موروثی سیاست اور جمہوری تماشا
اسماء انجم خان ،شولاپور، مہاراشٹرا
پچھلے سال۱۳ مئی کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے اپنی ساٹھویں سالگرہ منائی ۔ان
ساٹھ برسوں پر محیط ہماری جمہوریت کا یہ سفر با وجود کچھ نشیب و فرازکے
اپنی پوری آب وتاب سے جاری رہا۔ اور یہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ اگر
ہندوستان کے پڑوسی ملکوں کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اپنی اس کامیابی پر
ہمارا ایقان مزید راسخ ہوجاتا ہے۔
کسی بھی پارلیمانی جمہوریت کی کامیابی کے لیے ایسے شہریوں کی ضرورت ہوتی ہے
جوا پنی ذمہ داریوں اورحقوق کا کماحقہُ علم و شعور رکھتے ہوں۔ انگریزی میں
انھیں Qualitative Citizensکہا جاتا ہے ۔ ملک کی مجلس قانون ساز اصولی طور
پراپنے ایسے ہی شہریوں کی آواز ہوتی ہے اگر فی الواقع ایسا نہیں ہے توامید
رکھنی چاہیے کہ ایسا ہی ہو۔ کیونکہ یہ ہماری مجالس قانون ساز کا معیار
مطلوب ہے۔
ہماری تیرھویں لوک سبھا کے ممبروں کے متعلق معروف انگریزی مصنف پیٹرک فرنچ
کی تحقیق کا حوالہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ انھوں نے چند حقائق کی طر ف
اشارہ کیا ہے،ہر چند کہ وہ کوئی ایسی ڈھکی چھپی باتیں بھی نہیں ہیں۔ لیکن
جس گہرائی تک جاکر انھوں نے تحقیق کی اور جو نکات پیش کیے وہ واقعی لائق ِ
مطالعہ اور قابل غور ہیں ۔ ان نکات کا جاننا ملک کے ہرسنجیدہ شہر ی کے لیے
اہم بھی ہے اور مفید بھی۔
پیٹرک فرنچ اپنی کتاب India: A Portrait میں لکھتے ہیں کہ ہمارے یعنی بھارت
کے، ۶․۲۸ فیصدی ممبران پارلیمان کا پارلیمنٹ سے تعلق محض موروثی ہے ۔ اس کا
مطلب یہ ہواکہ ہمارے کل ۵۴۵ میں سے ۱۵۶ ممبران پارلیمنٹ میں صرف اس وجہ سے
ایوان میں داخلہ پاسکے ہیں کہ ان کا کوئی نہ کوئی قریبی عزیز رشتہ دارپہلے
سے ہندوستانی سیاست میں سرگرم تھا ۔ مجھے یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ موروثی
سیاست کا نام سنتے ہی سب سے پہلے آپ کے ذہن میں کس پار ٹی کا نام آتا ہوگا
۔ لیکن کانگریس کا نمبر اس فہرست میں پھر بھی تیسرا ہے ، ہماری لوک سبھا کی
سب سے بڑی موروثی پارٹی تواجیت سنگھ کی RLD ہے۔ جس کے۱۰۰ فیصد ارکان
پارلیمان محض اپنے مورثی رشتے کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی سیٹیں ہتھیائے ہوئے
ہیں۔دوسرا نمبر نمہاراشٹر کی NCP کا ہے۔ پھر کانگریس آتی ہے۔ پورے 78
کانگریسی (37.5% ) محض وراثت کی بنا پر پارلیمینٹ کی بینچوں پر دیکھے جاتے
ہیں۔بی جے پی اپنے ۲۲ ممبران (19% ) کے ساتھ اس فہرست میں چوتھے مقام پر
ہے۔ موروثی ارکان پالیمینٹ میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،پورے 69%
فیصدی۔ ان موروثی ممبران میں زیادہ تراُمور ِ سیاست میں نو آموز قسم کے
نوجوان ہیں جن کی عمریں ۳۰سال سے بھی کم ہیں۔
پشتینی یا موروثی سیاست محض ہندوستا ن تک ہی محدود نہیں، یہ صورتحال ہمیں
سے ایشیا میں لبنان سے لے کر فلپائن اور اس سے بھی آگے دیکھنے کو ملتی ہے۔
یونان میں دو خاندان پیپنڈروس Papenderos اور کیراملائیزیس Caramalises
1950 سے حکومت کرتے آرہے ہیں۔ جارج بش سینئر اور ان کے جانشین جارج بش
جونیئر کی قصر ابیض پردو عشروں کی گرفت کو رفت گزشت کہہ کر بھولنے کی کوشش
کی جائے تب بھی ہمیں یہ تو علم ہے کہ حالیہ امریکی صدارتی ریس کے ریپبلیکن
امیدوار ،مٹ رومنی کے والد بھی ایک امریکی ریاست کے گورنر ہوا کرتے تھے اور
صدارتی عہدے کے امیدوار بھی رہے۔
ریاست کیلیفورنیا کے موجودہ گورنر کے والد بھی اسی ریاست کے گورنر رہ چکے
ہیں ۔موروثی قیادت کی وبا مذہبی ،رفاہی،تعلیمی اداروں سے لے کر فلم انڈسٹری
تک پھیل چکی ہے۔۔قصہ مختصر موروثی سیاست کا یہ تماشہ عالمگیر ہے اور اس کی
ہمہ جہتی اپنے مختلف پہلووں کے ساتھ عوام الناس کے زندگی کے پل پل پر حاوی
ہو رہی ہے۔
ہندوستان کی بات کریں تو موروثیت کی جڑیں اب ہمارے نظامِ سیاست میں اتنی
گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا بے حد مشکل ثابت ہوگا۔ لیکن
جس وسیع پیمانے پر یہ موروثی سیاست کا کھیل ہمارے محترم قائدین کھیل رہے
ہیں وہ حیران کن ہے۔ دوسری طرف ہماری بے حسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے
سامنے ایک عزت مآب رکن پارلیمان یا وزیر بے تدبیر اپنی کرسی ذاتی جائداد کے
مانندبیٹے بیٹی یا بیوی کو منتقل کردیتا ہے اور ہم بس دیکھتے رہتے ہیں ۔
ہماری پیشانی پرکوئی بل تک نہیں آتا ۔ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت
ہوتی ہے۔بلکہ عوام کی اکثریت ــان سیاسی شہزادوں اور شہزادیوں کو مبارکباد
دینے جوق در جوق پہنچ جاتی ہے ۔ ان لوگوں کو جنھیں ملک کے اہم ترین سیاسی
عہدے حاصل کرنے میں نہ ہینگ لگی نا پھٹکری۔
موروثی سیاست بظاہر جتنی بے ضرر دکھائی دیتی ہے اتنی ہے نہیں ، اس کا زہر
پچھلے ۶۰؍۵۰ سالوں سے ہمارے سماجی نظام میں سرایت کرتا جارہا ہے ۔ موروثی
سیاست کی لعنتوں میں سب سے شدیدیہ ہے کہ ذہین ،باصلاحیت ، محنتی اور مخلص
نوجوان ، جوا پنے ملک ومعاشرے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں انھیں
اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنا جوے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔یہ نوجوان مواقع
سے اور ملک ان سے محروم ہوتا جاے گا۔آج ہر سطح پر ہمارا ِنظام سیاست لیڈروں
کے بیٹوں ،بیٹیوں سے بھرا پڑا ہے ، بیویوں،دامادوں اور بہووں کو بھی اس فوج
ظفر موج میں شامل سمجھیے ۔
دوسرا تشویش ناک پہلو یہ ہوگا کہ لا متناہی مدت تک چند مخصوص با اثر
خانوادوں کو سیاسی برتری حاصل رہے گی۔ اور ان کی مطلق العنانی روز بروز
بڑھتی چلی جائے گی۔ ملک کے جملہ معاملات کی باگ ڈور چند ہی ہاتھوں میں
محدود ہوکر رہ جائے گی اور ان موروثی عناصر کا غلبہ تشویسناک حد تک بڑھتا
چلا جائے گا ۔آج عملا ً یہی کچھ ہورہا ہے اور شاید آیندہ بھی یہی ہوتارہے
گا۔ آزادی کی عظیم لڑائی نے ہمیں صرف انگریز کی غلامی سے آزاد نہیں کرایا
بلکہ ان ۵۵۴ ریاستوں Princely States کی شخصی حاکمیت سے بھی نجات دی جو کئی
سوسالوں سے ہم ہندوستانیوں پر مسلط تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت
حال ،اُس جاگیردارانہ نظام سے مختلف ہے جو آزادی سے پہلے ہندوستان کے شہر
شہر ، گاؤں گاؤں میں پائی جاتی تھی ؟ میرا خیال ہے کہ کچھ بھی مختلف نہیں
ہے۔بوتل نئی ہے مگرشراب وہی پرانی -
مجھے ڈرہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں موروثی سیاست کا یہ سنگین مذاق ہمیں
اسی جاگیردارانہ تاریک دور کی طرف اندھا دھند لیے جارہا ہے اور ہماری
جمہوریت کو ایک بازیچہ اطفال بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ اگر آپ اپنی آنکھیں بند
کرکے ان تمام ’’بچہ لوگ سیاست دانوں‘‘ کے نام یاد کرنے کی کوشش کریں جو آج
کل ہندوستانی سیاست کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ تو مجھے یقین ہے کہ آپ گنتی بھول
جائیں گے اورپھر ایک عجیب سی بے بسی کا احساس آپ پر طاری ہوجائے گا۔۔
موروثی سیاست اگر اپنی یہ روش جاری رکھتی ہے اور قرائن یہ کہتے ہیں کہ نہ
صرف جاری رکھے گی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی دیکھاجائے گا، توپیٹرک فرنچ کے
الفاظ میں وہ دن دور نہیں جب ہماری لوک سبھا ـ’’ ونش سبھا‘‘ بن جائے گی
۔ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے-
جرمن مصنف گنٹرگراس Gunter Grass کا کہنا ہے کہ ایک اچھے شہر ی کو چاہیے کہ
وہ کم از کم اتنا تو کرے کہ اپنی زبان کو کھولے اور اپنی رائے کا آزادانہ
اظہار کرے ۔
نہیں یہ بات کہ آواز بے اثر ہی گئی
فریضہ اہل سخن کا ادا تو کر ہی گئی
کیاآپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں گنٹرگراس کے مشورے پر عمل کرنے میں اب مزید
تاخیر نہیں کرنی چاہیے؟ |