حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جو بہت نرم مزاج، عدل پسند
اور اپنی رعایا کے ساتھ بہت حسن سلوک کرتا تھا، بادشاہ کا دور حکومت بہت ہی
مثالی تھا، ملک میں ہر طرف امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ تھا، ایک دن
بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حال احوال
کا جائزہ لیا جائے، چنانچہ اُس نے بھیس بدلا اور رعایا کا جائزہ لینے نکل
گیا ۔
راستے میں ایک مقام پر اُسے ایک آدمی ملا جس کے پاس ایک گائے تھی، بادشاہ
نے اُس آدمی سے اُس کی خیریت دریافت کی اور گائے کے بارے میں معلوم کیا،
آدمی نے بادشاہ کو بتایا کہ رحم دل اور عادل بادشاہ کی وجہ سے ہم پر اللہ
کا بڑا کرم ہے، سب کچھ ٹھیک ہے اور یہ جو گائے آپ دیکھ رہے ہیں اس کی
خصوصیت یہ ہے کہ یہ 30 گائیں کے برابر دودھ دیتی ہے ۔
بادشاہ جو کہ ایک عام آدمی کے بھیس میں تھا یہ سن کر بہت حیران ہوا، اور اس
نے دل میں سوچا کہ اگر یہ گائے مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو، کیوں نہ میں
اِس آدمی سے یہ گائے چھین لوں، چنانچہ بادشاہ نے اُس آدمی سے گائے ہتھیانے
کا ارادہ کیا اور آگے روانہ ہوگیا، کچھ عرصے کے بعد بادشاہ نے ایک بار پھر
بھیس بدلا اور گھومتا ہوا اُسی جگہ پر پہنچا جہاں اُس کی ملاقات پچھلی
مرتبہ گائے کے مالک سے ہوئی تھی، اُس نے دیکھا کہ گائے کا مالک کچھ پریشان
ہے، بادشاہ نے گائے کے مالک سے اُس کا حال احوال دریافت کیا اور گائے کے
متعلق سوال کیا، گائے کے مالک نے ایک ٹھندی آہ بھری اور افسردہ لہجے میں
کہا، اے اجنبی میں تجھے کیا بتاؤں، بادشاہ جو کہ عام آدمی کے بھیس میں تھا
اُس نے ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے گائے کے مالک سے کہا آخر میں بھی تو
سنو ایسا کیا معاملہ ہوا۔
گائے کے مالک نے کہا بھائی میری یہ جو گائے آپ دیکھ رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے
تک یہ 30گائیں کے برابر دودھ دیتی تھی لیکن اب یہ بمشکل ایک گائے کے برابر
دودھ دیتی ہے، بادشاہ نے اُس سے کہا کیا تم نے اپنی گائے کو کسی اور چراگاہ
میں چرانا شروع کردیا ہے، آدمی نے جواب دیا نہیں بلکہ میں تو اپنی گائے کو
اُسی جگہ چراتا ہوں جہاں پہلے چراتا تھا، بادشاہ نے پوچھا پھر اس کے دودھ
کی کمی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، گائے کے مالک نے جواب دیا ہمدرد اجنبی مجھے
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت کی نیت میں فتور آگیا ہے اور اُس نے
اپنی رعایا پر ظلم کرنے کا ارداہ کرلیا ہے، بادشاہ نے کہا، اے شخص تو یہ
کیا کہہ رہا ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا بادشاہ کتنا عادل اور نیک
اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے والا ہے ۔
اُسے تیری کیا خبر اور اُس نے تیرے ساتھ کون سا ظلم کردیا ہے؟ گائے کے مالک
نے کہا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میری گائے کے دودھ کی کمی اصل وجہ
بادشاہ کی نیت میں فتور اور اُس کے ظلم کرنے کا ارادہ ہے، بادشاہ نے اُس
آدمی سے پوچھا تو اتنا یقین سے کیسے کہہ سکتا ہے، گائے کے مالک نے جواب
دیا، اے اجنبی بزرگ کہتے ہیں جب حکمران اپنی رعایا پر ظلم و ستم کا ارادہ
کرتے ہیں تو مال و اسباب اور چیزوں میں خیرو برکت اٹھالی جاتی ہے ۔
اس لئے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری گائے کے دودھ کی کمی کی
اصل وجہ بادشاہ کے رویئے کی تبدیلی ہے، بادشاہ نے گائے کے مالک کی دلیل سن
کر محسوس کیا کہ واقعی گائے کا مالک سچ کہہ رہا ہے اُس نے دل میں سوچا کہ
ابھی تو میں صرف اِس آدمی سے اُس کی گائے چھیننے کا ارادہ کیا تھا، گائے
چھینی نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری بد نیتی کے سبب گائے کے دودھ کی
برکت چھین لی اگر خدانخواستہ میں اِس آدمی سے گائے چھیننے کا ظلم کر بیٹھتا
تو نہ جانے کیا حال ہوتا۔
وہ خاموشی سے محل واپس لوٹا اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر رو رو کر
سچے دل سے معافی مانگی ، توبہ کی اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی بھی اپنی رعایا
پر ظلم و ستم کرنے اور اُن سے اُن کا حق چھیننے کا خیال بھی دل میں نہیں
لائے گا، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ادھر بادشاہ نے سچے دل سے توبہ کی ادھر
اللہ نے گائے کے دودھ میں پہلے کی طرح خیرو برکت پیدا فرما دی۔
یہ بات درست ہے کہ حضرت مجاہد کا بیان کردہ مندرجہ بالا واقعہ ایک حکایت
ایک کہانی ہے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی اچھائیوں اور
نیکیوں کے ثمرات پورے ملک و قوم کی معیشت پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُن کی
بداعمالیوں اور ظلم و زیادتی کا تاوان پوری قوم ادا کرتی ہے، اِس بات کی
تائید حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کے بیان کئے ہوئے اِس واقعہ سے
ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن العزیز رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ
ہوئے تو پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود چرواہے کہنے لگے کون نیک شخص لوگوں کا
خلیفہ بنا ہے، اُن سے پوچھا گیا کہ تمہیں اِس بات کا علم کیسے ہوا؟، انہوں
نے کہا جب کوئی نیک شخص خلیفہ بنتا ہے تو شیر اور بھیڑیئے بکریوں کا شکار
کرنے سے رک جاتے ہیں، حضرت موسیٰ ابن اعینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ہم حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ خلافت میں’’ کرمان‘‘ کے علاقے میں
بکریاں چراتے تھے اور جنگلی جانور اور بھیڑیے ایک ہی جگہ میں چرتے تھے، ایک
رات اچانک ایک بھیڑیا ایک بکری پر حملہ آور ہوا تو ہم نے کہا ضرور کسی نیک
آدمی کا انتقال ہوا ہے ۔
حضرت حماد کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت موسیٰ ابن اعینی یا کسی اور نے بیان کیا
کہ انہوں نے حساب لگایا تو اُسی رات حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ
کا انتقال ہوا تھا، حضرت قتادہ رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا آپ آسمان میں ہیں اور ہم زمین میں
ہیں آپ کی رضا اور ناراضگی کی علامت کیا ہے؟، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا،
میرا تمہارے اوپر نیک لوگوں کو بادشاہ بنانا میرے راضی ہونے کی علامت ہے
اور برے لوگوں کو بادشاہ بنانا میرے ناراض ہونے کی علامت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا ’’جب تم میں سے اچھے لوگ تمہارے امیر ہوں تمہارے مال دار سخی
ہونگے اور تمہارے معاملات آپس میں مشورے سے طے ہوتے ہوں تو اُس وقت زمین کے
اوپر کا حصہ تمہارے لیے اُس کے اندورنی حصے سے بہتر ہے اور جب تم میں سے
برے لوگ تمہارے امیر ہوں تو تمہارے مال دار بخیل ہونگے اور تمہارے معاملات
عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو اُس وقت زمین کا اندورنی حصہ تمہارے لیے اوپر کے
حصے سے بہتر ہے‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس
مہاجرین کے دس افراد بیٹھے ہوئے تھے میں اُن میں سے دسواں آدمی تھا ،۔
آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے چہرہ انور کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوئے
اور فرمایا ’’جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اور لوگ اُس کا کھلم کھلا
ارتکاب کرنے لگیں تو وہ قوم مختلف امراض و تکالیف اور طاعون میں مبتلا کردی
جاتی ہے جو امراض اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں موجود نہ تھے اور جو قوم
ناپ تول میں کمی کرتی ہے وہ قحط سالی، مشقت و شدت اور بادشاہ (حاکم وقت) کے
ظلم میں مبتلا کردی جاتی ہے اور جو قوم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتی وہ
باران رحمت سے محروم کردی جاتی ہے ۔
اگر جانور نہ ہوتے تو اُن پر بارش ہی نہ برستی اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے
تو اللہ تعالیٰ اُن پر اُن کے غیر سے دشمن مسلط کردیتے ہیں، جو اُن کے مال
و متاع پر قابض ہوجاتے ہیں، اور جب لوگوں کے حکمران اللہ تعالیٰ کے نازل
کردہ احکام و قوانین کے مطابق عمل نہیں کرتے اور قرآن مجید کے احکامات کو
اہمیت نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ اُن کو آپس کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں‘‘
ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ جس قوم میں قتل و غارت عام ہوجاتی ہے کہ لوگ
ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ اُن پر اُن کے دشمن مسلط کردیتے
ہیں۔۔۔۔ اور جو قوم امربالمعروف (کا فریضہ) ترک کردیتی ہے اس کے اعمال کو
بلندی نہیں ملتی اور ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی‘‘
واقعی حق فرمایا رسول برحق نے مندرجہ بالاحالات کے تناظر میں آج ہماری
دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں، ہمارے حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں اور
حکمرانوں کے ظلم و ستم اور جابرانہ تسلط سے ہمیں کیسے نجات مل سکتی ہے، یہ
درست ہے کہ ہماری موجودہ پستی، سیاسی تنزلی، معاشی ومعاشرتی ابتری اور دنیا
میں ذلت و رسوائی کا سب سے اہم اور بنیادی سبب ہمارے دینی و ملی فکر سے
عاری ناعاقبت اندیش حکمران ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم کسی طور بھی اِن
حالات سے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے، بلکہ درحقیقت دیکھا جائے
تو (جیسے عوام ویسے حکمران کی مصداق) حکمرانوں سے زیادہ ہمیں اپنا قصور نظر
آتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نیک اور اچھے اور ملک و قوم سے محبت رکھنے والے
لوگوں کو چھوڑ کر چوروں، لیٹروں، ڈاکوؤں اور ظالم و جابروں کو اپنا حکمران
منتخب کرتے ہیں، بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو آزماتے ہیں اور ایک ہی سوراخ
سے ڈسے جاتے ہیں، بے راہ روی، بے حیائی اور عریانی و فحاشی کو فیشن کا روپ
دیتے ہیں، جھوٹ، فریب مکر و دجل کا راستہ اپناتے ہیں، ناپ تول میں ڈنڈی
مارتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی سے صرف نظر کرتے ہیں، ناداروں، مسکینوں اور
مظلوموں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔
احکام خداوندی کی صریحاً کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں، اور سزا و جزا کے
ڈرو خوف سے بے نیاز کمال ڈھٹائی سے بار با ر اللہ اور اس کے رسول سے عہد
شکنی کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں اُمت مسلمہ بری طرح پٹ رہی
ہے، ذلت و رسوائی مقدر ہمارا بنی ہوئی ہے، اُمت کے بکھرے ہوئے ریوڑ کو ہر
لمحہ اور ہر ہر قدم پر خونخوار بھیڑیوں کا سامنا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان اغیار کی سازشوں کا شکار ہیں، اپنے شاندار ماضی سے
اکتاہٹ، ناامیدی، شکست خوردگی، اور احساس کمتری جیسے مہلک امراض نے اُمت کو
پست ہمت، کاہل، عیش پرست اور علم و عمل کی دنیا میں ناکارہ بنا دیا ہے،
ہمارے حکمران محض لیلیٰ اقتدار کے مجنوں بنے یہود و نصاریٰ کی غلامی کے جال
میں جکڑے ہوئے ہیں، اور اُمت مسلمہ اور بالخصوص پوری پاکستانی قوم کا المیہ
یہ ہے کہ ہم اسراف کا شکار ہیں، مسلمانوں کے دشمنوں یہود نصاریٰ سے ڈرتے
ہیں اُن کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ۔
اللہ پر توکل اور خود پر بھروسہ اختیار کرنے کے بجائے غیروں سے ہمدردی اور
مدد کی بھیک مانگتے ہیں، اللہ کی مخلوق پر رحم و درگزر نہیں کرتے، کمزور و
بے بس بھی ہمارے قہر و غضب اور ظلم و ستم سے محفوظ نہیں، جھوٹ، وعدہ خلافی،
بداخلاقی، بد زبانی ہمارا روز مرہ کا معمول بن گئی ہے، خیرات و صدقات دینا
تو درکنار کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، اپنے گناہوں پر اللہ سے توبہ
استغفار طلب کر کے ربّ کی بارگاہ میں سجدہ ریز نہیں ہوتے، افسوس کہ ہم اپنی
زندگی میں اِن تمام حقائق سے واقف لیکن یکسر غافل لوگ ہیں، ہمارے کان،
ہماری آنکھیں، ہمارے ہاتھ، ہمارے پاؤں اور ہمارے دل و دماغ سب ہماری نفسانی
خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔
ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی تباہی کا گڑھا کھود رہے ہیں، اور اپنی موجودہ بد
بختی کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں،قرآن کہتا ہے ’’اور کاش (ان) ظالموں کو تم
اُس وقت دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونگے، جو کمزور سمجھے
جاتے تھے وہ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرو مومن
ہوجاتے، بڑے لوگ کمزوروں سے کہیں گے کہ بھلا ہم نے تم کو ہدایت سے جب وہ
تمہارے پاس آچکی تھی روکا تھا، نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے‘‘(السبا 31~34)
میرے دوستوں ذرا اُس دن کو یاد کرو جب حق کا منادی پکار پکار کر کہے گا
کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے تھے ہم بہت سا مال و اولاد رکھتے ہیں ہم کو عذاب
نہیں ہوگا، کہاں ہیں۔
وہ متکبر جنہوں نے اللہ کی عظمت و کبریائی کے سامنے خود کو بڑا سمجھنے کی
جسارت کی، کہاں ہیں وہ مجرم جنھوں نے بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے،
جنھوں نے سازش کر کے بھائی بھائی کو لڑا دیا، جنھوں نے ایک خدا، ایک رسول،
ایک کتاب، کو ماننے والوں سے ایک دوسرے کے گلے کٹوائے، جنھوں نے بے گناہ
معصوموں کی جان لی، کہاں ہیں وہ بے حس، ننگ دین و ملت جنھوں نے روئے زمین
کو نفرت اور آتش و آہن سے بھر دیا، کہاں ہیں وہ جنھوں نے ہمارے قول صداقت
کو جھوٹ اور افتراء قرار دیا، کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ
ہمارے سامنے پیش نہیں ہونگے، یقیناً ضرور ہوں گے اور آج انہیں اپنے کرتوتوں
کی لازمی سزا ملے گی۔
آج ہمارے پیارے وطن کو انہی مجرموں، خائنوں، بدکرداروں، ظالموں، جابروں اور
قاتلوں کا سامنا ہے، دشمن ہماری سرحدوں پر ہماری تباہی و بربادی کا سامان
لئے تیار کھڑا ہے اور حکمران اُس کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی ہی وحدت ملی
اور قوت و طاقت کا شیرازہ بکھیرنے میں مصروف ہیں، قوم گزشتہ 62برس سے اِن
کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوئی ہے، بھوک و پیاس، غربت و بے روزگاری، ظلم و
زیادتی اور استحصالی نظام نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
بے گناہ اور معصوم ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں، اور ظالم و
جابر وں کو ظلم و ستم کرنے کیلئے کھلی ڈھیل ملی ہوئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا
یہ مجرم اللہ کی گرفت سے بچ پائیں، بھاگ پائیں گے، بے شک وہ رسی دراز کرتا
ہے تاکہ ہر ظالم اپنے ظلم کا پیمانہ خوب اچھی طرح بھرلے، اپنے نامہ اعمال
کی سیاہی مزید بڑھالے اور اپنی ہوس اقتدار کو پورا کرنے کیلئے جس کو چاہے
روند ڈالے، جس کو چاہے مٹا ڈالے، مہلت کا ملنے والا یہ وقفہ انسان کو خود
فریبی میں مبتلا رکھتا ہے۔
وہ سمجھتا ہے ابھی اُس کے پاس بہت وقت ہے اور اُسے کوئی روکنے والا نہیں،
لیکن خدائے لم یزل کی طرف سے ملی ہوئی مہلت بالآخر ختم ہو ہی جاتی ہے اور
بغاوت ونافرمانی کی دراز رسی گلے کا پھندہ بن کر ظلم و جبر اور گناہوں کا
سلسلہ منقطع کر کے بڑے بڑے ناموروں کو بے نام و نشاں بنا دیتی ہے، ہمیشہ
اقتدار کی کرسی پر متمکن رہنے کے خواہشمندوں اور اُن کے قتدار کو دوام
بخشنے والوں غور کرو، اس سے قبل کہ وہ وقت آئے جب مہلت ختم ہوجائے اور توبہ
کے تمام دروازے بند ہوجائیں، رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے
کیلئے سجدہ ریز ہوجاؤ ۔
مصطفیٰ کریم کے صدقے میں اپنی تمام بداعمالیوں اور کوتاہیوں سے معافی کے
طلب گار بنو،بے شک وہی معاف کرنے والا اور ذلت کے اندھیروں سے نکال کر عزت
و عظمت کے اجالوں کا راستہ دکھانے والا ہے ۔ |