسانی تقاضوں کے
مطابق قراردیاجاسکتاہے ..؟اور کیا آج یہ فیصلہ دورِ جاہلت اور اُس قدیم
پتّھر کے دورکی تہذیب والانہیں لگتاہے کہ جب اِنسان اور خاص کر عورت کو
جانور سے بھی حقیر اور کم ترسمجھاجاتاتھا...؟توآج کیا ہم سب مل کراِس سمیت
ایسے اور دیگر فیصلوں کے خلاف اپنی آوازبلندنہ کرسکتے ہیں ..؟جینوٹ میں جس
پنچایتی فیصلے نے ونی کی گئی (20سالہ بلقیس نامی) لڑکی سے درخت کے ساتھ
برہنہ باندھ کر اجتماعی زیادتی کی گئی ،اور لاڑکانہ میں مسلم لیگ (ن) کے
ایم این اے غوث بخش مہر کی سربراہی میں جرگے نے شکارپورمیں 2لڑکیوں کو کاری
قراردے کر قتل کردیاگیاجبکہ لڑکوں کو قتل سے بچنے کے لئے 4لاکھ جرمانہ دے
کر اِنہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیااور خانیوال میں گھریلورنجش کے سبب
شوہر نے بیوی پر تیزاب پھینک دیا، اورکیا یہ دورِجدیدکا انسانیت سُوزظلم
نہیں ہے کہ مظفرگڑایک معصوم آمنہ نامی فرسٹ ائیر کی طالبہ کے ساتھ بدکرداری
کی گئی اور اِس کی عزت کو تارتارکیاگیاوہ 5جنوری سے وسط مارچ تک اِنصاف کی
بھیک مانگتی رہی مگر اِس ظالم سماج کی پتّھر کے دوروالی تہذیب اور روایات
نے اِسے اِنصاف نہیں دلایاتو اِس نے خودسوزی کرکے اﷲ کے دربار میں حاضرہوکر
جب اِنصاف کی فریاد کی تو زمینی خداؤں کے مُردہ ضمیرمیں حرکت آئی اور آج
پتّھر کے دورمیں رہنے والے ہمارے زمینی حکمرانوں نے آمنہ کی خودکشی کا نوٹس
لیا تو اِسے مرنے کے بعد زمین پراِنصاف ملنے کی کچھ اُمیدبندھ سی گئی ہے
مگر قانونی ماہرین کا ابھی خیال یہ ہے کہ اِس معاملے میں علاقہ پولیس
مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے میں اِدھراُدھرلگی پڑی ہے جس کی وجہ سے شاید
آمنہ کے مجرموں کواُس طرح سے سزا نہ مل سکے جس کے وہ حقدار ہیں ۔مندرجہ
بالاسطورمیں ،میں نے ابھی جو زمانہ قدیم یعنی پتھر کے دورجیسے دردناک اور
ہولناک پنچایتی کمیٹیوں اور جرگوں کے فیصلوں کے حوالوں سے جو واقعا ت قلم
بندکئے ہیں کیا کوئی اِس سے انکارکرسکتاہے کہ آج ہم اِس 21ویں صدی کے
گلوبلایزیشن والے جدیداور سائنسی دور میں زندہ ہیں جہاں قانون کی پاسداری
اور احترام لازمی ہے ،جہاں ترقی اور دریافت کی پوجاکی جارہی ہے ، اور زمانہ
قدیم یعنی پتھر کے دورکی تہذیبوں اور روایات کو بھی دورِ جدیدکے تقاضوں کے
مطابق ڈھالاجارہاہے مگر افسوس ہے کہہمارے یہاں ایسانہیں ہورہاہے،ہم آج بھی
اپنی بنائی گئیں ظالم پنچایت کمیٹیوں اور جرگوں کے فیصلوں کی ہی بھینڈچڑھ
رہے ہیں اور زمانہ قدیم پتھرکے دورکی یادیں تازہ کئے ہوئے ہیں،اوہ اﷲ کے
بندوں نکلواِس سوچ اور پتھرکے زمانے سے اور آگے بڑھ کر تھام کو اسلام کی
تعلیمات اور جدیدسائنسی علوم کو جس میں جابجااِنسان اور اِنسانیت اور قانون
کے احترام کا درس ملتاہے اور چھوڑ دواِس پتھرکی تہذیب کو جس میں غرق رہ کر
ہم دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں تو ایسے میں کیا یہ سوال پیدانہ ہوکہ ’’کب ہم
پتھرکے دورسے نکلے ہی تھے جو دوبارہ جانے سے ڈرکربھاگ رہے ہیں...‘‘ارے
بھائی ہم تو ابھی پتھرکے ہی دورمیں زندہ ہیں مگردعویٰ کرتے ہیں کہ 21ویں
صدی کے دورمیں سانس لے رہے ہیں جبکہ یہ غلط ہے۔ |