میں بھی حکمران ہوں

رات سے گردن اکڑی اکڑی تھی۔ شاید احساسِ حکمرانی کا خار تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دوست کا فون آیا جو لاہور سے تقریباً ڈھائی سو کلو میٹر دور ایک قصبے کا مکین ہے۔ پریشان تھا اور اپنی صورت حالات بتا رہا تھا کہ بجلی ایک گھنٹہ آتی اور ایک گھنٹہ جاتی ہے۔ گیس کی صورت اور بھی عجیب ہے وہ تو موڈ سے آتی ہے اور موڈ ہی سے جاتی ہے۔ نہ آئے تو تین تین دن نہیں آتی اور جب درمیان میں ایک آدھ دن آتی ہے تو خوب آتی ہے۔ پہلے چولھے نہیں جلتے تھے۔ اب ہیٹر اور گیزر بھی خوب چلتے ہیں۔ مگر یہ دورانیہ ایک آدھ دن سے زیادہ نہیں ہوتا گاڑیوں کی گیس تو ویسے ہی بند ہے جس کے نتیجے میں گھروں سے نکلنا بھی محدود ہوگیا ہے۔ شہر میں ایک آدھ شاندار سڑک کے علاوہ باقی ساری انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ تجاوزات کی بھرمار ہے ۔ موجودہ حالات میں زندگی تلخ ہو کر رہ گئی ہے۔اپنے گلے شکوؤں کے بعد اُس نے میری طرف کا رخ کیا کہ تم تو موج میں ہو۔ عیش کر رہے ہو عیش۔حکمرانوں کا شر ہے ساری سہولتیں میسر ہونگی۔ پنجاب بھر کا فنڈ فقط لاہور پر خرچ ہو رہا ہے اور تم تو نواز شریف کے گھر کے قریب رہتے ہو۔ سُنا ہے پاکستان کا سب سے خوبصورت علاقہ بن گیا ہے۔ خوب مزے ہوں گے۔

واقعی میں رائے ونڈ روڈ پر جاتی عمرہ کے بہت قریب رہتا ہو۔ ہمائیگی حکمران کا سوچ کر تجھے یوں لگا جیسے میں خود بھی حکمران ہو۔ شاید یہی وجہ تھی کہ رات بھر گردن مڑنے سے انکاری تھی۔ میرے دوست کو بجلی سے گلہ ہے کہ گھنٹہ آتی اور گھنٹہ جاتی ہے۔ وہ تو میرے گھر میں یہی صورت ہے۔ بلکہ مہینے میں دو بار رات کو جاتی ہے تو صبح تک نہیں آتی۔ رات کی ڈیوٹی والا لیسکو کا عملہ بھی خود ہے حکمرانی میں کسی کی بھی پروا نہیں کرتا۔ ڈیوٹی اپنی جگہ مگر رات سونے کے لیے ہوتی ہے اور وہ حکمرانوں کے علاقے سے تعلق کی بنا پر کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ رات کو خوب سوتے ہیں اور کام صبح والوں کے ذمے۔

میری کلاس کا وقت روزانہ آٹھ بجے ہے اور مجھے گھر سے کلاس تک پہنچنے کے لیے چالیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ بجلی چھ سے سات بجے جاتی ہے میں روزانہ پانچ بجے اٹھتا ہوں چھ بجے تک تیار ہونے والا ہوتا ہو تو بجلی چلی جاتی ہے ایک گھنٹہ انتظار کے بعد سات بجے آتی ہے تو پوری طرح تیار ہو کر اور ناشتہ کرکے بھاگم بھاگ شکل سے کلاس تک پہنچتا ہوں۔ آج بھی حسب عادت تیار ہوں مگر کلاس آج لیٹ شروع ہوگئی۔ سوچا آج راستے میں اپنی سلطنت کا جائزہ لیتے ہوئے جانا چاہیے۔

جس سوسائٹی کا میں مکین ہوں اچھی سوسائٹی ہے اس کا گیٹ رائے ونڈ روڈ سے تقریباً آٹھ یا نو سو گز کے فاصلے پر ہے۔ گیٹ کے باہر تمام اختیارات نشتر ٹاؤن کی انتظامیہ کو حاصل ہیں۔ عین گیٹ کے آگے ایک پلر کے ساتھ پچھلے پندرہ دن سے ایک حجام نے قبضہ کر لیا ہے۔ ایک بڑا سا شیشہ اور کرسی لے کر لوگوں کے بال کاٹتا ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت پوری قوم کی حجامت کر رہی ہے۔ مگر حکمرانوں کی قربت کی وجہ سے میری سوسائٹی کے مکینوں کی زیادہ حجامت بنانے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اسے وہاں بیٹھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قریب ہی مسجد ہے۔ ایک سموسے بیچنے والا مسجد کی دکان میں کرایہ دار تھا۔ میاں برادران کے گھر کے قریب رہنا اور پھر کرایہ دینا۔ نامناسب جان کر انہوں نے دکان کے سامنے سڑک کے دوسری طرف اپنی ذاتی دکان بنا لی ہے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔

سڑک کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کے آخری حصہ میں پہلے ایک بلڈنگ میٹریل والا آتا ہے۔ اس نے سڑک کے ایک طرف ریت اور دوسری طرف بجری پھینکی ہوئی ہے۔ سارا دن گدھا گاڑیاں یہ سامان لاد رہی ہوتی ہیں۔ لیکن راستہ دینے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی۔ عین رائے ونڈ کے قریب ایک گوشت کا کھوکھا ہے جس کے ساتھ موچی کا کھوکھا ہے اور سامنے برگر والا سڑک کے بیچ میں پوری طرح براجمان ہے۔ بالکل آخری حصہ میں یہ سڑک ایک سمندر کی طرح ہے۔ گاڑی تیز گزرے تو گزرنے والے ضرور فیض یاب ہوتے ہیں۔ گاڑی گزر جاتی ہے مگر گاڑی والے کو دیر تک گالیاں پڑتی ہیں۔ مگر وہ ہوٹل جو موڑ پر واقع اور جس کا پانی سارا دن وہاں اکٹھا ہوتا ہے اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ اسے یا تو اﷲ پوچھ سکتا ہے یا نشتر ٹاؤن والے۔ کسی شخص نے ترس کھا کر وہاں اینٹوں کے ٹکڑوں کا ایک پورا ٹرک سڑک کے بیچ میں پھیلا دیا تھا۔ مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ پتھروں سے گزرتی رقصاں گاڑیوں نے بالآخر کافی حد تک ان اینٹوں کو چورہ چورہ کر دیا ہے۔ پانی اب بھی ہے مگر نسبتاً کم۔ اینٹیں زیادہ تر پانی چوس جاتی ہیں۔ انہی پتھروں سے گزریں تو رائے ونڈ روڈ کی ابتدا ہوتی ہے۔ رائے ونڈ روڈ آنے تک میں سوچ رہا تھا کہ ان کھوکھے والوں اور ناجائز قابضین کے خلاف کوئی ایکشن ہونا چاہئے مگر ایک تو ابھی تک حکمرانوں کا ہمسایہ ہونے کے ناطے اپنے اختیارات کا تعین نہیں کر سکا پھر اختیارات کو استعمال کرنا معلوم نہیں۔ سوچا ویسے بھی ابھی کھوکھے والوں اور قابضین کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔ تھوڑے سے کھوکھے بننے اور قابضین آ لینے دوں ان کی انجمن بھی وجود میں آ جائے گی۔ پھر مقابلہ کرنے، ایکشن لینے اور حکمرانی استعمال کرنے کا مزہ بھی آئے گا۔

رائے ونڈ روڈ پہنچنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ گیٹ سے سیدھا آنے کی بجائے بائیں مڑ جائیں تو 11 گز ٹوٹی پھوٹی سڑک سے گزرن اپڑتا ہے۔ پھر لاہور سفاری پارک کی دو رویاں بہترین سڑک آ جاتی ہے۔ اس پر گاڑی بہت روانی سے چلتی ہے۔ مگر ایک دوسرا مسئلہ درپیش ہے۔ اس سڑک اور پہلی سڑک کے بالکل درمیان میں رائے ونڈ روڈ پر ایک راستہ کوکا کولا فیکٹری سے آتا ہے۔ رائے ونڈ سے کسی اہم شخصیت نے گزرنا ہو تو کوکا کولا کی گاڑیوں کو باہر ہی نکلنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن عام حالات میں جب یہ انتہائی بھاری بھر کم ٹرک رائے ونڈ پر چڑھتے ہیں تو ترقی شناس اور جان و چوقنہ ٹریفک وارڈن ان کے استقبال کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اتنی بھاری گاڑیاں تو سڑکوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے لاہور سفاری پارک کی سڑک کے عین سامنے دو چار ٹرالوں کو روکا ہوتا ہے کیونکہ رائے ونڈ میں اتنی وسعت نہیں کہ ٹرالے اور ٹریفک دونوں سما جائیں۔ سڑک کے ایک طرف نالہ ہے جو ڈھانپ دیا گیا ہے مگر عین موڑ پر گزشتہ دو سال سے پانچ چھ سلیب اٹھا لی گئی ہیں۔ اب ٹرالوں سے بچ کر گزرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ کھلا نالہ دعوتِ عام دیتا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی شخص دعوت قبول کر لیتا ہے۔ پھر نہ وہ خود ٹھیک رہتا ہے اور نہ ہی اس کی گاڑی۔ ٹریفک وارڈنز کو بھی فرض نبھانا ہوتا ہے اور اس کے لئے ان کے پاس فقط ہی جگہ ہے جہاں وہ ٹرالر کو پوری طرح چیک کرتے ہیں۔ وزن کم کرنے کے لئے ان کے پاس دو ہی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک ٹرالے پر لدی بوتلیں اور دوسری ڈرائیور کی جیب۔ بوتلیں کون سنبھالے وہ جیب ہلکی کر لیتے ہیں اور گاڑی کو جانے دیتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک روٹین ٹیکس ہے اس لئے ڈرائیور بھی برا نہیں مناتے۔ انہوں نے یہ کرائے میں شامل کیا ہوتا ہے۔

اب میری گاڑی رائے ونڈ روڈ پر چل رہی ہے۔ یہ حکمرانوں کی سڑک ہے۔ اس ملک کے حقیقی مردِ اول، خاتونِ اول اور خاندانِ اول کی گزرگاہ۔ تیس چالیس سال پہلے بنی ہوئی یہ تنگ سی ناہموار سڑک، اردگرد کھوکھا نا دکانیں، جگہ جگہ گڑھے، کیچڑ، پھیکا پھیکا سا ماحول۔ کسی بہت چھوٹے قصبے کی سڑک لگتی ہے۔ حکمرانی کا سوچ کر مجھے اس پر گاڑی چلاتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔ مگر حکمرانوں نے اسے شاندار سڑک کیوں نہیں بنایا۔ حکمران بھی ایسی سڑکوں پر سفر کرتے ہیں، زیادتی ہے۔ راستے مین ایل ڈی اے ریونیو کا چوک آتا ہے۔ یہاں سے دائیں طرف سڑک شوکت خانم ہسپتال کو اور بائیں طرف ایل ڈی اے ایونیو میں جاتی ہے۔ اس چوک کے وارڈن بہت اچھے شکاری ہیں۔ یہ چوک کی بجائے شوکت خانم جانے والے سڑک پر تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ صبح لوگوں کو دفتر یا کاروبار پر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ اسی جلدی میں کسی نے پیلی بتی کراس کی اور بس شکار شکاریوں کے ہاتھ لگ گیا۔ وہ پرانے وقتوں کے ٹریفک اہلکار تھے جو لوگوں کو ٹریفک کا سلیقہ سکھاتے تھے۔ اب اگر اتنے سالوں میں لوگ نہیں سیکھ سکے تو لوگوں کو سکھانے کا بہتر انداز یہی ہے۔

ٹھوکر نیاز بیگ تک پہنچ جاؤ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی عجیب چوک ہے۔ پاکستان میں کوئی صحیح تجربہ ہوتا ہی نہیں۔ صرف تعلیم اور ٹریفک ہی دو چیزیں ہیں جو بروقت تجربوں کی نذر ہوتی ہیںَ یہاں کچھ بھی کر لیں دس پندرہ منٹ ضائع ہوتے ہی ہیں۔ کسی طرح ٹھوکر کا چوک کراس ہو جائے تو اب نہر کی خوبصورت سڑک پر یونیورسٹی بہت نزدیک محسوس ہوتی ہے۔ ٹریفک وارڈن سے یاد آیا یہاں بھی راستے میں کیمرہ لگائے ٹریفک وارڈن موجود ہوتے ہیں۔ کیمرہ گاڑی سے لگا ہوتا ہے اور وہ خود گوالوں کی گاڑیوں سے یا پھر غریب رکشا ڈرائیوروں سے۔ غرض حکمرانوں کے علاقے اور ان کی گزر گاہوں میں بھی وہی خوبیاں ہیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں ہیں۔

تعصب کی ماری سیاسی قیادتوں نے عوام کو یہ غلط تصویر دکھائی ہے کہ لاہور میں بہت کچھ ہوا او رلاہور کے باہر کچھ نہیں۔ میں پورے پنجاب میں بہت سے جگہ گیا ہوں۔ ہر شہر اور ہر قصبے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی ہے۔ کہیں کہیں چالیس اور کہیں پچاس فیصد سڑکیں بہت بہتر ہوئی ہیں۔ لاہور میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ اگر کہیں بہت کم کام ہوا ہے تو لوگوں کے نمائندے کا قصور ہے۔ اور اس کی جواب دہ بھی مقامی انتظامیہ ہی ہے۔ مرکزی یا صوبائی قیادت کو الزام دینا نا انصافی ہے۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ قصور اس علاقے کے مکینوں کا سب سے زیادہ ہے اس لئے کہ انہیں نمائندے چننے کا شعور نہیں آیا۔ جس دن یہ شعور آ گیا سب مسائل حل ہو جائیں گے اور سب گلے شکوے دو رہو جائیں گے۔ ہم اصل میں خود اپنے مقدر کے حکمران ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500842 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More