بلا حکومت اور آئی ایس آئی

وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف کے دلربا مور کو کھانے والا بلا بالآخر جاتی امراء سے متصل کھیتوں میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔اﷲ جانے یہ ماورائے عدالت قتل تھایا عین قانون و انصاف کے مطابق لیکن مجرم کیفرکردار کو پہنچا۔مور اب جہاں ہے اس کی روح کو سکون مل گیا ہو گا ۔وزیراعظم کا دکھ وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے کبھی اپنے کسی پیارے کو یوں اچانک کھو دیا ہو لیکن اس بات سے انہیں بھی اطمینان ہوا ہوگا کہ اس ملک میں قانون کی عملداری ہے اور کوئی مجرم جرم کے بعد شہباز کے پنجوں سے بچ نہیں سکتا۔کہتے ہیں انصاف وہ جو ہوتا نظر آئے اور انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہے۔اس مقابلے میں اس وحشی بلے کے مارے جانے کے بعددوسرے بلوں کو بھی کان ہو گئے ہوں گے کہ جاتی امراء کے مور کھانے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔اگر کسی بیماری وغیرہ کے علاج کے لئے مور کھانا ناگزیر ہو تو بھی شریفوں کے موروں کی جگہ چڑیا گھر کے مور موجود ہیں جن سے کام چلایا جا سکتا ہے۔جن کی تعداد اب بیس کروڑ سے تجاوز کرنے والی ہے۔اس سے جہاں بلوں کا بھلا ہوگا وہیں ریاست میں موروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔

وزیر اعظم کا دل تو ٹھنڈا ہو گیا اور پولیس والے بھی معطلی سے بچ گئے لیکن بھولا ابھی تک دکھی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی پھبن دیکھنے والی تھی۔کھلا کھلا چہرہ،لال گلابی رنگت اورہر وقت مسکرانے والا شخص خدا جانے کہاں گم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسے شخص نے حکومت سنبھال لی ہے جس کے چہرے پہ ہمہ وقت ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔جس کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے اور جس کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھنے کے لئے اب رعایا باقاعدہ منتیں ماننے لگی ہے۔ڈرا سہما اور پریشان حال ایک شخص وزیر اعظم کے بہروپ میں دکھائی پڑتا ہے۔وہ عبداﷲ گل سے اپنے وزیر اعظم کا تقابل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ترکی کے صدر کے چہرے کودیکھ کے ایک امید پیدا ہوتی ہے اور میاں صاحب کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی نوزائیدہ امید جگہ ہی پہ فوت ہو جاتی ہے۔بھولا کیا جانے کہ" نمبر ون "ہونے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔کچھ پانے کے لئے کئی دفعہ بہت کچھ نہیں سب کچھ کھونا پڑتا ہے۔وزیر اعظم بے چارے مختلف حیلے بہانوں سے اسمبلی میں اکثریت لے کے برسر اقتدار آ تو گئے ہیں اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ پیچھے گڑھا ہے اور آگے کھائی۔نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ایسے میں چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا ہے ۔لالیاں اڑتی ہیں اور مسکراہٹ غائب ہوا کرتی ہے۔

اس ملک کا وزیر اعظم کیسے مسکرائے گا جو ایک سابق آرمی چیف پہ آئین شکنی پہ غداری کا مقدمہ چلا رہا ہو اور جس کی گود میں بیٹھ کے ایک مولوی آئین کو سرے سے ماننے ہی سے انکاری ہو۔اس وزیر اعظم کے چہرے کا رنگ کیسے پھیکا نہیں پڑے گا جو اس ماما قدیر کو پروٹوکول اور تحفظ دینے پہ مجبور ہو جو سرے سے ریاست ہی کو نہ مانتا ہو اور اسے توڑنے کی جدوجہد کر رہا ہو۔اور اس کا سر عام اعلان کرتا پھر رہا ہو۔

ایوب خان کے دور میں کہتے ہیں کہ دو کتے سرحد پہ ملے۔ایک بھارتی تھا اور دوسرا پاکستانی۔پاکستانی انتہائی پلا ہوا اور بھارتی کتا فاقہ زدہ لگتا تھا۔حال احوال کے بعد پاکستانی کتے نے بھارتی کتے سے پوچھا۔کہاں کا قصد ہے؟ جواب آیا بھارت سے پاکستان جا رہا ہوں۔ہندو گوشت کھاتے نہیں مسلمانوں کو کھانے نہیں دیتے اور اپنا تو رزق ہی مالک نے ہڈیوں اور گوشت میں رکھا ہے۔بھوک اور افلاس سے تنگ آ کے میں نے بھارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔پھر اس نے سوال کیا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟پاکستانی کتا کہنے لگا یہاں گوشت اور ہڈیوں کی تو فراوانی ہے لیکن بھونکنے پہ پابندی ہے ۔کتا بھونکے نہیں تو اسے کتا کون کہے گا۔جنرل مشرف کے دور میں میڈیا کے جن کو بوتل سے باہر آنے کی اجازت ملی تو ایک طوفان بد تمیزی بپا ہو گیا۔مادر پدر آزادی نصیب ہوئی تو ہر ہوس پیشہ نے حسن پرستی شعار کی اور کیمرہ اور مائیک پکڑ کے گلیوں میں نکل آیا۔ کوئی تربیت نہ کوئی معیار بس پیسہ کمانے کی ہوس تھی۔اس ہوس نے بہتوں کو دشمنوں کے ہاتھ کا ہتھیار بنا دیا۔اب لوگ چینلز پہ بیٹھتے ہیں اور اسی شاخ کو کاٹ رہے ہوتے ہیں جس پہ آشیانہ ہے۔

سب سے زیادہ تنقید آئی ایس آئی کو برداشت کرنا پڑتی ہے کہ یہ ادارہ دشمن کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔یہ ہمارے ملک کا ادارہ ہے۔ خفیہ ادارے اپنے کارناموں کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا کرتے۔وہ اپنے ملک کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں بس ان کی زبان نہیں ہوتی ۔حکومت انہی کی فراہم کردہ اطلاعات پہ اپنی پالیسیاں بناتی ہے۔فوج کو بھی یہی ادارے چوکنا رکھتے ہیں۔پولیس بھی اکثر اوقات انہی کی دی گئی ٹپ پہ کاروائی کرتی ہے۔یہ مفکر نہیں مزدور ہوتے ہیں۔وطن کے مزدور۔وطن کے لئے اپنی جوانیاں لٹانے والے۔محبت کا جذبہ کارفرما نہ ہو تو کون اندھی گولیوں کے سامنے اپنا سینہ رکھ سکتا ہے۔چند دن پہلے پاکستان کی تاریخ میں دیومالائی حیثیت اختیار کرنے والے میجر عامر کو سنا۔ایک فقرہ کافی ہے ان تمام بد زبانوں کا منہ بند کرنے کے لئے جو راتب وصولتے اور پاکستان اور پاکستان کی ریاست، حکومت اور اداروں کو گالی دیتے ہیں۔ میجر کا کہنا تھا کہ خدا کی قسم اگر میرا اکلوتا بیٹا بھی پاکستان کے خلاف ہو تو میں اسے بھی معاف نہیں کروں گا۔

پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے دشمن کے فنڈ سے چلنے والے ادارے بھلے جتنا مرضی پروپیگنڈہ کریں پاکستان کی عوام اپنی ریاست اور اس کے اداروں سے پیار کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔انسانی حقوق کی آڑ لے کے ملک دشمنی کا پرچار کرنے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا انسانی حقوق پہ ماما قدیر اور اس کے دیسی اور بدیسی "ماموں "کی اجارہ داری ہے؟ کیا پاکستانی عوام اور ان کے لئے سینہ سپر لوگوں کے کوئی حقوق نہیں۔
 
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291831 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More