خبر ہے کہ بِلّی کا شوہر نامدار
ایک جنگلی بِلّا وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ جاتی امراء (رائیونڈ) میں پولیس
اہلکاروں کی موجودگی میں لاکھوں روپے مالیت کا قیمتی شاہی مور کھا گیا ہے
جس کے بعد انتظامیہ نے ’’مور‘‘ کی حفاظت پر مامور اکیس پولیس اہلکاروں کو
غفلت برتنے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں
کہ اِن غافل پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے مگر بعد میں اس خبر کی
تردید کر دی گئی البتہ اس سنگین واردات کے فوری بعد ہی مور کی ٹارگٹ کلنگ
میں ملوث قاتل بِلّے کی تلاش شروع کر دی گئی اور پھر چوبیس گھنٹوں کے اندر
ہی ایک اور بریکنگ نیوز سامنے آئی کہ جاتی امراء کا نایاب مور کھانے والا
مذکورہ جنگلی ’’بِلّا‘‘ پولیس مقابلے میں واصل جہنم ہو چکا ہے جبکہ مقابلے
میں حصہ لینے والے ایلیٹ فورس کے جوانوں کو تعریفی اسناد دینے کا انکشاف
بھی ہوا ہے۔ ہم جنگلی بِلّے کو تلاش کرنے والے اہلکاروں کو مبارکباد پیش
کرتے ہیں کہ اُنہوں نے انتہائی پھرتی سے کام لیتے ہوئے صرف چوبیس گھنٹوں کے
اندر انتہائی خطرناک ٹارگٹ کلر اور مفرور بِلّے کو پولیس مقابلے میں مار کر
نہ صرف مقتول مور کے لواحقین کو فوری انصاف دلایا بلکہ اس کے ساتھ اپنی
نوکریاں بھی پکی کرلی ہیں جبکہ شوکاز نوٹس ملنے والے اہلکاروں کیلئے مفید
مشورہ یہی ہے کہ وہ ابھی سے کسی پرائیویٹ نوکری کی تلاش شروع کر دیں آئندہ
کسی بھی معمولی سی غلطی کی صورت میں وہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
درندہ آخر درندہ ہوتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کسے تعریفی سند ملی اور کسے
شوکاز نوٹس ملا بلکہ وہ موقع دیکھتے ہی واردات ڈال دیتا ہے البتہ گرفتاری
کے بعد اگر کوئی ہاتھی بھی پولیس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ صرف پندرہ منٹ کے
بعد ہی بتا دے گا کہ وہ ہاتھی نہیں بلکہ بِلّا ہے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں
کہ پاکستانی پولیس کے سامنے انسان تو انسان بے جان بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔
اب پوسٹ مارٹم کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے کہ پولیس مقابلے میں مارا جانے
والا بِلّا واقعی وہی تھا یا پھر کوئی بے گناہ مقابلے میں مارا جا چکا ہے
البتہ مذکورہ دونوں خبریں سامنے آنے سے اتنا ضرور معلوم ہو گیا ہے کہ جاتی
امراء کے شاہی مور کا خون انسانی خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ انسان چاہے روز
مرے ان کی کوئی قدر نہیں جبکہ شاہی مور کے مرنے کے فوری بعد ہی اہلکاروں کی
قاتل کو پکڑنے کیلئے دوڑیں لگ گئیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اگر جاتی امراء
محل میں ایک ’’جنگلی بِلّا‘‘ مور کھا جائے تو غفلت برتنے والے پولیس
اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی شروع ہو جاتی ہے لیکن انسانی بستیوں میں
’’جنگلی بِلّے‘‘ عزتیں نوچ رہے ہیں، عوام کو مار رہے ہیں، ان پر تو کبھی
فوری ایکشن نہیں ہوتا۔ ایک قاتل بِلّے کو پکڑنے کیلئے پوری انتظامیہ فوری
حرکت میں آگئی مگر چندروز پہلے شکرگڑھ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ایک لڑکی
دہائیاں دیتی رہی اور کوئی شنوائی نہ ہونے پر خود کو آگ لگا کر جان دے دی۔
اسی طرح سندھ کے صحراء تھر میں مرنے والے بے یارو مددگار سینکڑوں مور،
ہزاروں مویشی اور پھولوں جیسے بچے اور بچیاں یقینا اس مور سے زیادہ قیمتی
تھے جنہیں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان سیاسی بِلّوں کی لاپرواہی نے مار
ڈالا، مگر حیرت ہے ابھی تک کسی بھی حکومتی ذمہ دار کے خلاف کوئی ایکشن نہیں
لیا گیا۔ہماری دِلّی خواہش تھی کہ قیمتی مور کو چیر پھاڑنے والے بِلّے کو
گرفتار کرکے اس کا ریمانڈ لیا جاتا اور اگر وہ واقعی قاتل ہوتا تو اُسے
ضرور سزا ملتی مگر پولیس اہلکاروں نے مقابلے میں مار کر سارا سیاپا ہی ختم
کر دیا۔ جاتی امراء کی مقتول مور کا قاتل بِلّا نہ جانے اس سے پہلے کتنی
مرغیوں اور پرندوں کو چیر پھاڑ چکا ہوگا مگر شاہی محل میں آکر شاید سنگین
غلطی کر بیٹھا یا پھر وہ اپنا غصہ اُتارنے کیلئے مور پر حملہ آور ہوا ہوگا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موجودہ حکمران جماعت نے درندوں میں صرف
شیر کو ہی ہمیشہ عزت بخشی ہے جبکہ بِلّا اس عزت سے یکسر محروم رہا اور اُس
نے اپنا غصہ قیمتی مور کو ہڑپ کرکے نکال دیا۔ درندوں میں شیر اگر حکمران
جماعت کا انتخابی نشان ہو سکتا ہے اور بِلّی اس کی خالہ ہوسکتی ہے تو پھر
بِلّے کو بھی شیر کا خالو ہونا چاہئے تھا لیکن اسے یکسر نظرانداز کرکے اس
کے ارمانوں کا خون کیا گیا ورنہ مفت شہرت کس کو بُری لگتی ہے۔ انتظامیہ کے
اہلکار اگر مور کے قاتل کو چند گھنٹوں میں واصل جہنم کر سکتے ہیں تو وہ
یقینا چودہ سال کے بھوکے شیر کو بھی نکیل ڈال سکتے ہیں ورنہ دوسرے جنگلی
بِلّے اپنے پیٹی بھائی کا خون کبھی معاف نہیں کرینگے۔ اسلام آباد کچہری میں
ہونے والے حملے کے دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار تو بھاگ گئے تھے مگر
پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے قاتل بِلّے کو مقابلے میں مار کر ایک عظیم
کارنامہ انجام دیا ہے۔ بہادر پولیس کے ان اہلکاروں کو صرف تعریفی اسناد پر
ٹرخانا مناسب نہیں ہوگا بلکہ انہیں کوئی ایوارڈ بھی ملنا چاہئے جس میں ایک
پلاٹ، پانچ لاکھ روپے اور ان کے رشتہ داروں کو پیلی ٹیکسی یا پھر پروموشن
تو ضرور ہونی چاہئے۔ |