جن اسباب سےہندوستانی مسلمان سیاسی زوال و انحطاط کے شکا
رہیں ان کی ایک طویل لسٹ ہے جن میں سرفہرست یہ ہے کہ قانون ساز اداروں میں
مسلمانوں کی نمائندگی ختم ہوتی جارہی ہے آبادی کی تناسب سے پارلیمنٹ اور
اسمبلی میں ان کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ پورے ملک میں لوک
سبھا کی کل 150 سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پر مسلمان فیصلہ کن حیثیت کے مالک ہیں۔
ان 150 سیٹوں سے ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں پریشان ہیں اسی کی وجہ سے گزشتہ
دو تین لوک سبھا انتخابات سے ملک میں مسلمانوں کے ووٹ کو لے کر سب سے زیادہ
چرچا ہو رہا ہے۔ یہ سیٹیں ملک کی 16 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اتر پردیش
میں ان لوک سبھا سیٹوں کی تعداد 45 ہے، بہار میں 17، مغربی بنگال اور
مہاراشٹر میں 14-14، کیرالہ اور کرناٹک میں 10-10، آندھرا پردیش اور آسام
میں 7-7، جھارکھنڈ میں 6، جموں و کشمیر اور گجرات میں 5-5، جب کہ اتراکھنڈ،
دہلی، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں سے ہر ایک ریاست میں 2-2 لوک
سبھا سیٹیں ہیں۔ 2004 اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی صورتِ حال
تقریباً ایسی ہی تھی، لیکن ان 150 سیٹوں پر فیصلہ کن حالت میں ہونے کے
باوجود بھی 2004 میں صرف 34 اور 2009 میں 29 مسلم امیدوار ہی منتخب ہو کر
لوک سبھا میں پہنچے تھے۔ 1952 سے لے کر اب تک جتنے بھی لوک سبھا انتخابات
ہوئے، ان میں سے صرف 1980 کے انتخابات میں 10 فیصد مسلم امیدوار منتخب ہو
کر لوک سبھا میں پہنچے تھے، یعنی 14 فیصد سے زیادہ کی آبادی ہونے کے
باوجود لوک سبھا میں ان کی نمائندگی 1980 کے لوک سبھا انتخابات کو چھوڑ کر
اب تک دو فیصد بھی نہیں سکی ہے۔
پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کی وجوہات کئ ایک ہیں ،پہلی وجہ
یہ ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو کم ٹکٹ دیتی ہے دوسری وجہ
یہ ہے کہ، خود مسلمانوں میں قیادت اور لیڈر شپ کا زبردست بحران ہے۔ لیکن اس
کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ملک کا ڈی لمی ٹیشن قانون (Delimitation Act)
ہے، جو مسلمانوں کے لوک سبھا تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
1950 میں صدرِ جمہوریہ ہند نے آئین کی دفعہ 341 کے تحت کانسٹی ٹیوشن (شیڈول
کاسٹ) آرڈر، جاری کیا تھا،جس کے تحت صرف ہندوؤں کو ہی انتخابی حلقوں میں
ریزرویشن کا مجاز سمجھا گیا . مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس سے خارج کر دیا
گیا جو ملک کے سیکولر آئین کے سراسر خلاف تھا.
لوک سبھا کی اس وقت کل 543 سیٹیں ہیں، لیکن مسلمان اور عیسائی صرف 413
سیٹوں پر ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں، کیوں کہ 84 لوک سبھا سیٹوں کو شیڈول کاسٹ
کے لیے ریزرو کر دیا گیا ہے۔ ڈی لمی ٹیشن قانون کے تحت ملک کے ایسے زیادہ
تر علاقوں کو ریزروڈ کانسٹی ٹیونسی قرار دے دیا گیا، جہاں پر اکثریت
مسلمانوں کی ہے اور شرط یہ لگا دی گئی کہ وہاں سے صرف کوئی ایس سی (شیڈول
کاسٹ) امیدوار ہی الیکشن لڑ سکتا ہے۔
حکومت ہند نے ڈی لمی ٹیشن کمیشن ایکٹ بناکر ’ڈی لمی ٹیشن کمیشن‘ یا
’باؤنڈری کمیشن‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کمیشن قائم کر رکھا ہے، جس کا
بنیادی کام تازہ مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلی اور لوک سبھا کے لیے حلقہ
انتخاب یا کانسٹی ٹیونسی کی حد بندی کرنا ہے۔ اب تک ڈی لمی ٹیشن کمیشن کا
قیام چار بار عمل میں آچکا ہے، 1952 میں، 1963 میں، 1973 میں اور 2002 میں۔
یہ ایک مکمل با اختیار کمیشن ہے، جسے کسی بھی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں
کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے دی گئی ہدایت کو لوک سبھا اور ریاستی
اسمبلیوں کے لیے ماننا لازمی ہے۔ اس کمیشن کی وجہ سے ملک کی ہر ایک ریاست
کی لوک سبھا میں نمائندگی میں تو کوئی فرق نہیں پڑا ہے، البتہ ہر نئی مردم
شماری کی بنیاد پر ایس سی )شیڈول کاسٹ( اور ایس ٹی )شیڈول ٹرائٹ( کی سیٹوں
میں کمی بیشی آتی رہی ہے۔
تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ 2001 کی مردم شماری کے بعد ڈی لمی ٹیشن کمیشن کو
12 جولائی، 2002 کو قائم کیا گیا اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، جسٹس کلدیپ
سنگھ کو اس کا چیئر پرسن بنایا گیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی، لیکن
اسے نافذ نہیں کیا گیا، لہٰذا اسے نافذ نہ کرنے کی ایک عرضی پر سماعت کے
بعد ہندوستانی سپریم کورٹ نے دسمبر 2007 میں مرکزی حکومت کو ایک نوٹس جاری
کیا، جس پر کارروائی کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی طرف سے 4 جنوری، 2008 کو
پارلیمانی امور سے متعلق کیبنٹ کمیٹی )سی سی پی اے( نے ڈی لمی ٹیشن کمیشن
کے آرڈر کو نافذ کرنے کا فیصلہ لیا اور اسے 14 جنوری، 2008 کو ملک میں
نافذ کیا گیا۔ اس کا نام رکھا گیا ’ڈی لمی ٹیشن )امینڈمنٹ( ایکٹ 2008۔
کمیشن کے ذریعے پیش کی گئی سفارشات کو اُس وقت کی صدرِ جمہوریہ محترمہ
پرتبھا پاٹل نے 19 فروری، 2008 کو اپنی منظوری دے دی، جس کا مطلب یہ ہے کہ
ہندوستان میں ریاستوں کے آئندہ جتنے بھی انتخابات ہوں گے، وہ کمیشن کے
ذریعے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیوں میں ہی ہوں گے۔ یہ عمل 2026 کی
مردم شماری کے منظر عام پر آنے سے پہلے تک جاری رہے گا۔
حکومت نے اس اقدم کے ذریعے قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کوجانے سے روکنے
کی خطرناک کوشش کی ہے، جس میں اسے مسلمانوں کو سیاسی زوال وانحطاط سے دوچار
کرنے میں آسانی کے ساتھ کامیابی مل گئ ہے. اور اس قانون کے رہتے ہوئے
سولہویں لوک سبھا میں میں بھی مسلمانوں کو خاطر خواہ کامیابی ملنے کی امید
نہیں . |