پاکستان کی 61 سالہ تاریخ میں
بحران در بحران کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی ہے، کبھی آئینی بحران، کبھی
سیاسی بحران، کبھی معاشی بحران، کبھی معاشرتی بحران، کبھی اخلاقی بحران اور
کبھی جمہوری بحران، ایک بحران سے دوسرے بحران تک ایک ختم نہ ہونے والا
سلسلہ ہے ۔
یہ ہماری عجیب بدقسمتی ہے کہ ایک بحران ختم نہیں ہوپاتا کہ دوسرا بحران سر
اٹھائے کھڑا ہوتا ہے، ابھی ایک بحران کے اثرات زائل نہیں ہوپاتے کہ دوسرا
بحران اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہوتا ہے
اور بحرانوں کے زہریلے سانپ اور خونخوار اژدہے پھنکارتے ہوئے قومی یکجہتی
اور ملکی سالمیت کو تباہ کرنے کیلئے موجود ہوتے ہیں، قیام پاکستان کے بعد
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی آنکھیں بند ہوتے ہی بحرانوں کا ایسا
سیلاب آیا کہ سات سال تک پاکستان سرزمین بے آئین رہی اور حکمران ملک کو
کوئی متفقہ آئین نہ دے سکے.
ملک میں ایک عبوری آئین نافذ کیا گیا جو 1956ء میں مستقل آئین قرار پایا،
مگر 1958ء میں ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اس
آئین کو بھی اٹھا کر پھینک دیا، ایوب خان کے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان
میں جاگیر داری نظام کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوگیا، فوجی
اسٹیبلشمنٹ، سول بیورو کریسی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے
قیام پاکستان کے بنیادی نظریے، آزادی کی تاریخی جدو جہد اور ملک و قوم کے
مستقبل کو اغوا کرلیا.
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک کے مقابلے میں ایک چھوٹی فوج رکھنے والے
ملک پاکستان کے فوجی سربراہوں نے اقتدار پر قبضے اور کنڑول کے حوالے سے
اپنے آپ کو دنیا کے منظم ترین لوگ ثابت کیا، فوجی سول بیورو کریسی اور
جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ نے بہت جلد ملک و قوم کو اپنے خونی
پنجوں میں دبوچ لیا، جس کی وجہ سے انہیں اپنے خلاف بغاوت اور سرکشی کا خطرہ
نہیں رہا اور یوں قیام پاکستان کے اُس بنیادی نظریے اور اساس کی نفی ہوگئی
جو بنائے پاکستان اور استحکام پاکستان کی بنیاد قرار دی گئی تھی، حکمرانوں
کی ہوس اقتدار نے نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے دنیا کی واحد ریاست کو اپنی
اصل شناخت سے ہی محروم کرکے پاکستان کو بحرانوں کی سر زمین بنا دیا اور آئے
دن جنم لینے والے نت نئے مسائل پاکستان کو مسائلستان بناتے گئے.
المیہ یہ ہوا کہ گزشتہ 61سال سے قومی مفاد سے قطع نظر ملک حکمرانوں کے ذاتی
مفادات اور خواہشات کی بھینٹ چڑھتا رہا، ہر آنے والے نے ملک و قوم کی بہتری
کے بجائے اپنے اقتدار کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی تگ دو کی، ملک غلام
محمد، میجر جنرل سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل آغا محمد یحییٰ خان،
ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف
تک ہماری قومی تاریخ ایسی شرمناک مثالوں سے بھری پڑی ہے، مسند اقتدار پر
فائز ہونے کے بعد، اپنے عرصہ اقتدار کو دوام دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ
طاقت کا حصول اور اس مقصد کیلئے اپنے مخالفین کے خلاف بے بہا طاقت کا
استعمال ہمارے حکمرانوں کا ہمیشہ ہی شیوہ رہا ہے .
لیکن حکمرانوں کے اس شوق اقتدار نے نہ صرف انکے اقتدار کے سنگھاسن کو ہلا
کر رکھ دیا بلکہ ملک کو دولخت اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا،
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’ اِس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ جمہوری اصولوں
سے رو گردانی، آئینی اور قانونی تقاضوں سے انحراف اور اتفاق رائے کے بغیر
قومی معاملات میں فرد واحد کی مرضی و منشاء کا عمل دخل ہے، جبکہ حقیقت یہ
ہے کہ فرد واحد خواہ کتنا ہی مخلص، محب وطن، صاحب بصیرت اور دانا و بینا ہی
کیوں نہ ہو، کبھی بھی آئین اور دستوری اداروں کا نعم البدل نہیں ہوسکتا .
ہماری 61سالہ تاریخ میں ہر طالع آزماء نے آئین کو ملبوس سمجھ کر اپنے قدو
قامت کے مطابق غیر آئینی اقدامات کے بل پر اپنے تئیں ملک و قوم کے مفاد میں
دور رس اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا، لیکن جہاں اُس کی ذات کا بنیادی پتھر سرکا،
اُس کا اپنا تعمیر کردہ بلند و بالا سیاسی محل اور تحفظ دینے والے وزراء و
مشیروں کی مضبوط دیواریں ریت کے گارے کی طرح زمین پر آگریں اور پلک جھپکتے
ہی تمام انقلابات کے دروازے، اصلاحات کی کھڑکیاں، آئینی ترامیم کے دریچے
اور ڈیمو کریسی کی محرابیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، درحقیقت یہی وہ دیرینہ
بیماری ہے جو پچھلے 61 سالوں سے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے ہر
حکمران کے رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے اور اس وقت بھی یہی دیرینہ بیماری
ہمارے حکمرانوں کے دلوں کے دروازے پر دستک دے رہی ہے .
انہیں یہ یقین دلارہی ہے کہ ’’پاکستان بچانے ‘‘کے نعرے کی وجہ سے ملک کی
تقدیر سنبھالنے کا فریضہ قدرت نے انہیں سونپ دیا ہے اور اب صاف ستھری
جمہوریت، اقتصادی انقلاب، ترقی و خوشحالی کے تمام راستے اور عوامی فلاح و
بہبود کے تمام چشمے صرف انہی کی ذات سے پھوٹیں گے، ملک و قوم کا مستقبل اور
قوم کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت اور بقاء اب اُن کے عہدہ صدارت سے مشروط ہے،
یہی وہ خام خیالی اور خود فریبی ہے‘‘ جس نے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو ایک
ایسے دھوکے اور سراب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے باہر نکلنے کے بعد ان کے
پاس سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہ ہوگا.
آج یہ حال ہے کہ مشکلات کی دلدل دن بدن گہری سے گہری اور مسائل کا دائرہ
مکڑی کے جالے کی طرح پھیلتا جارہا ہے، بہتری کیلئے اختیار کی گئی تمام
کوششیں اور حکمت عملیاں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور وہ جمہوری ماحول
جو 9 برس کے عرصے پر محیط طویل عرصہ کے انتظار کے بعد حاصل ہوا ایک بار پھر
مجبوریوں کے فیصلوں اور مصلحت کی آلودگی میں لتھڑا ہوا قومی جذبات اور
عوامی امنگوں کا خون کرتا دکھائی دے رہا ہے،آج مفاہمتی دعوؤں اور سب کو
ساتھ لے کر چلنے کے وعدوں پر ضد و انا کا عنصر غالب آچکا ہے اور حالات اس
حد تک پوائنٹ آف نو ریڑن پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کی اپنی بقاء اور سلامتی
بھی خطرے میں نظر آرہی ہے اور جمہوری بساط لپیٹنے کے وسوسے و اندیشے یقین
کے پیکر میں ڈھلتے دکھائی دے رہے ہیں، برطانوی اخبار ٹائمز کا کہنا ہے کہ
پاکستان میں فوج اس وقت آگے آتی ہے جب سیاستدان بے تحاشا مسائل پیدا کرکے
ملکی استحکام کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں
اگرچہ پرویز مشرف کے 9سالہ دور کے بعد پاکستانی فوج سیاسی معاملات میں
مداخلت ناپسند کرتی ہے اور در پردہ وہ مفاہمت کو ممکن بنانے کی کوشش بھی
کررہی ہے لیکن طاقت کے ذریعے وکلاء تحریک کو دبانے اور لانگ مارچ کو کچلنے
کی کوشش کے رد عمل میں برآمد ہونے منظر نامہ فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرتا
دکھائی رہا ہے، آج پاکستان کا مستقبل ایک بار پھر ناقابل بیان اندیشوں اور
خطروں کی زد میں ہے، پارلیمنٹ اپنی بالاستی اور آئین اپنی اصل شکل میں
بحالی کا منتظرہے اور پرویز مشرف کے 3نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات،
معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی سوالیہ
نشان بنی ہوئی ہے اور تمام آئینی و قانونی ضابطے و قاعدے صرف ایک فرد واحد
کے گرد گھوم رہے ہیں، وہی ذہنی پستی اور سیاسی پسماندگی کا دور ایک بار پھر
شروع ہوچکا ہے جو ہمیشہ حکمرانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں
کے مطابق وزیر اعظم نے گیند صدر کے کورٹ میں ڈال دی ہے جس کے بعد حالات کی
بہتری یا خرابی کی ذمہ داری صدر آصف علی زرداری کے رویے پر منحصر ہے، تیزی
سے بدلتی ہوئی صورتحال اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت میں تشکیل پانے والے
نئے منظر نامے میں قوم کی نظریں ایوان صدر کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہاں سے
کیا برآمد ہوتا ہے .
لیکن حالات و واقعات کا تقاضہ یہ کہہ رہا ہے فوری طور قوم میں پھیلی ہوئی
مایوسی کو ختم کیا جائے اور ان تمام وعدوں اور معاہدوں کو پورا کیا جائے جو
صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر اقتدار
میں آتے وقت قوم سے کئے تھے، نوبت بج چکی ہے اور وقت ریت کی طرح ہاتھ سے
پھسلتا جارہا ہے، فیصلہ کن لمحات کا آغاز ہوچکا ہے اور ہر گزرتی ہوئی ساعت
کے ساتھ بڑے اور بنیادی فیصلوں کی ناگزیریت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے.
ہم نہیں سمجھتے کہ وطن عزیز میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو موجودہ حکومت
کے خاتمے کا خواہشمند ہو، پوری قوم سمیت تمام سیاسی جماعتیں موجودہ سیاسی
اور جمہوری نظام کو چلتا دیکھنا چاہتی ہیں، لہٰذا حالات کا تقاضہ یہ کہہ
رہا ہے کہ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والے ذاتی مفادات کی خاطر
جمہوریت سے انتقام نہ لیں اور ضد، انا اور سیاسی مفادات کے دائرے سے باہر
نکلیں، کیونکہ وقت ان سے ملک و قوم کی بہتری کیلئے بالغ نظری اور
دانشمندانہ فیصلے کا متقاضی ہے۔ |