اس افراتفری کا سبب کیا ہے؟

جب الیکشن 2014کا اعلان ہوا ہے ملک عجیب سی کشمکش اور کشیدہ صورت حال سے دو چار ہے ۔ارتعاش ،تشویش اور غیر یقینی سچویشن ہے بڑھتی جارہی ہے ۔ لیڈران ،سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کے چہروں پر خوفناک زلزلے مچل رہے جن کی باعث سیاست کی قدیم سے قدیم عمارتیں بھی ہل رہی ہیں ۔پارٹیوں میں داخلی و خارجی سطحوں پر انتشار نمایاں ہورہا ہے۔لیڈران اس پارٹی سے اس پارٹی کے جہاز میں جانے کی رسم کوبھی بڑی تعداد میں نبھا رہے ہیں ۔متعدد مقامات سے تودہائیوں سے کامیابی حاصل کر نے والے امید واروں کے ٹکٹ کاٹے گئے ہیں اور انھیں ایسی سیٹوں سے ٹکٹ دیے گئے ہیں جہاں کے گلی کوچوں سے نہ وواقف ہیں اور نہ ہی عوام انھیں جانتے ہیں ۔ ایسے امید واروں کو کالے جھنڈوں ، دشواریوں اور شدید مخالفتوں کا سامنا ہے۔مگر وہ اپنی پارٹیوں کی انتخابی سمیتیوں کے احکام کے پابند اور غلام ہیں ۔کانگریس ،بی جے پی میں تو اس قدر مخالفتوں کے واقعات سامنے آئے ہیں کہ رائے دہندگان کے دلوں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ۔ ٹکٹ نہ ملنے پرپارٹی کے خلاف مورچہ کھولتے ہوئے دھرنا مظاہرہ۔کہیں اپنی مرضی کے مطابق ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں ناراضگی ۔کہیں سرے سے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں دَل بدلنے کا مذموم سلسلہ ۔کہیں پارٹی کے خلاف ہی مورچہ آرائی ۔اندورنی و باہری امید واروں کا بھی شاخسانہ۔ 10-15دن کے اس عرصے میں کیا کیا نہ ہوا۔

ایسا نہیں ہے کہ الیکشن 2014کوئی انوکھے انتخابات ہیں یا ملک میں اس سے قبل الیکشن نہیں ہوئے بلکہ گذشتہ 67برس سے ہندوستان میں یہ دستور جاری ہے مگر نہ جانے کیوں الیکشن 2014وقت سے پہلے عظیم تبدیلی اور تاریخ سازی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے ۔دنیا ئے سیاست کی بات تو رہنے دیجیے اب تو وہ بھی چہ می گوئیاں اور اظہار خیال کررہے ہیں جنھیں سیاست کی اے بی سی ڈی بھی نہیں آتی ۔ غرض یہ کہ کیا دانشور ،کیا عالم ،کیا معمولی پڑھا لکھااپنی اپنی رائے زنی کر رہا ہے اور ہر چوراہے ،ہر کراس ،پارکوں ،ہوٹلوں،بسوں ،راستوں اور اداروں میں صرف الیکشن 2014کا چرچا ہے ۔

الیکشن 2014اس معنا کر بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ اس مرتبہ ایک ایسی پارٹی نے ملک کی بڑی اور قدیم پارٹیوں سے لوہا لینے کا عزم کیا ہے جس کے وجود کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ۔جس نے دہلی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو زبردست شکست سے دوچار کیا اور تاریخ میں اپنی دھماکے دار موجودگی درج کر ائی ۔اسے عرف عام میں ’عام آدمی پارٹی‘یا ’عآپ‘ کہاجاتا ہے ہے۔’عآپ‘ اوراس کے انتخابی نشان ’جھاڑو‘ہندوستان کی قسمت کا ایک ایسا ستارہ بن گئی جس پر نہ صرف عوام ہند کو بھروسہ ہے بلکہ ملک کو بھی ان کی ضرور ت ہے۔مانا جارہا ہے کہ کرپشن کے دلدل میں گردن تک دھنسے ملک اور بدعنوانی ، حوالہ بازی ،مہنگائی ،بدعنوانی اور فریب دہی کے ان مہیب طوفانوں اور گھپ اندھیروں میں ملک اور باشندگان ملک کو چراغ امید دکھانے کام’عآپ‘کررہی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2014میں بہت عجیب سی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ماہرین سیاست بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں اور انھیں 16ویں لوک سبھا کے نتائج بہت ہی پیچیدہ اور تناؤ بھرے نظر آرہے ہیں۔

ملک مو جود ہ وقت میں جن حالات سے گذررہا ہے اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ جس ’عام آدمی ‘کوملکی وقومی سطح کی پارٹیاں گذشتہ68برس مال مفت اور مال غنیمت کے طور پر استعمال کر رہی تھیں ۔ووٹ بنک بنا کر اس کا استعمال کررہی تھیں اور اس کی ترقی کے صرف وعدے کر کے اسے بے وقوف بناررہی تھیں۔پانچ سا ل کے بعد صرف ایک مرتبہ شکل دکھاکر تمغۂ عظیم کی حق دار بن رہی تھیں۔وہ ’عام آدمی‘اب جاگ گیاہے اور اس نے اب تبدیلی کاعزم کرلیا ہے۔اس چراغ نے اب تیزہواؤں سے مقابلہ کر نے کا عزم کر لیا ہے جو اس کے وجود کو مٹا رہی تھیں۔اس بپھرے سمندر نے ایوان سیاست کو تہس نہس کر نے کا من بنا لیا ہے جس کی جانب سے اس میں تیزاب ڈالا جارہا تھا ۔ان آسمانوں نے اب تڑخنے ،کڑکنے اور گر جنے کا منصوبہ بنا لیا ہے جن کو سیاسی محلات کی چھتوں سے آنکھیں دکھائی جاتی تھیں۔’عام آدمی‘الیکشن 2014کوآزادی کی دوسری جنگ تصورکر رہا ہے ۔جس طرح 1857میں انگریز سامراج کے خلاف اس نے تن من دھن کی بازی لگاکر پہلی بار انگریز ی سلطنت کے ایوان ہلا دیے تھے اور وہ عزم 1947میں ملنے والی آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔اسی طرح 2014میں ملک کو بدعنوانی،مہنگائی ،کرپشن،فریب کاری اور فرقہ پرستی سے آزاد کرانے کی مہم چھیڑنے کا وہ عزم کیے ہوئے ہے۔پارلیمنٹ میں اب کسی ایسے شخص کو نہیں جانے دیا جائے گا جس نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیاہے۔

ان حالات سے ظاہر ہورہا ہے کہ الیکشن 2014کی کروٹ ،وہ کروٹ ہے جس سے واقعی ملک میں خوشگوار تبدیلی آئیگی اور بدعنوانی پاک ملک نئی نسلوں کو تحفے میں ملے گا ۔اب دیکھنا ہے کہ نئی نسلیں بزرگوں کے اس تحفے کا خیال کب تک رکھتی ہیں۔

احساس
ملک مو جود ہ وقت میں جن حالات سے گذررہا ہے اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ جس ’عام آدمی ‘کوملکی و قومی سطح کی پارٹیاں گذشتہ68برس مال مفت اور مال غنیمت کے طور پر استعمال کر رہی تھیں ۔ووٹ بنک بنا کر اس کا استعمال کررہی تھیں اور اس کی ترقی کے صرف وعدے کر کے اسے بے وقوف بناررہی تھیں۔پانچ سا ل کے بعد صرف ایک مرتبہ شکل دکھاکر تمغۂ عظیم کی حق دار بن رہی تھیں۔وہ ’عام آدمی‘اب جاگ گیا ہے اور اس نے اب تبدیلی کاعزم کرلیاہے۔اس چراغ نے اب تیزہواؤں سے مقابلہ کر نے کا عزم کر لیا ہے جو اس کے وجود کو مٹا رہی تھیں۔اس بپھرے سمندر نے ایوان سیاست کو تہس نہس کر نے کا من بنا لیا ہے جس کی جانب سے اس میں تیزاب ڈالا جارہا تھا ۔ان آسمانوں نے اب تڑخنے ،کڑکنے اور گر جنے کا منصوبہ بنا لیا ہے جن کو سیاسی محلات کی چھتوں سے آنکھیں دکھائی جاتی تھیں۔
 

IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56419 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More