مشرف سے ڈیل، ن لیگ اعتراف کیوں نہیں کرتی؟

گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے کے دوران ملک کے سیاسی حالات میں جو گرما گرمی دیکھنے میں آئی ا س کے پیش نظر بہت سوں کا خیال تھا کہ کوئی نہ کوئی ”انہونی“ ہونے والی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے ٹرائل کی رٹ، حکومت کو رویہ درست کرنے کے لیے 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن، قاف لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اپنے ”بڑے صاحب“ کے تحفظ اور پھر حکمران پیپلز پارٹی کا بدلا ہوا لہجہ، سب ایسے عوامل تھے جو واقعتاً کچھ نہ کچھ ہونے کا عندیہ دے رہے تھے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ”مفاہمتی“ کے بجائے ”روایتی“ بیات کا اٹ کھڑکا شروع ہوا تو ”تبدیلی“ کا راستہ دیکھنے والوں کا مؤقف مزید ٹھوس ہوگیا لیکن سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی جانب سے خصوصی طیارے پر مشرف کی لندن سے جدہ طلبی اور عین اسی وقت وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی سعودی عرب روانگی نے تمام امیدوں، خوش فہمیوں اور اندازوں کو دھڑام کر دیا ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ مشرف کی جدہ میں موجودگی کے دوران میاں نواز شریف کے خصوصی ایلچی بھی سعودی عرب گئے تھے اور باہم گفت و شنید کے بعد دس برس قبل میاں برادران کو پناہ دینے والوں نے ان سے پرویز مشرف کی ”معافی“ کا مطالبہ منوالیا ہے جس کے بعد عنقریب ن لیگ ٹرائل کا شور بند کردے گی۔ اگرچہ ن لیگی ذرائع ان تمام اطلاعات کی تردید کر رہے ہیں لیکن حالات کے پھر سے معمول پر آنے اور اس سلسلہ میں غیر ملکی کردار نے پہلے میاں برادران، بے نظیر بھٹو کی واپسی اور پھر پرویز مشرف کی رخصتی باقاعدہ ڈیل کے تحت ہونے کی باتیں سچ ثابت کردیں ہیں۔ جمہوری ”انتقام “ کے ذریعے آمریت کے خاتمے کو”فتح“قرار دینے کے بعد نئی محاذ آرائی نہ چاہنے کے مؤقف کے ذریعے پیپلز پارٹی تو اس ڈیل کا اعتراف کرچکی لیکن اہلیان رائے ونڈ تاحال پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ میاں برادران کی مسلسل ”ناں“ کی وجوہات ہی ہمارا آج کا موضوع ہیں لیکن اس سے قبل متذکرہ ڈیل کے حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں قومی اسبملی میں جب یہ کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا کیس قابل عمل نہیں ہے تو دراصل وہ اشارتاً ان غیر تحریری یقین دہانیوں کا حوالے دے رہے تھے جوباوثوق سیاسی اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد، عسکری قیادت اور پاکستان کے معتمد دوستوں نے گزشتہ برس 18 اگست کو پرویز مشرف کے استعفے سے پہلے انہیں کرائی تھیں۔ گزشتہ برس(مشرف کی رخصتی کے وقت)11 سے 18 اگست تک اقتدار کے ایوانوں میں کیا کچھ ہوا، اس بار ے میں جاننے والے مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرف کی رخصتی کے حوالے سے جو سمجھوتا طے پایا اس میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت جس میں صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن، برطانیہ کے خصوصی نمائندے برائے پاکستان مارک لائل گرانٹ اور سعودی بادشاہ کے خصوصی ایلچی شامل تھے۔ ایک سینئر افسر جو پرویز مشرف کی رخصتی سے پہلے کے فیصلہ کن ہفتے میں ہونے والی پیشرفت سے براہ راست آگہی رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کی غرض وغایت یہ تھی کہ پرویز مشرف کو باوقار انداز میں ایوان صدر سے رخصت کیا جائیگا اور یہ ضمانت دی جائے گی کہ نہ تو انکا مؤاخذہ ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں ان کے خلاف کوئی اور عدالتی کارروائی ہوگی۔ اس معاہدے میں اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل بعید میں مشرف سے کیا ہوتا ہے لیکن وعدہ ضرور ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادی پرویز مشرف کو سرکاری سطح پر بے توقیر نہیں کرینگے۔ وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ صدر زرداری نے بھی گزشتہ ماہ رائے ونڈ میں ملاقات میں بھی کچھ محاذ آرائی چھوڑنے کی بات کر کے نوازشریف کو ڈیل ہی کی یاد دہانی کروائی تھی ۔

سعودی عرب کے علاوہ برطانیہ نے بھی مشرف کی رخصتی کے حتمی معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس موقع پر برطانیہ کی جانب سے سر مارک لائل گرانٹ کو بھیجا گیا تھا۔ سر گرانٹ کی آمد ایک اہم موڑ تھا، ان کے پاس مشرف کو اس امر پر قائل کرنے کیلئے درکار اہلیت بھی موجود تھی اور اثرورسوخ بھی، انہوں نے اسی اثناء میں زرداری اور نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ مشرف کی رخصتی کے دوران معاملات خراب نہ کریں۔ اس ڈیل کے آخری پیچ جنرل کیانی نے کسے جن سے برطانوی مندوب نے سب سے آخر میں ملاقات کی۔ سر مارک لائل گرانٹ 14 اگست2008ء کو واپس لندن گئے تو مشرف کے اقتدار کے ڈرامے کا آخری ایکٹ لکھنا شروع کر دیا گیا ۔ سرمارک لائل گرانٹ کے جانے کے محض ایک دن بعد ہی فنانشل ٹائمز نے " الوداع مشرف" کی سرخی کے ساتھ اپنا ایڈیٹوریل لکھا تھا۔ جس میں ویسی ہی نصیحت اعلیٰ سیاسی پاکستانی قیادت کو دی جیسی مارک لائل گرانٹ نے دی تھی۔ اخبار نے لکھا تھا کہ حکمران اتحاد کو ضرورت سے زائد عملیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان بحران کی ایک اور تہہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لندن سے واشنگٹن، ریاض سے اسلام آباد تک بہت سی تہہ دار کوششوں کے بعد نوازشریف کو مشرف کی رخصتی میں رخنہ ڈالنے سے باز رہنے پر رضامند کیا گیا۔

18اگست 2008ء کو جب پرویز مشرف اپنے استعفے کی تقریر کی تیاری کیلئے اپنے کمرے میں گئے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل طارق مجید ، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم تاج اور کور کمانڈرراولپنڈی جنرل محسن کمال نے انہیں مستقبل میں اپنے اچھے سلوک کیلئے دلی یقین دہانی کروائی۔ جبکہ عالمی سطح پر بھی مشرف کو ایسے ہی پیغامات ملے جو ٹیلیفون کالز کی شکل میں آئے۔ ان پیغامات میں اس وقت کے امریکی نائب صدر ڈک چینی، سیکرٹری آف اسٹیٹ کنڈولیزا رائس کی کالز شامل تھیں۔ اسی اثناء میں اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن فوجی و سیاسی قیادت سے ملنے اور ٹیلی فونز پر کام کر رہی تھیں۔ سیاسی محاذ پر مارک لائل گرانٹ اور این ڈبلیو پیٹرسن نے زرداری اور گیلانی سمیت اہم سیاسی قیادت (بشمول ن لیگ) سے یقین دہانی حاصل کرلی تھی کہ وہ مشرف کے مؤاخذے یا مستقبل میں ان کے خلاف مقدمے کا نہیں سوچیں گے۔ علاوہ ازیں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی سابق صدر کو یقین دہانی کروائی کہ وہ انہیں عدالت میں گھسیٹنے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس حوالے سے پس منظر میں ایک دلچسپ ملاقات بھی ہوئی، یہ ملاقات مشرف اور اے این پی کے صدر اسفند یار ولی کے مابین ہوئی، تاہم مشرف کے مستقبل کے تنازع کے عروج پر ہونے والی یہ ملاقات میڈیا سے خفیہ رہی اور یوں پرویز مشرف کو باقاعدہ گارڈ آف آنر دے کر ایوان اقتدار سے رخصت کردیا گیا۔

پیپلز پارٹی تو جمہوریت کے ذریعے ”انتقام“ کو فتح قرار دینے اور ملک مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیں کے بیانات کے ذریعے واضح طور پر مندرجہ بالا ڈیل کا اعتراف کر رہی ہے لیکن مسلم لیگ(ن) تاحال اعتراف سے کنی کترا رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کراچی اترنے کے بعد فقید المثال استقبال کے نشے میں واپسی کیلئے طے تمام شرائط بھول گئی تھیں بالکل اسی طرح میاں برادران حکومتی اقدامات کے رد عمل میں پیپلز پارٹی سے عوام کی دوری اور مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں اضافے کے سبب خود کو ڈیل کی پابندیوں سے آزاد تصور کرنے لگے ہیں۔ میثاق جمہوریت سے انحراف کے الزامات، وزارتوں سے علیحدگی اور پھر عدلیہ آزادی کے لیے لانگ مارچ کے بعد حاصل ہونے والی عوامی پذیرائی بھی ڈیل کا وجود ہونے کے باوجود اس سے مسلسل انکار کی بڑی وجہ ہے جبکہ سیاسی سطح پر بدنامی اور شدید رد عمل کا خوف بھی مسلم لیگ (ن) کے اعتراف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس کے باوجود موجودہ پیش رفت کے بعد ن لیگی قیادت کو مشرف ٹرائل کے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑے گا کیونکہ ڈیل کے ضمانتی (جو کہ میاں برادران کے محسن بھی ہیں) بھی یہی چاہتے ہیں اور ان کی ناراضگی مول لینا ن لیگ کے لیے کسی بھی طرح سود مند نہیں۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.