لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کو ہدایت
کی ہے کہ صوبے میں چینی چالیس روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت کی جائے
اور کہا ہے کہ حکومت ذخیرہ کی گئی چینی کو برآمد کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے کہا ہے کہ صوبے بھر میں تمام سستے
بازاروں اور کھلے بازار میں چینی یکساں قیمت یعنی چالیس روپے کلو میں فروخت
کی جائے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے چینی کے بحران کے
ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت شروع کی تھی۔ تازہ عدالتی فیصلے سے
پہلے حکومت نے خصوصی سستے بازاروں میں چینی کی فی کلو قمیت سینتالیس روپے
مقرر کر رکھی تھی جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ پچپن سے ساٹھ روپے کلو تک فروخت
ہورہی ہے۔ جمعرات کو دو رکنی بنچ کے روبرو شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل نے
پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کیا اور کہا کہ چینی کے بحران کی ذمہ داری ٹریڈنگ
کارپوریشن آف پاکستان یعنی ٹی سی پی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ
کارپوریشن نے سات لاکھ ٹن چینی ذخیرہ نہیں کی اس کے علاوہ گنے کی پیدوار
بھی کم ہوئی اور حکومت نے بھی گنا اسی کی بجائے ایک سو چالیس روپے من کے
حساب سے خریدا۔ انہوں نے کہا کہ پیدوار کم ہونے پر حکومت کو چاہیے تھا کہ
وہ خام چینی برآمد کرلیتی لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس اعجاز چودھری نے
ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گنے کی کم پیدوار کی ذمہ دار شوگر ملیں ہیں جنہوں
نے کاشتکار کو بروقت ادائیگی نہیں کی اور اس نے فصل کو کم کاشت کیا۔ عدالت
نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹی سی پی نے سال دوہزار آٹھ اور نو میں چینی
اٹھائیس روپے فی کلو کے حساب سے خریدی تھی اور وفاقی حکومت بھی یوٹیلیٹی
سٹورز کو یہ چینی چھتیس روپے کلو قمیت پر فراہم کررہی ہے۔ عدالت نے چیف
سیکرٹری پنجاب کو کہا کہ وہ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینشن آفیسرز کو
ہدایت کریں کہ چینی کی چالیس روپے فی کلو کی قیمت پر فروخت پر یقینی بنائیں۔
پنجاب کے وزیر خوراک ندیم کامران کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد
ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور چینی کے قمیت ہائی کورٹ کے فیصلے
مطابق کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ادھر شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب
نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا
ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ حکومت فیصلے پر عمل کرے گی۔
چینی بحران کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب
تلاش کریں تو شوگر مل مالکان اور حکومت دونوں ہی ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔
ملک میں ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی جانے والی گنے کی فصل جو کہ پاکستان
کی 83 شوگر ملوں جن میں سے 45 پنجاب،31سندھ، اور7سرحد میں واقع ہیں کو خام
مال فراہم کرتی ہے کہ کاشتکاروں کو ناقص منصوبہ بندی اور شوگر مل مالکان کی
ہٹ دھرمی نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پاکستان دنیا میں گنے کی کاشت کے لحاظ سے
پانچواں بڑا ملک ہے جس کے کل رقبے کے 28فیصد پر گنا کاشت ہوتا ہے جس کی کل
پیدوار5 کروڑ 53 لاکھ85 ہزار ٹن ہے ۔ 2007-08 کے کرشنگ سیزن میں حکومت
پاکستان نے گنے کے کاشتکاروں سے 62روپے فی من گنا خریدنے کا وعدہ کیا تھا
جس کی وجہ سے کسانوں نے کپاس والے علاقوں میں بھی گنا کاشت کیا جس سے کاشت
میں 12فیصداضافہ ہوگیا لیکن جب کرشنگ سیزن کا آغاز ہوا تو شوگر مل مالکان
نے گنے کے نرخ62 کے بجائے 34 سے 40 روپے فی من مقرر کر دیئے۔ حکومتی عدم
توجہی کی بدولت انہوں نے کسانوں کو خوب ذلیل کیا اور خریدے گئے گنے سے
45لاکھ ٹن چینی تیار کی جو کہ ملکی ضروریات سے 5لاکھ ٹن زیادہ تھی۔
شوگر مل مالکان کے ستائے کاشتکاروں نے اگلے سیزن (2008-09) میں گنے کی کاشت
کم کردی جس کا اثر یہ ہوا کہ رواں سال چینی کی پیدوار بھی کم ہو کر 3.67
ملین میٹرک ٹن رہ گئی جو کہ ملکی ضروریات سے 10سے 8 لاکھ ٹن کم ہے، طلب اور
رسد میں یہی فرق موجودہ بحران کا اصل سبب ہے۔ 2009ء کے شروع میں حکومت کو
شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ہمیں سال بھر کی کھپت کے
لیے 10لاکھ ٹن چینی کی اشد ضرورت ہے لیکن حکومت نے ملکی ضروریات کو پس پشت
ڈالتے ہوئے دس لاکھ کے بجائے محض 75ہزار ٹن چینی درآمد کی جس کا خمیازہ آج
عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے |