سابق چیف جسٹس افتخار محمد
چودھری کو اﷲ جزائے خیر دے، انہوں نے کراچی میں جاری خون ریزی کا از خود
نوٹس لیا تھا۔ اس مقدمے کی درجنوں سماعتیں ہوچکی ہیں۔ جج صاحبان کے زور دار
ریمارکس اور احکامات اخبارات کی سرخیاں بنتے رہتے ہیں مگر عملاً کراچی آج
بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں از خود نوٹس لیے جانے کے وقت تھا۔ اس معاملے میں ہم
عدالت کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے، وہ ’’بے چاری‘‘ تو جو کرسکتی ہے، کررہی
ہے، البتہ سندھ کی ’’عوامی حکومت‘‘ کی مصلحتیں اور بیورو کریسی کے روایتی
ہتھکنڈے کراچی کو کراچی نہیں بننے دیتے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں اسلحہ کی بھر مار کا معاملہ بہت سنجیدگی کے ساتھ
اٹھایا تھا۔ عدالت میں کہا گیا تھا کہ شہر میں امریکی، اسرائیلی اور بھارتی
اسلحہ بے دھڑک لایا جارہا ہے، اس حوالے سے انٹری پوائنٹ کی بھی نشاندہی کی
گئی تھی۔ ایک دو نہیں ہزاروں نیٹو کنٹینروں کی کراچی میں پر اسرار گمشدگی
عدالت میں موضوع بحث رہی۔ ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنا مگر نتیجہ صفر رہا۔
سارے قصے کو اتنی مہارت سے گول کیا گیا کہ اب نیٹو کنٹینروں کی گمشدگی
بھولی بسری داستان بن کر رہ گئی ہے۔ شہر میں زمینوں پر قبضے اور اس کے
نتیجے میں ہونے والی قتل وغارت کی گونج بھی عدالت میں سنائی دی۔ بورڈ آف
ریونیو نے فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لمبی چوڑی رپورٹیں پیش کیں، جن میں
حقائق کم اور لفاظی زیادہ تھی۔ زمینوں کے از سر نو سروے، گوٹھوں کی لیز میں
شفافیت اور لینڈ مافیا کے خلاف بڑے آپریشن کا حکم دیا گیا، پولیس موبائلیں
ادھر ادھر دوڑتی نظر آئیں، سرکاری زمینیں واگزار کرانے کی خبریں چھپوائی
گئیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی زمینیں آج بھی مافیاؤں کے کیک ہیں۔
جس طرف نظر دوڑائیں قبضے ہی قبضے نظر آتے ہیں۔ سرکاری حکام قبضہ مافیا کو
خود ’’ٹپ‘‘ دیتے ہیں۔ کون سی زمین خالی ہے؟ کس پر کیسے قبضہ کیا جاسکتا ہے؟
جعلی کاغذات کیسے بنیں گے؟ یہ سارا کام محکمہ ریونیو میں پہلے بھی ہوتا تھا
اور اب بھی پورے روایتی جوش وخروش سے جاری ہے۔ باقی رہے عدالتی احکامات……
کون سے احکامات؟…… ہا ہا ہا……
عدالت عظمیٰ کے نوٹس کے بعد سندھ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی انگڑائی لینا
پڑی تھی، جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایک ہلکا پھلکا آپریشن شروع کیا گیا، جو
کوئی خاص نتیجہ نہیں دے سکا۔ البتہ نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد
کراچی میں حکومت کی سنجیدگی زیادہ دیکھنے میں آئی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کئی
مرحلوں پر مشتمل ایک بڑے آپریشن کا اعلان کیا، رینجرز کو اچھے خاصے
اختیارات کے ساتھ فری ہینڈ دیا گیا جبکہ پولیس کو بھی جگایا گیا، اس سارے
آپریشن کی قیادت ’’جواں سال‘‘ وزیر اعلیٰ قبلہ شاہ صاحب کے سپرد کردی گئی۔
پولیس اور رینجرز نے دھڑا دھڑ محاصروں، چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع
کردیا۔ رینجرز کی پریس ریلیزوں کے مطابق سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا
گیا، جو لوگ پولیس کے ہتھے چڑھے وہ الگ ہیں۔ ملزمان سے اسلحہ کی جو برآمدگی
دکھائی گئی ہے اس سے بلامبالغہ کئی ٹرک بھرے جاسکتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ
سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ہزاروں افراد کی حراست اور ٹرکوں کے حساب سے
اسلحہ کی بر آمدگی کے بعد شہر کی حالت میں کوئی بہتری آئی؟ کیا اب لاشوں کے
گرنے کا سلسلہ تھم گیا ہے؟ چلیے مکمل طورپر نہ سہی، کچھ کمی آئی؟ کیا اب
اسلحہ کے زور پر شہریوں کے لٹنے کی وارداتیں کم ہوگئی ہیں؟ افسوس، اعداد
وشمار ان سوالات کے جواب نفی میں دیتے ہیں۔ روز لاشے بھی گررہے ہیں اور
بھرے بازاروں میں شہریوں کو لوٹا بھی جارہا ہے۔
چوں کہ آپریشن کے لیے زیادہ انحصار رینجرز پر کیا جارہا ہے، اس لیے ناکامی
پر انگلیاں بھی اسی کی طرف اٹھتی ہیں۔ عوام میں رینجرز کا کردار پہلے بھی
زیر بحث رہا ہے مگر اب بہت زیادہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ لوگ حیران ہیں
کہ رینجرز کو مکمل فری ہینڈ دینے کے باوجود امن وامان کی صورت حال بہتر
کیوں نہیں ہوپارہی؟ رینجرز ملزمان کو پکڑسکتی ہے، اپنے زیر کنٹرول تھانوں
میں رکھ سکتی ہے اور خود ان سے تفتیش کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کون سا
اختیار بچتا ہے، جو رینجرز کو دیا جائے۔ ڈی جی رینجرز نے پچھلے دنوں اپنی
فورس پر اٹھنے والے اعتراضات کا بڑا حیران کن جواب دیا ہے۔ عوام پہلے اس
بات پر حیران تھے کہ رینجرز کچھ کیوں نہیں کر پارہی اور اب اس پر حیران ہیں
کہ ڈی جی صاحب نے یہ کیا کہہ دیا۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ ’’ان کو
کوئی فری ہینڈ نہیں دیا گیا اور اختیارات دینے کی باتیں بھی درست نہیں ہیں۔‘‘
مطلب؟ وزراء کے بیانات محض ڈراما بازی تھی یا پھر ڈی جی رینجرز کا بیان
حقیقت کے برعکس ہے۔ شاید ڈی جی صاحب کی بات میں زیادہ وزن ہے، کیوں کہ
حکمرانوں نے اس بیان پر جس طرح ہونٹ سی رکھے ہیں، وہ معاملہ سمجھنے کے لیے
کافی ہے۔
ڈی جی رینجرز نے بڑے پتے کی بات کی ہے، ان کا کہنا تھا جب تک ہم سچ نہیں
بولیں گے، کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا، خواہ کتنے ہی آپریشن کیوں نہ
کرلیں۔ سچی بات یہی ہے، کراچی کے بارے میں پورا سچ بولا جاتا ہے اور نہ
لکھا جاتا ہے۔ ہم کہیں نہ کہیں ضرور ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ آپ اس کالم میں بھی
دیکھیں گے کہ کوئی موڑ ایسا ضرور آئے گا، جس پر یہ ’’بہادر‘‘ کالم نگار
گونگا، بہرا اور نابینا بن کر گزر جائے گا۔ یہی حال باقی کالم نگاروں کا
ہے۔ کراچی میں کسی راہ چلتے بچے کو روک کر پوچھ لیں، بیٹا! لوگوں کو کون
مارتا ہے؟ وہ سب کچھ فٹافٹ بتادے گا۔ جو بات بچے بچے کو معلوم ہے وہ میڈیا
اور حکمرانوں کو نہیں معلوم۔ بے چارے سادہ لوگ……!!
واقعی کراچی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک بار سب کو ہمت کرنا پڑے گی، تیسری
قوت اور خفیہ ہاتھ کے راگ الاپنا چھوڑ کر وہ بتانا چاہیے جو سچ ہے۔ حالیہ
آپریشن کے آغاز پر گرفتار ملزمان کی سیاسی وابستگی ظاہر کرنے کا سلسلہ شروع
کیا گیا تھا، یہ ایک اچھا قدم تھا، اس سے کم از کم عوام کو یہ تو پتا چل
رہا تھا کہ یہ ’’نامعلوم‘‘ افراد کون ہوتے ہیں۔ پھر نجانے ایسا کیا ہوا کہ
حکومت الٹے قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی اور یہ خبر سامنے آئی کہ وفاقی وزیر
داخلہ نے پولیس اور رینجرز کو ملزمان کی سیاسی وابستگی ظاہر کرنے سے روک
دیا۔ یہ بھی عجیب تماشا ہے اگر کوئی ’’مذہبی‘‘ ملزم پکڑا جائے تو اس کا
سارا حسب نسب کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور ’’سیاسی‘‘ ملزمان کو سات پردوں
میں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ ملزَم، ملزَم ہوتا ہے، اسے مذہبی اور سیاسی
خانوں میں بانٹنے کی کیا تک ہے؟ پولیس اور رینجرز جس طرح طالبان اور لشکر
جھنگوی کے مبینہ ارکان کو پوری تفصیلات کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کرتی
ہیں، انہیں یہ اجازت بھی ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ملزَمان کو بھی
اسی طرح بے نقاب کرسکیں۔
کالم کی گنجایش ختم ہوچکی مگر ایک بات لکھے بغیر یہ ادھورا رہے گا۔ پولیس
اور رینجرز کو ملزمان کی گرفتاری اور تفتیش کا تو پورا پورا اختیار ہے مگر
کسی کو سزا دینے کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ
اور اہل سنت والجماعت کے کارکنان کو مار کر پھینکنے کے واقعات سے کس صورت
انکار ممکن نہیں۔ یہ جماعتیں ان ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام فورسز پر
عاید کرتی ہیں۔ لوگوں کو لاپتا اور مار کر پھینکنے کا نسخہ بہت پرانا ہے،
ملک کے کئی حصوں میں اس نسخے کو آزمایا گیا اور یہ ہر جگہ نہ صرف ناکام رہا
بلکہ اس سے مزید بدامنی پھیلی۔ کراچی میں بھی اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔
|