ہمایوں اختر
تقریبا ۲۳ سال پہلے کی بات ہے ۔لاہور میں ہم چند کلاس فیلو ز بشمول ایک
نوجوان فوجی آفیسرکے ایک دوست کے گھر پر گپ شپ میں مصروف تھے بے تکلف گفتگو
جوبن پر تھی کہ میزبان دوست کے ایک ر شتہ دا ر بھی ڈرائینگ روم میں آ دھمکے
اور بے تکلف بات چیت کے ابال کو یکایک یوں بریک لگی جیسے منوں برف گر پڑ ی
ہو۔ ابتدائی تعارف کے بعد پتہ چلا کہ موصوف نئے نئے ایک یورپی ملک میں
پاکستان کی ایمبیسی میں ایک اہم عہدے پر خدمات سر انجام دیکر لوٹے ہیں اور
اب انہیں لاہو ر میں اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تعارف کے بعد وہ ہمارے
فوجی دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے استفسارکیا ۔ Army ? Young man! Why did u
join (نوجوان آپ نے فوج کیوں جائن کی؟) ۔اس نے جھٹ سے کہا۔ Uncle, this is
the most respected profession in Pakistan. (انکل ۔پاکستان میں یہ سب سے
عزت والی جاب ہے)۔اس جواب پر انھوں نے برجستہ ایک فقرہ کہا کہ۔May not be
so after sometime ( آنے والے کچھ وقت کے بعد شائد ایسا نہ رہے)۔ اس سے
پہلے کہ وہ کوئی سوال داغ کر ان سے اس کی وجہ تسمیہ پوچھتا انھوں نے موضوع
ہی بدل دیا اور یوں وہ عقدہ ہم پے اس وقت فاش تو نہ ہوا لیکن وہ برجستہ
جملہ میرے لا شعور میں ثبت ہوگیا۔ کیونکہ میں فوج اور فوجی ہمیشہ ہی محبت
کرتارہاہوں اس لئے میں نے وقتا فوقتا اس پر غورضرور کیا لیکن کوئی تشفی بخش
جواب نہ پاسکا۔ ہر دفعہ ہی راہ چلتے فوجی گاڑی والوں کو پاس سے گزرنے والے
بچوں کا بے ساختہ سلیوٹ میرے ہر خدشے کی نفی کر دیتا۔
نوے کی دہائی میں جب حکومت وقت نے واپڈا اور ریلوے کی مالی حالت کو درست
کرنے کے نام پر فوج کو اس کے ان محکموں میں گھسیٹا اور فوجی سپاہیوں اور
افسران کی اخلاقی اور مالی کرپشن کی جھوٹی سچی کہانیاں زبان زد عام ہونے
لگیں تو مجھے ان انکل کی بات یاد آگئی لیکن پھر بھی بہت حد تک یقین نہ آیا۔
میرا استدلال برابر اس کی نفی کرتا رہا۔اور پھر جنرل پرویز مشرف نے جب عنان
حکومت سنبھالا تو فوج کو ہر جگہ پر مانیٹرنگ کے نظام کے تحت تمام محکموں
میں بٹھا دیا گیا۔ ابتدائی معاملات بڑے حوصلہ افزا تھے مگر جونہی سول حکومت
اور جمہوری اداروں کا ڈول ڈالا گیاتو کرپٹ سیاسی عناصر نے مانیٹرنگ کے نظام
کو نہ صرف بے دست و پا کروا دیا بلکہ انھیں استعمال کرکے کہیں کہیں سیاسی
مخالفیں کی بیخ کنی بھی کروائی گئی اور یوں سیاستدانوں نے عوام میں فوج کی
نفرت کا بیج بونے کا کام بڑے ہی منظم انداز اور غیر محسوس طریقے سے کروا
دیا۔تاہم اس وبا کو جنرل پرویز مشرف دور میں ہونے والی ترقی نے وقتی طور پر
دبا تودیا مگر یہ اندر ہی اندر بھڑتی اور پھلتی پھولتی رہی۔اور میڈیا کی
آزادی کے غلط استعمال اور مشرف ، عدلیہ ٹکراؤ نے وہ شکل اختیار کی اس میں
نقصان صرف اور صرف فوج اور عوام ہی کے حصے میں آیا۔کیونکہ یہ دونوں آپس میں
لازم و ملزوم ہیں۔ مجھے پہلا بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب چند سال پہلے ایک ٹی
وی پروگرام میں جھنگ سے ایک مشہور سیاسی خا تو ن فوجیوں کی قربانیوں کا
سراسر انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا They are paid for it.. (’’یہ بھاڑے کے
ٹٹو ہیں‘‘)۔پروگرام کے دوران ایک آفیسر نے کال کی اور بی بی کو مخاطب کرکے
کہا کہ میں آپ کو فوج سے حاصل ہونے والے اپنے تمام تر فوائد پیش کرتا آپ
اپنی صرف ایک انگلی کٹوا کر دکھا دیں۔ چونکہ بی بی صاحبہ کے پاس ان کے نا
مناسب فقرے کا کوئی اخلاقی جواز نہ تھا اس لئے وہ اس آفیسر کے سوال سے
کھسیانی بلی کے مصداق سے کترا کر بات ٹال گئیں۔لیکن اس سے بھی بڑا جھٹکا اس
وقت لگا جب یہ معلوم ہوا کہ وہ بی بی خود بھی ایک فوجی آفیسر کی بیٹی ہیں۔
فو جی کیلئے اس سے بڑی گالی اورکیا ہو سکتی ہے کہ اس کے جذبے اور ملک کی
خاطر جان دے دینے کے شوق شہادت کو پیسوں میں تول دیا جائے۔ مگر سیا سی
بونوں اور عاقبت نا اندیش سیاسی ظالموں نے اس سے گریز نہ کیا۔ اگر اس بی بی
صاحبہ کی طبیت پر ناگوار نہ گزرے تو میں کیا ان سے یہ سوال کر سکتا ہوں۔ بی
بی کیا آ پ کے والد محترم بھی فوج میں بھاڑے کے ٹٹو کے مصداق ہی بھرتی ہوئے
؟ مجھے یقین ہے آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔
کچھ سال پہلے جب فوج کو گالی دینے کا رواج بڑا ہی عام ہونے لگا تو میں نے
ان بزرگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا تا کہ ان کی اس پیشگوئی اور وجدان کی بنیاد
جان سکوں۔ موصوف ان دنوں ریٹائر ہو چکے تھے لہذا میں نے اپنے دوست سے رابطہ
کیا اور ان بزرگوں سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ دوست حیران تو ہوا
لیکن میرے اصرار پر حامی بھر لی اور چند دن بعد ہم نے ریٹائرڈ بزرگ کو ایک
کلب میں جا گنگ ٹریک پر طے شدہ وقت پرجائن کیا۔ ابتدائی علیک سلیک کے بعد
ان سے اپنی پہلی ملاقات کا حوالہ دیا اور ان کا ہمارے فوجی دوست سے کیاجانے
والا سوال Young man! Why did u join Army ? ۔اور اس کے جواب Uncle, this
is the most respected profession in Pakistan. پران کا وہ بر جستہ فقرہ
(May not be so after sometime) ان کو یا د کرایا۔اور سا تھ ہی ان سے عرض
کیا کہ آپ کو ڈیڑھ دو دہائیاں پہلے کیسے علم تھا کہ فوجی وردی کو اس ملک کے
بچے سلیوٹ کرنے کی بجائے گالی دیا کریں گے؟ بزرگ چلتے چلتے ایک بینچ کے پاس
رکے اور کہا کہ آؤ بیٹھ کربات کرتے ہیں۔ بیٹھنے کے بعد وہ یوں گویا ہوئے کہ
مجھے یہ بتاؤ کہ جب اس ملک میں زلزلہ آتا ہے توکون سا ادارہ آگے آتا ہے؟
فوج۔فلڈ آتا ہے تو لوگ کسے آواز دیتے ہیں؟فوج کو۔کہیں اچھا روڈ بنانا ہو تو
لوگ کس ادارے پر بھروسہ کرتے ہیں ؟۔ فوج پر۔سونامی آ جائے تو کون سے ادارے
کو ذمہ داری ملے تو آپ کو یقین ہوتا ہے کی اب لوگوں کو بچا لیا جائے گا؟
فوج ۔ ہمارے ازلی دشمن کو کس چیز نے اس ملک پر حملہ کرنے سے باز رکھا ہوا
ہے؟ فوج نے ۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنے ہی ایسے سوال اس بزرگ نے کئے جن کا جواب
یا کریڈٹ صرف اور صرف فوج کو جاتا تھا۔ سارے سوالوں کے آخرمیں وہ بولے
میاں! فوج اس ملک کا سینٹر آف گریوٹی ہے اور اس کو عوام کی نظروں سے گرانا
اس ملک کے دشمنوں کی دیرینہ خواہش تھی۔ اس کا پلان وطن پاک کے دشمنوں نے
افغان جنگ کے بعد بنا لیا تھا۔ اور اس میں NGOsکا ایک خاص کردار رکھا گیا
تھا۔اور سیاستدانوں ، عقلمند تجزیہ نگاروں اور میڈیا کے کچھ دوستوں کی غیر
محسوس طریقے سے برین واشنگ کر کر کے ان کو فوج کے خلاف لانچ کیا گیا ۔اور
آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کراچی پر قبضے کی جنگ میں سیاسی جماعت
کا مرنے والا کارکن تو شہید کہلاتا ہے اور سیاستدانوں کی فوج ظفر موج اس کے
جنازے میں شرکت کرتی ہے مگر اس وطن پر قربان ہونے والے فوجیوں کے جنازے میں
مٹھی بھر رشتہ داروں کے علاوہ شائد ہی کوئی آتاہو۔اور تو اور اخبا ر ات اور
ٹی وی پرخبر بھی کچھ یوں آتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گرد حملے میں
۳۳ فوجی افیسر اور جوان جاں بحق۔ میڈیا ان کو شہید لکھنے اور بولنے سے
گھبراتا ہے۔ مولانامنور حسین توفوج کو گالی دینے میں بھی سب سے بازی لے گئے
ہیں اور انھوں نے فوج کا خون بہانے والوں کی محبت میں ہزاروں ماؤں کے گھروں
میں موجود شہید بیٹوں کی خون آلود وردیوں کو جنھیں وہ اپنے سر پر پڑھی چادر
سے زیادہ متبرک جانتی ہیں یوں تا ر تار کیاکہ دشمن وطن بھی کہہ اٹھا ہو گا
کہ یہ تو ہماری سوچ اور منصوبہ بندی سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔آج بھی دیکھئے
تھر میں قحط زدہ عوام کی مدد کیلئے فوج کو آواز دی گئی تو فوج نے لبیک کہا
۔ مگر میں انصاف کے منصب پر متمکن لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا گندم کے
گوداموں کوتالے لگا کر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والوں پر عوام سے
سنگین غداری کا مقدمہ نہیں چلنا چاہئے؟۔ کیا ریمنڈ ڈیوس اور اس کے ساتھیوں
کو ویزا دینے والوں نے وطن سے غداری کا ارتکاب نہیں کیا؟ کیا اس ملک کے
سیاستدانوں نے دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے مناسب قانوں نہ بنا کر عوام اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑکر عوام
اور ملک سے غداری کا ارتکاب نہیں کیا؟ لیکن کون یہ مقدمہ چلائے گا جب سب ہی
فوج کو گالی دینے اور عوام کو بیوقوف بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے
میں مصروف ہوں۔ مگر ذرا سوچئے گا کہ کہیں ایسا کر کے ہم دشمن کے ہاتھ مضبوط
تو نہیں کر رہے ہیں۔ اس عاقبت نا اندیشی کا کیسے ازالہ کیا جاسکتا ہے یہ
سوچنا ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔ کیونکہ کہیں ایسا وقت نہ آجائے کہ
دشمن ہم پر حملہ آور ہو اور ہمیں یہ ’’بھاڑے کے ٹٹو بھی دستیاب نہ ہوں ـ‘‘۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔ Nations are born in the hearts of poets;
they prosper and die in the hands of politicians |