یہ کہا نی نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ
جس خوبصورتی اور دانشمندی کے ساتھ گز شتہ سالوں میں تر کی کے وزیر اعظم رجب
طیب اردغان کے حوالے سے جو قیادت دیکھنے کو ملی وہ یقینا عالم اسلام اور
خاص طور پر عالم عرب کے لئے لا ئق تقلید بھی تھی اور قا بل نمو نہ بھی؛کیو
نکہ طیب اردغان کا سب سے بڑا کا رنا مہ مو جودہ دنیا کے سنگین حالات اور
بحران میں یہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت دو اہم کام انجام دیے۔ ایک تو بذات
خود اپنے ملک تر کی کو کئی مر تبہ اندرونی طو ر پر آپسی خانہ جنگی سے بچا
یا۔ کیو نکہ تر کی آ ج سے نہیں بلکہ خلافت عثما نیہ کے وقت سے ہی دشمنوں کی
آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے اور اس کو توڑ نے کے لئے ہر ممکن کو ششیں ہو تی
رہی ہیں ۔ اور اس وقت بھی تر کی کو اندرونی طور پر سا زشوں کا سا منا ہے،
لیکن طیب اردغان کی فہم وفراست نے ان حساس اور نازک حالات میں بھی دشمنوں
کی تمام تر مذموم کو ششوں کو ناکام کر کے مثالی قیادت کا نہ صرف عملی نمونہ
پیش کیا ہے بلکہ تر کی کو اقتصادی میدان میں معا صر تر قی یا فتہ ملکوں کی
صف میں لا کر کھڑا کر دیا ۔اور اس وقت تر کی مسلم دنیا کا ایسا واحد ملک
بھی ہے جو دنیا میں کسی ورلڈ بینک یا ملک کا مقروض نہیں ۔ اسی طرح ر جب طیب
ارد غان کے اوپر اس بات کے لئے امریکہ نے دباؤ بنا یاتھاکہ وہ عراق پر حملہ
کر نے کے لئے ہمیں تر کی میں فو جی اڈے فراہم کرے۔تو اس وقت بھی انہوں نے
نہا یت ہی حکمت عملی سے امریکہ او ر اس کے اتحاد یوں کو اڈے دینے سے منع
کیا ۔دوسری طرف پو ری دنیا کے مسلمانوں کے تعلق سے اور خاص پر مشر ق وسطی،
مصر ،شام بر ماوغیرہ میں عملی تعاون اور اظہار ہمدردی کی جو مثالیں ہمیشہ
عملی طور پر ان کی طرف سے د یکھنے کو ملتی ہیں ۔اس سے ان کی جرأت،اور مسلم
امہ کے تئیں ان کی بے چینی اور کرب کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔
اگر اس وقت تجزیاتی طور پر ان ملکوں کی سیاست اور قیادت کا جائزہ لیا جا ئے
جن کو مسلم ملک کہا جاتا ہے ۔ تو ان کے حوالے سے دعو ے کے ساتھ یہی کہا جا
سکتا ہے کہ خود غرضی اور مفاد پر ستی کے سواکہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ ہر جگہ
ملت فروشوں کی ہزاروں مثالیں دیجا سکتی ہیں ۔ لیکن رونا کس کس کا رویا جا
ئے ۔ بس آ خر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ امت یتیم اور مسکین ہو چکی ہے ۔
مسیحا ئی کے تمام رو شن چراغ اب بجھ چکے ہیں ۔ امید کی کو ئی کرن اب کہیں
دکھا ئی نہیں دیتی ،جو کچھ تھی و ہ بھی اب ما یوس کن مر حلوں میں دا خل ہو
کر چراغ سحر ہے ۔ بس! اب خدا خیر کرے ۔کیا ہو گا اس مظلوم امت کا ۔ کون اب
ما یو سیوں کے سا ئے میں امید کا سہا را بنے گا ۔ حا لی کی زبا ن میں اب
یہی کہا جا سکتا ہے اے خاصۂ خا صا نہ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
اے سر برا ہا ن عرب آپ نے’’ اخوان ‘‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ہما ری
امیدوں کو جو ٹھیس پہنچا ئی اس سے ہم نہ صر ف دکھی ہیں بلکہ رسوا ئیا ں
ہمیں کھا ئے جا رہی ہیں ۔تمہا ری عظمتیں ،تمہا را وقار اور عزت واحترام
ساتھ ساتھ تمہا ری خد متیں سر آنکھوں پر۔ہمیں آ پ سے کو ئی ذاتی رنجش نہیں
بلکہ ہما رے اور آپ کے درمیان ایسا خو نی اور اس سے بڑھ کر ایمانی رشتہ ہے
۔جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا ۔جو کبھی کمزور نہیں ہو سکتا ۔اس لئے خدا را ایسے
فیصلے مت لیجئے ۔ کیو نکہ ما ضی میں بھی آ پ کے فیصلوں نے ہما ری گر دنوں
کو جھکا یا ہے۔ اور آج بھی ہم اپنے وطن میں ان غیر مسلم بھا ئیوں کو منہ
دکھا نے کے قا بل نہ رہے جو مسلسل ہما رے ساتھ اس لڑ ائی میں شا مل ہیں کہ
اسلام اور مسلما نوں کا دہشت گر دی سے کو ئی تعلق نہیں۔ آخر آ پ کے پاس
ایسے کونسے ثبوت تھے ۔ جن کو بنیا د بنا کر ’’ اخوان‘‘ کو دہشت گر د تنظیم
قرار دیا ۔ کیا حسن البنا شہیدؒ،سید قطب شہیدؒ ،عبد القادر عودہ شہیدؒ اور
انہی جیسے ہزاروں لوگ جو دین کی خاطر اپنی جا نوں کا نذر انہ پیش کر کے چلے
گئے۔العیاذ با ﷲ! کیا آپ کو وہ لوگ دین کے کسی شعبہ میں کمزور نظر آ تے تھے؟۔
یا آپ کو ان کی قربا نیوں پر یقین نہیں ۔ یا وہ لوگ آپ کے نزدیک دنیا د میں
فساد پھیلا رہے تھے۔اگر ایسے دلا ئل آپ کے پاس موجود ہیں تو کو ئی ایک مثال
پیش کیجئے۔جو آپ کے فیصلے کو صحیح ثابت کر سکے۔لیکن ہم یہ بات دعو ے اور
چیلنج کے سا تھ کہہ سکتے ہیں ۔ کہ آپ کے پا س نہ ایسی کو ئی دلیل ہے اور نہ
ہی آپ کے پا س ایسے ثبو ت ہیں جو ’’اخوان‘‘ کے تعلق سے آ پ کے فیصلے کو حجت
کر سکے ۔ بلکہ اس کے بر عکس آپ کا یہ فیصلہ محض ہوس اقتدار کی خاطر تھا۔ جس
نے اسلام دشمن طا قتوں کی ہزاروں سا لہ اسلام مخالف محنت کی تکمیل کر دی ۔اگرہما
ری اس تلخ نوا ئی بد زبا نی اور بے اعتدا لی سے کسی کو اختلاف ہو تو غا لب
کی زبان میں معا فی ۔
رکھیو غا لب مجھے اس تلخ نوا ئی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہو تا ہے
تمام تر اختلاف کے با وجود سچائی اور حقیقت یہ ہے ہے۔کہ پا کستان سے لیکر
افغا نستا ن، مصر ، عراق بشمول اکثر عرب ممالک کے حکمرانوں کی تا ریخ اور
کا رنامہ اس بات پر شاہد ہیں کہ ان کی اور ان کے فیصلوں کی وجہ سے کئی مر
تبہ اسلام اور اہل اسلام کو نادم اور شر مندہ ہو نا پڑا۔ مثا لیں بہت ہیں
لیکن صرف ایک اقتباس مفکر اسلام مولانا علی میاں ند ویؒ کا پیش کرتا ہوں۔
اے ا ہل عر ب اے اہل مکہ اور اے خادمان حرم آپ نے اپنے ہا تھوں سے اس مقد س
گھر کو بنا یا تھا کہ ہر گھر سے اونچا ہو جا ئے اور صنم و ہیکل سے بلند
دکھا ئی دے آپ کے لئے کیسے جا ئز ہو سکتا ہے کہ پھر ان نا قا بل ذکر بتوں
کا سہا را لیں، یہیں سے عالمی انسا نیت کی آواز اٹھی جس نے امتیازات کے
بتوں کو توڑ کر اور نسلی وطنی غلامی کے طوق و سلاسل کو کا ٹ کر رکھدیا ،جس
نے تا ریخ کا رخ پھیر دیا جس نے حوادث کا منہ موڑ دیا یہیں سے وہ روشنی کی
کرن پھو ٹی جو دنیا میں پھیل گئی اور جس نے انسانیت کے تن مردہ میں روح
زندگی دوڑادی۔
اس ملک کے علاوہ ہما رے دوسرے عرب بھا ئیوں کے غلط مو قف سے ہم عجیب کشمکش
میں ہیں خصوصاً ہند و پاک تو عجیب گھٹن میں ہیں ان لو گوں کو جو قرآ ن کے
سوا کو ئی کتا ب ،شریعت کے علا وہ کو ئی نظام، اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ما سوا کو ئی امام و قا ئد نہیں جا نتے ،انہیں یہ مو قف بہت کھل رہا ہے
، میں آپ سے رحم کی اپیل کر تا ہوں کہ ہمیں اپنے ملکوں میں رسوا نہ کریں آپ
ہما ری مدد نہیں کر سکتے تو ہمیں کمزور بھی مت بنا ئیے ، ہما رے ا سلام پر
اعتما د اپنی اسلامیت پر اطمینان اور تا ریخ اسلامی پر فخر کے مواقع سے مت
رو کیے،ہما رے ا س پرانے یقین کو دھچکا نہ لگا ئیے۔کہ آپ نے قو موں کو جہا
لت کی بو جھل زنجیروں سے چھڑ ا یاتھا،اے اہل عر ب اور اے مصری اور شا می
زعما ء ان مسلما نوں پر رحم کرو جو جا ہلیت سے منہ مو ڑ کر اسلام و قر آن
کو سب کچھ سمجھتے ہیں، آپ نے انھیں مو من قو م بنا یا تھا اور شجر و حجر کی
پر ستش سے بچایا تھا اور ایشیاء و افر یقہ کی قو میں آج بھی منتظر ہیں،
بھوکی پیا سی انسا نیت زبان حال سے؛ ’’ اَ فِیضُوا عَلَینَا مِنَ المآءِ
اَومِمَّا رَزَ قَکُم اللّٰہ‘‘کی صدا لگا رہی ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
کے خوان کرم سے ہمیں بھی کچھ دو وہ اہل عجم سے تو اس معا ملے میں پیچھے نہ
رہے ، آپ سے تو اس رسول کا قو می وطنی ،لسانی اور تہذ یبی ، بلکہ خون کا
رشتہ بھی ہے ،آپ ہم ہندوستا یوں کو دیکھیں ۔ کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے
نام نامی پر ہما رے جذبا ت بے اختیار ہو جا تے ہیں،روح جھوم اٹھتی ہے اور
آتش سوز تیز تر ہو جا تی ہے ۔
تر کوں کے لۓ یہ نام ایک ایسا سحر انگیز کیف رکھتا ہے جو دوسرے کسی لیڈر
کے لے نہیں پایا جا تا ، محمد صلی اﷲ علیہ اسلم کا نام لے کر تر کوں کو تم
خرید سکتے ہو، انھیں غلام بنا سکتے ہو اسلام کا نام لے کر تو دیکھو کہ کس
طرح ہم ہندوستانی بھی سر آنکھوں کے بل، ہر دور دراز مقام سے آج بھی آنے کو
تیار ہیں، خدا کی قسم دنیا کی کسی تا ریخ نے اس سے بڑھ کر قوت کا سر چشمہ
نہیں دیکھا کل تک یورپ اس قوت سے تھر تھر کا نپتا تھا لیکن آج وہ خراٹے کی
نیند سو رہا ہے ،حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے الفاظ میں میں کہوں گا
کہ’’المحیا محیا کم والممات مما تکم‘‘ اگر یہ خدائی رابطہ نہ ہوتا تو ہما ر
ی تا ریخ آپ کی تا ر یخ سے مختلف ہو تی، اسلام ہی کے رشتے میں ہم دو نوں
بند ھے ہیں وہی اسلام جہاں ہم دو نوں عہد وفا نبھا نا چا ہتے ہیں وہی اسلام
جس کے لئے ہما ری آرزو ہے کہ آپ از سرے نو اس کی قیادت اور اس کے سہا رے
دنیا کی امامت کاکا ر عظیم سنبھا لیں‘‘۔
یہ تھا ایک صا حب دل مصنف اور مورخ کا وہ جذ بہ ، اور ایما نی فراست کہ سا
ٹھ سال پہلے لکھے گئے اس اقتبا س سے ایسا لگتا ہے کہ مولا نا علی میا ں ؒ
کواندازہ ہی نہیں بلکہ سر برا ہا ن عرب کی اس بے غیرتی کا یقین تھا جو آج’’
اخوان‘‘ اور دیگر اسلامی تنظیموں پر دہشت گردی کے الزام کی شکل میں نمودار
ہوا ۔اقبال کے اس شعر کے سا تھ۔
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگا ہی سے
جوا نان تتا ری کس قدر صاحب نظر نکلے |