کیامودی کے عزائم کو تباہ کردے گی……؟
ٹیلی وژن پروگراموں میں مختلف اِنتخابی نتائج کی پیشین گوئیاں کرتے کرتے،
الیکشنی سیاست کے معروف تجزیہ کار اور عام آدمی پارٹی کے پالیسی
ساز،مسٹریوگیندر یادو ، آج کل ’’ گر گاؤں‘‘ (ہریانہ) کی دُھول بھری سڑکوں
پر اپنی تجرباتی الیکشنی مہم جوئی میں مصروف ہوگیے ہیں۔ گو کہ ہریانہ کے
راستے اپنی خستہ حالی کے سبب بڑے تکلیف دہ تو ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن
کا یہ سفر بہت حو صلہ بخش ثابت ہو رہا ہے۔کسی عام ناظر کے لیے اِس حقیقت کو
تسلیم کرنے کے لیے، صرف ایک لمحے کے توقف کی ضرورت پڑتی ہے کہ کیا یہ وہی
ٹیلی وژن کی مشہور و معروف شخصیت ہے جو آج تک الیکشنی نتائج کے نمبروں کے
ساتھ کھیلتی رہی ہے ۔ ٹوپی کے ساتھ، ہاروں سے لدے ہوئے، کسی اوتار کی طرح
وہ آج کل اپنی پارٹی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اِس
سفر کے دوران عام آدمی کی پارٹی کے بارے میں اُنہوں نے جو نظریات پیش کیے
ہیں، اُس پر عملداری مخالفیں کے لیے بہت مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر عوام
تک اِن سارے نظریات کی ترسیل ہو جائے اور بات سمجھ میں بھی آجائے تو مودی
کی لٹیا ڈوب سکتی ہے۔آئیے اُن کے اِس سفر میں شامل ہوتے ہیں۔
جناب یوگیندر یادوخود ، پس منظر میں رہ کر کام کرنے کا تاثر دیتے ہیں،وہی
کام جو اُن کا خاصہ ہے، جسے وہ بہت بہتر طریقے سے انجام بھی دے سکتے ہیں۔
اپنے نوجوان رفقاء کوپارٹی کی انتخابی حکمتِ عملی کے سلسلے میں مشورے بھی
دینا چاہتے ہیں۔ مالی بحران سے جو جھ رہی پارٹی جو لوک سبھا کے انتخابات
جیسے بے یقینی کے سمندر میں اپنی کشتیوں کو اُتار کر مسلسل جدوجہد میں
مصروف ہے، اُسے بھی وہ اپنے ذہنِ رسا سے بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ساتھ ہی، عام
آدمی پارٹی کی انتخابی بنیادوں کو توسیع دینے اور اِسے ایک قومی پارٹی کی
حیثیت دینے کے اپنے اِرادوں کے پیش نظر، یوگیندریادو محسوس کرتے ہیں،کہ اُن
کے لیے خود اُن کے اپنے انتخاب لڑنے کے فیصلہ کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
وہ کہتے ہیں: ’’دہلی کے بعد ہم ایک دوسری سیاسی پیش رفتBreakt hrough چاہتے
ہیں۔ہریانہ میں اکتوبر ۲۰۱۴کو اسمبلی الکشن ہونے والے ہیں۔گر گاؤں میرا وطن
ہے اورعام آدمی پارٹی کا فیصلہ ہے کہ انتخاب لڑا جائے۔نیز یہ کہ، جب تک میں
یہاں الکشن لڑنے کو نہ آتا،تو ہمارے کارکنان کو یہ احساس کیسے ہوتا کہ ہم
اِس الکشن میں واقعتا موجود ہیں۔!!اروند کیجریوال کی مثال ہمارے سامنے ہے
کہ ہمیں بہر حال رِسک لینا ہے۔ہمارے کارکنان کے حوصلوں میں جان بھرنے کے
لیے اِن کی قیادت کو رِسک لیتے ہوئے نظر آنا چاہیے۔‘‘
مسٹر یادو کے ساتھ سفر کرنا گویا ایک ایسی بس میں سوار ہونا ہے جو چلتی تو
رہتی ہے، مگر بار بار رکتی بھی ہے۔وہ جہاں بھی رکتے ہیں، بالکل کھرے پن کے
ساتھ بہت سارے موضوعات پر بولتے جاتے ہیں مثلاً یہ کہ:
۱)…… یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کا لوک سبھا الکشن لڑنے کا فیصلہ، ایک
دانشورانہ ماہرِالکشنیات کی حیثیت سے اُن کے اصل کام کو متاثر کردے گا۔
۲)…… یہ کہ ،ایک نیے پن کے ساتھ عام آدمی پارٹی کے فطری ارتقاء کو، صرف
سیکولر اور سماجی انصاف کے لیے لڑنے والی جیسی ایک مغالطہ انگیز وژن سے
ملادینے کی کوششوں کا قلع قمع کر تے ہوئے مودی پربڑے پیمانے پر حملوں کے
اسباب کی تشریح کرنا بھی اُن کا ایک اہم کام ہے،اور
۳)…… یہ کہ،اِس الکشن میں’’ عآپ‘‘ کی توقعات کیا ہونے چاہییں اور یہ کہ وہ
اِس کے بعد اپنے آپ کو کہاں کھڑا دیکھے گی ، جیسی باتیں طے کرنا بھی وہ
اپنا کام سمجھتے ہیں اور ترجیحاب میں سب سے اوپر ہوتی ہیں؛
راستے میں ہر دیہات کے حاشیہ ٔ نظر میں آتے ہی ،یوگیندر یادو سے گفتگو کا
سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔جہاں بھی یوگیندر یادو کسی بستی میں خطاب کے لیے اپنی
سواری سے اُتر جاتے ہیں ، وہاں وہ اپنے خطاب میں گلا بھربھر کے بھارتیہ
جنتا پارٹی ،مودی اور ان کے امبانی گٹھ جوڑ کی دھجیاں اُڑا تے جاتے ہیں۔اِن
کا یہ انداز بظاہر کانگریس کے زیر اقتدار ریاست سے میل کھاتا ہوا نہیں
لگتا، لیکن تھوڑے سے غور و فکر کے بعد یہ اِس لیے مناسب محسوس ہوتا ہے، کہ
یوگیندر یادو کے مقابلے میں لڑنے والے راؤ اندرجیت سنگھ، جو ایک مقامی راجہ
خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی جڑیں علاقے میں بڑی گہرائی تک اُتری
ہوئی ہیں،ابھی حال ہی میں کانگریس سے بے وفائی کرکے بی جے پی میں شامل
ہوچکے ہیں۔ یوگیندریادو اپنے سامعیں سے کہتے ہیں:’’اِس مقام پر،ایک راجواڑے
کی طاقت ہے ، جس نے مودی کی فورس سے ہاتھ ملا لیا ہے۔‘‘ظاہر ہے مودی کی
مخالفت اصل موضوع تو بنے گی ہی۔
اپنی سواری میں سوار ہوتے ہی یادو جی اعتراف کرتے ہیں :’’ اپنے مضبوط گڑھ
دہلی اورہریانہ میں خود کو محدود رکھنے کے بجائے عام آدمی پارٹی نے سارے
ملک میں الکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے، جیسے خود کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ دہلی
میں، ہم نے ایک سیاسی پیش رفت میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اخلاقی اثرات
مترتیب بھی کیے ہیں۔اب ہمارے سامنے دو راستے کھلے ہیں ۔یا تو ہم خود کو
دہلی تک محدور کر لیں یازیادہ سے زیادہ کچھ میٹرو شہروں تک اپنی توسیع
کرلیں اور کچھ اچھے نتائج بھی حاصل کرلیں یا پھر یہ کہ غیر روایتی طور پر
حاصل ہونے والی غیر معمولی ملک گیر حمایت کے پیشِ نظر اپنی لڑائی کومزید
پھیلائیں۔’’
مجھے یقین ہے کہ ہم نے ایک صحیح راستے کو چنا ہے اورصحیح طریقۂ کار کا
انتخاف کیا ہے۔ ایک لمبی دوڑ ہے، جس میں خود کو موجود پاتے ہیں۔ہمارا مقصد
یہ ہے کہ ہم ایک لمبے وقفے تک کام کرنے والا متبادل بنائیں۔اپنی ملک گیریت
کوتیزی سے بڑھانا گو کہ ایک مشکل کام ہے، تاہم’’ملک گیر سطح پر ہمارا نہ
پھیلنا ، ہمیں حاصل ہونے والی ملک گیر حمایت کو آبی بخارات بناکر اُڑا دینا
ہے۔میرا اپنا خیال یہ ہے کہ،ایک قومی سیاسی متبادل کی تشکیل کا ایک ہی
ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ، ہم اپنے سیاسی دائرۂ کار کو اِسی تیز گامی اورجنون
کے ساتھ وسیع تر کریں۔ سیاست کی ایک نصابی کتاب والی فہم یہ ہے کہ ہم پھونک
پھونک کر قدم بڑھائیں، لیکن تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔کسی سیاسی پارٹی
کا آغاز ویسے ہی ہے، جیسے کسی راکیٹ کا خلا میں داغ دیا جانا۔یا تو آپ کششِ
ثقل کو مات دے دیں گے، یاخود منہدم ہو جائیں گے، اِن کے علاوہ کوئی تیسرا
راستہ نہیں ہے۔یہی ایک حقیقت پسندانہ راستہ ہمارے لیے کھلا ہے۔ہم الیکشن کے
بعد دیکھیں گے کہ کہاں تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
اپنی پارٹی کے لیے مسٹر یادونے تشخیصِ مرض یہ تجویز کیا ہے کہ:’’ وہ دہلی،
ہریانہ، پنجاب اور چندی گڑھ اوراُتر پردیش، مہاراشٹرا اور کرناٹک کے لیے
کامیابی کی ایک سنجیدہ دعویدار بن جائے۔پھر اِس حکمتِ عملی کی ’’دوسر ی
سطح‘‘ میں وہ علاقے شامل ہوں، جہاں عام آدمی پارٹی ۵ تا ۱۰ ؍فی صد ووٹ کا
حصہ اپنے قبضے میں کر لے، اور اِس طرح سیدھے سیدھے پارٹی سیاسی طور پر برسر
کار ہو جائے۔مسٹر یادو کا خیال ہے کہ اِن علاقوں میں’’عآپ‘‘ کی موجودگی
،سیاسی مقابلے کی نوعیت ہی کو بدل کر رکھ دے گی۔ پھر اس کے بعد ایک تیسر ی
سطح ہوگی۔جہاں یادوجی کے بقول عام آدمی پارٹی ایک علامتی موجودگی درج کر ے
گی۔ایک علامتی موجودگی بھی بہت معنیٰ رکھتی ہے۔کیوں کہ یہی چیز اِس کے طویل
مدتی سفر میں رفتہ رفتہ اِسے قومی کردار عطا کرے گی۔‘‘وہ ایک مثال دیتے
ہوئے کہتے ہیں کہ’’ پنجاب اور گجرات میں علی الترتیب اشتراکی اور گاندھیائی
افرادکی موجودگی نہایت قلیل تھی۔ اِس کے باوجود وہ ایک طاقتوار اخلاقی قوت
بنے رہے۔اخلاقی دباؤ بیشتر اوقات نازک مسائل کی طرف توجہ مبذول کراتا
ہے۔‘‘مسٹریادو کہتے ہیں کہ:’’ وہ سیات کا ایک طویل مدتی زاویہ ٔ نظر رکھتے
ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ’’ نیکیوں کی ایک قوت‘‘ تخلیق کی جائے، جو عوامی زندگی
کے کردار ہی کو بدل کر رکھ دے۔یہ چیز قومی ایجنڈہ کو مُشکّّل کرتی جائے
گی۔‘‘اُن کے بقول:’’سیاسی قوت کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ آپ ایجنڈہ کس قدر’’
مُشکّل‘‘Shape کرپاتے ہیں۔ سیاسی کھیل کے اُصولوں کو آپ کس قدر بدل پاتے
ہیں اور کس قدر آپ مثالی نوجوان اپنی پارٹی کے لیے کھینچ پاتے ہیں۔‘‘
سفر کے ایک اور پڑاؤ میں ایک تقریر کے بعد ، ایک اور سوال زیر بحث آتا
ہے:’’عام آدمی پارٹی کے فلسفۂ سیاست کا سوال‘‘، یا زیادہ بہتر طور پر کہا
جائے تو،’’کسی فلسفے یا آئیڈیالوجی سے پارٹی کے تہی دامن ہونے کا
سوال۔‘‘مسٹر یادو’’سکیولر ؍فرقہ پرستی‘‘ کے ڈبیٹ میں اُلجھنے سے اِنکار
کرتے ہیں۔اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک متعین ’’سیکولر‘‘ موقف کے مقابلے میں
سیکولرزم تک پہنچنے کا بہتر راستہ وہی ہے جو ،مختلف الخیال رائے دہندگان کی
بنیادوں سے ہو کر گزرتا ہے۔دہلی میں ہمارے حق میں جو سب سے اچھی بات ہوئی
وہ ایک دریافت کی طرح تھی ، یعنی مسلمانوں اور دلتوں نے غیر متوقع طور پر
بہت بھاری حمایت سے عام آدمی پارٹی کو نوازا۔ حمایت کی یہی اساس تھی ، جس
نے سیکولرزم اور سماجی انصاف کی جانب عام آدمی پارٹی کی رہنمائی کی۔
’’سیکولرزم اورآئیڈیالوجی کے تئیں ہمارے احساسِ وابستگی کو مسلمانوں اور
دلتوں کی اسی حمایت سے جِلا ملتی ہے،اور یہی ہے جوہماری آئیڈیالوجی کے نوک
پلک درست کرتی ہے۔‘‘کسی متعین نظریاتی حیثیت اِختیار کرنے پر پارٹی کے تامل
کے بارے میں وہ کہتے ہیں:’’ یہ ایک الگ ہی قسم ہے، جہاں سیکولرزم کی کوئی
نام نہاد فلسفیانہ سیاسی تھیوری نہیں پیش ہوتی، سیکولرزم کو لے کر بیان
بازیاں نہیں ہوتیں۔اِس کے بجائے،مرکزِ توجہ (تمام طبقات
کی)’’شمولیت‘‘Inclusion ہوتا ہے۔مسٹر یادو مسلمانوں اور دلتوں کی حمایت کو
آنکھیں کھول دینے والا مظاہرہ کہتے ہیں ،جواِس حقیقت کے باوجود پارٹی کو
حاصل ہوئی کہ اِن کی شناخت اوراِس سے جُڑے مسائل کے بارے میں اُن کے قومی
دانشوروں کی لائن سے اتفاق کرنے سے عام آدمی پارٹی نے صاف انکار کر دیا
تھا۔اروند کیجریوال نے مسلمانوں کو جومراسلہ تحریر کیا تھا، وہ افیشیل
سیکولرزم کی بھاشا میں لکھا ہوا نہیں تھا۔اِس مراسلہ نے مسلمانوں کی شناخت
کے کسی روایتی مسئلے کو نہیں اُٹھایا تھا،جوعموماً مسلمانوں کی قیادت کو
جکڑے رہتا ہے۔ جیسا کہ،’’ علی گڑھ‘‘،’’ اُردو‘‘ یا’’ مسلم تہذیب‘‘
وغیرہ۔مراسلہ گفتگو کرتا ہے، تحفظ کی، جو اصل مسئلہ ہے ، یہ گفتگو کرتا ہے
، پانی، بجلی، اور زندگی سے جڑے مسئلوں کی۔اِس طرح مسلم سیاست کی کسی بھی
نصابی کتاب کے حوالے سے تو ، ہمارے اِس نقطۂ نظر کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا
جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔مسلمانوں نے تمام تر ذہنی تحفظات
کو بالائے طاق رکھا اور ہماری حمایت کی تھی۔ہماری پارٹی کا موقف دلت کے
بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ہم وہ نہیں کہتے جو دلتوں کے دانشور کہنا
چاہتے ہیں۔اگر عام آدمی پارٹی کو حاصل ہونے والی یہی حمایت ، مودی کی
مخالفت کی بنیاد بنی ہے؟۔ تو پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ دہلی میں حکومت سازی
کے دوران یہ فوکس کیوں موجود نظر نہیں آتا؟’’ مجھے کہنے دیجیے اور میں
بارباریہی موقف دہراتا رہوں گا کہ مودی دراصل نظریہ ٔ ہندوستان کے خلاف
کھڑا دکھائی دیتا ہے۔‘‘کیا میری جانب سے اِس سے بڑھ کر خطرناک بیان کچھ اور
بھی ہو سکتا ہے……؟
دہلی الیکشن کے دوران اور اُس وقت جب کہ ہم برسرِ اقتدار تھے، ہم روز مرہ
کے مسائیل میں پھنس کر رہ گیے تھے۔پارٹی میں بھی مودی پر حملے کو لے کر ایک
تامل پایا جاتا تھا، اِس لیے کہ اِ سے ہماری اصل سیاسی قوت نہیں سمجھا
جارہا تھا۔لیکن، اس مرحلے میں بھی میں اور پرشانت بھوشن بالکل شرحِ صدر کے
ساتھ سمجھتے تھے ، کہ عام آدمی پارٹی کا اصل حریف ’’مودی‘‘ ہی ہے۔اگر عام
آدمی پارٹی مودی کی (نام نہاد مہتمم با الشان )لہر کے نیچے دب کر بکھر جائے
،تب کیا ہوگا؟مسٹریادوجواباً اپنے اِظہارِ خیال میں بالکل واضح نظر آتے
ہیں، جب وہ یہ کہتے ہیں ، کہ ٹھیک یہی چیز ہوگی ،جومودی سے لڑنے کے پارٹی
کے اِرادوں کے استحکام میں اِضافہ ہی کرے گی۔’’ہمارے لیے یہ امر کوئی معنی
نہیں رکھتا کہ عام آدمی پارٹی کتنی سیٹیں جیتیں گی۔‘‘خدا نخواستہ ہمیں ایک
بھی سیٹ نہیں ملتی ہے تو، ہم گلیوں میں کھڑے ہوجائیں گے اور مودی سے بر سرِ
پیکار ہو جائیں گے۔ا ورکانگریس اور راہل گاندھی کا حال یہ ہوگا کہ وہ بے
وقعت ہوکر رہ جائیں گے۔اِس مرحلے میں آکر ہمیں ایک طاقت ور اخلاقی قوت
درکار ہے۔ جس کے ذریعہ مودی پر حملہ آور ہوناموثر ہو سکے اوریہ اخلاقی قوت
عام آدمی پارٹی کے سوا اور کیا ہوگی!! میرے لیے یہی میری سیاست ہے۔کسی قسم
کی متعین آئیڈیالوجی کی ضرورت کو مستردکرنے سے لے کروزارتِ عظمیٰ کے بی جے
پی کے اُمیدوار کے خلاف ایک مضبوط آواز کی حیثیت میں اُبھرنے تک مسٹر اروند
کیجریوال اور یوگیندر یادو جیسے اُن کے رُفقاء اور اِن کی عام آدمی پارٹی ،
دراصل ایک لمبا سفر طے کرتے ہوئے اِس منزل پر پہنچی ہے۔
کیا مودی کے عزائم کا جنازہ نکال کر ہی دم لے گی عام آدمی پارٹی؟
(ودیا سبرمنیم کے انگریزی مضمون سے استفادہ جو روزنامہ دی ہندو کے۲۱ ؍مارچ
۲۰۱۴ء کے شمارے میں شائع ہوا)۔
|