وہ شیفتہ کہ دھوم تھی حضرت کے
زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر میں ملے
یہ شیفتہ اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں یا میری جانب اشارہ ہے --ٹھیک ہے کہ
میں اس رات ٹبی تھانہ شاہی محلہ میں موجود تھا ----- لیکن ---لیکن --لیکن -
ٹبی محلہ لاہور کا وہی محلہ جس پر ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرہ آفاق نطم
لکھی تھی
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ذرا ملک کے رہبروں کو بلاؤ
یہ کوچے -یہ گلیاں -یہ نظارے دکھاؤ
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
ثناء خوان تقدیس مشرق کو بلاؤ
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اس محلے کی بد نام خواتین بھی میرے ہمراہ تھیں
لیکن بات ایسی نہیں --
بہتر ہے کہ میں سارے واقعات بتاؤں کہ میری پارسائی کو جو دھبہ شیفتہ لگا
رہے ہیں وہ دھل جائے-
سمجھ نہیں آتا کہ اسے کس انداز میں رقم کروں -- سنجیدہ ہوتا ہوں تو اس
دوران میں گزرے مکالمے اس تکلیف سے نجات دلانے کی جد و جہد کرتے ہیں اور
کبھی مزاحیہ انداز میں لینے کی سعی کرتا ہوں تو افسوس کی پرچھائیاں اپنی
طرف توجہ مبذول کراتی ہیں-
خیر جو بھی ہو میں لکھ رہا ہوں کیوں کہ دور سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں تم
لکھ دو --لکھ ڈالو کہ دل کا بوجھ ہلکا ہو-
اتوار 21جون 1970--- امروز -- مشرق لاہور یا جنگ کراچی دیکھئے - اس میں خبر
چھپی ہے-
واقعہ یہ تھا کہ میں اس زمانے میں لاہور میں سیکنڈ ایر انجینرنگ کا طالب
علم تھا اور ہوسٹل میں رہتا تھا - امتحانات ہونے والے تھے اس لئے ہم کچھ
دوستوں نے پڑھنے کا ایسا نظام الاوقات بنایا کہ رات دس بجے سو جاؤ اور دو
بجے اٹھ کر تین چار گھنتے آرام و سکون سے پڑ ھ لو -
یہ غالبآ ہفتےکی رات تھی اس روز بھی رات دو بجے اٹھے اور اپنے آپ کو مطالعہ
کے لئے تیار کر نے لگے - منور نے کہا یار اب بھی نیند آرہی ہے - یہی حال
میرا بھی تھا اور احمد خان کا بھی -آخر یہ فیصلہ کیا کہ ایک راونڈ
یونیورسٹی کا لگا لیتے ہیں --تازہ ہوا میں سیر کر نے سے تازہ ہو جائیں گے
اور فریش دماغ کے ساتھ صبح تک پڑھتے رہیں گے نہ شور نہ شرابا --ٹی وی کی
آوازیں بھی نہیں اور ریڈیو کے گانوں سے بھی نجات
سو یہ سوچ کر ہم باہر نکلے
کچھ دوسرے طالب علم جو جاگ رہے تھے انہوں نے کہا کہ رات دس بجے ہنگامہ ہوا
تھا اور طالب علم امتحانات کی تاریخ آگے بڑھانے کا مطالبہ کر رہے تھے
-انہوں نے وائس چانسلر کے گھر پر بھی حملہ کیا تھا اور خشت باری کی تھی -
پولیس آگئی تھی-
خیر ہم تینوں باہر نکلے اور مین کیمپس کی طرف سے ہوکر واپس آہی رہے تھے کہ
چند پولیس والے ملے اور کہا کہ کہاں سے آرہے ہو - ابھی ہم کچھ کہنے والے ہی
تھے کہ پیچھے سے کسی اور پولیس والے نے آواز نکالی کرم علی کیا سوال جواب
کر رہا ہے انہیں یہیں روک دے -- اس وقت رات کے ڈھائی بجے تھے - وہاں کچھ
اور طالب علم بھی کھڑے تھے ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا -
کھڑے کھڑے صبح ہوگئی لیکن انہوں نے ہمیں نہیں چھوڑا--- اتنے میں ایک پولیس
ٹرک جس میں چھوٹے چھوٹے روشندان لگے ہوتے ہیں طاہر ہوا اور اس کے ساتھ ہی
ایک جیپ بھی پہنچی - جیپ میں پولیس کے کوئی اعلیٰ افسر تھے --
- جن پولیس والوں نے ہمیں روکا تھا ان میں سے ایک نے کہا کہ “ یہ بھاگ رہے
تھے ہم نے انہیں بھاگتے ہوئے پکڑا ہے “
میں نے ایک دم کہا ‘نہیں ہم بھاگ نہیں رہے تھے - ہم ڈھائی بجے جا رہے تھے
انہوں نے ہمیں کھڑا کر دیا ہے اور ابھی تک روکے ہوئے ہیں “
ایسے لگا پولیس افسر نے میری بات نہیں سنی -چنانچہ میں نے دوبارہ کہنے کی
کوشش کی “جناب ہم بھاگ نہیں رہے تھے ----“ اس پولیس والے نے کہا “کیا تو نے
ایک ہی بات پکڑ لی ہے --چل بیٹھ “
ہم اس چھوٹے چھوٹے روشندان والے ٹرک میں سوار ہو گئے - فجر کی ازان ہو رہی
تھی - جی ٹی روڈ پر آئے - سبزی والے جلو سے سبزی لیکر شہر کی طرف آرہے تھے
- ہمیں راستوں کا پتہ نہیں چلا اور ایک گندے سے تھانے میں لاکر ایک کمرے
میں بند کر دیا-
کمرہ کیا تھا سمجھیں کہ باتھ روم یا بیت الخلا ء تھا جس میں بند کیا گیا
تھا - بیت الخلاء اس لحاظ سے کہ اس کمرے میں ہی ایک طرف ٹاٹ کا پردہ ڈال کر
بیت الخلاء بنادیا گیا تھا - دو تین قیدی پہلے سے بند تھے - ایک ہمارے
سامنے ہی بیت الخلاء کے پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا تھا - اس بیت الخلاء
کا گند پیشاب بہہ کر پورے کمرے میں پھیلا ہوا تھا - ہم اسی گند کے ساتھ
بیٹھ گئے - - ہم سب حواس باختہ تھے -عمریں سب کی انیس اور بیس کے درمیان
تھیں-
قیدیوں نے ہمیں تسلی دینا شروع کی ایک نے کہا یہ تالا توڑنا کیا مشکل ہے
لیکن ہمارا آنا جانا لگا رہتا ہے - انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ یہ ٹبی تھانہ
ہے -
رات کو تھانے والوں نے کہا کہ تمہیں ہم اچھا کھانا دیتے ہیں - اور داتا
صاحب سے ایک دیگ منگوا کر ہمیں کھانا دیا - دوسرے قیدیوں نے کہا َ ،،یہ آپ
کی وجہ سے ہمیں ملا ورنہ ہم تو دال پر ہی گزارہ کرتے تھے ،،
ٹبی تھانہ میں پہلی رات کے قیام کے دوران طرح طرح کے واقعات دیکھے - رات کو
گیارہ بجے ایک پولیس والا آیا اور کہا “باؤ جی اب تم سو جاؤ ہمارا کام شروع
ہوتا ہے - یہ صرف کہنے کی حد تک تھا ورنہ اس پر کوئی زور نہیں دیا گیا اور
ہم دیکھتے رہے --
اس بدنام بازار کی خواتین کو ان کے طلب گاروں کے ہمراہ پکڑ کر لایا گیا اور
طلب گاروں سے جو سلوک کیا گیا اس کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اب وہ کبھی
یہاں کا رک نہیں کریں گے -ایک پولیس والے سے کہا تو اس نے قہقہہ لگایا اور
کہا “ یہ اشتہا سب کو دوبارہ لائیگی --
وہاں کے واقعات ایسے ہیں کہ میں یہاں بیان نہیں کر سکتا بس ان طلب گار
حضرات کے کچھ مکالمے پیش کر رہا ہوں
ایک صا حب کراچی کے پکڑے گئے تھے وہ کہہ رہے تھے “میں تو داتا صاحب کے
مخبرے کو جارہا تھا - خسم سے راستے سے واخف نہیں تھا - اس لئے ادھر نکل آیا
- اور تم نے دھر لیا --میں جھوٹ بولوں تو خبر میں کیڑے پڑیں “ میں چونک پڑا
یہ صاحب حیدر آباد دکن کی بولی بول رہے تھے یہاں کیسے-
پولیس والوں نے کیا مکالمات بولے وہ میری سینسر کی نظر
ایک دوسرے خان صاحب پتلے دبلے سے انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا “صاحب
ہم نے سمجھا یہ عورت گنڈیری منگاتا ہے -اس سے پوچھنے گیا - - بس تم لوگوں
نے پکڑ لیا -----آگے فقرے سینسر کی زد میں آگئے
ایک دھوتی پہنے صا حب کی دھوتی گیلی تھی -جانے کیا لگا تھا --اس کے مکالمات
سیسنر بورڈ اف دس ویب پیج کے سبب حذف
اور اس محلے کی خواتین ان سب سے لاپرواہ پھر رہی تھیں جیسے کوئی بات ہی نہ
ہو - ایک ایک طرف بیٹھی سگریٹ کا کش لگاکر دھوئیں کے مرغولے ہوا میں اڑا
رہی تھی جب کہ دوسری نہ جانے کونسا مشروب پی رہی تھی -ان کے طلب گاروں پر
کیا بیت رہی ہے اس سے بالکل لاتعلق -ایسے لگتا تھا یہ ان کا روزمرہ کا
تماشہ تھا-
خیر تین دن بعد حکام بالا کو ہم پر رحم آیا ایا اور انہوں نے ہمیں پلازہ
سینیما کے سامنے پولیس لائنز کے تھانے میں منتقل کیا - پلازہ میں ان دنوں
غالبآ چنگیز خان فلم لگی ہوئی تھی - اندر گئے تو پولیس والوں نے ڈرایا یہاں
کا ایس ایچ او ہلاکو خان ہے تم سب کو ٹھیک کر دے گا - جب لاک اپ میں بند
کرنے لگے ایک پولیس والے نے کہا “ان کی عینکیں اتار لیں --خطرناک ثابت ہو
سکتی ہیں “ لیکن دوسرے سینیئر سپاہی نے کہا “چھڈ منڈیاں نوں نہ ڈرا “
یہ لاک اپ وہ تھا جہاں اس سے ایک دوماہ قبل مولانا کوثر نیازی مرحوم سابق
وزیر مذھبی امور پاکستان پیپلز پارٹی کو رکھا گیا تھا -یہاں پنکھا بھی تھا
اور اٹیچ باتھ بھی -
لاک اپ میں رہنے کے دوران کوئی پریشانی نہیں ہوئی --پولیس والوں کا رویہ
بہت ہی اچھا تھا یہاں پولیس لائنز کے تھانے میں بھی اور ٹبی تھانے میں بھی
کبھی کبھی ایک ہول اٹھتی تھی کہ ہمارا فیوچر کیا ہو گا - قسمت ہمارے ساتھ
کیا کھیل کھیلے گی -کہیں ہم مستقل تو بند نہیں کر دئے جائیں گے -
یہ جنرل یحیٰ کے مارشل لاء کے ایام تھے - پورے ایک ہفتے بعد پتہ چلا کہ
ہمیں ایک کرنل صاحب کے سامنے پیش کیا جائے گا -
ان کے سامنے پیش ہوئے -انہوں نے استاد کے ادب کرنے پر ایک فصیح بیان دیا
اور کہا کہ تم لوگوں کو فیشن کا بہت شوق ہے -اور ہمارے بال کٹوانے کو کہا -
اسی وقت ایک نائی کہیں سے لایا گیا اور سب کے بال چھوٹے چھوٹے کر دئے گئے -
ایک معافی نامہ پر دستخط کرائے گئے کہ آئندہ سے ایسی کوئی حرکت نہیں کریں
گے-
مجھے دو باتوں کا افسوس ضرور ہوتا ہے ایک یہ کہ ہم نے کچھ نہیں کیا تھا اور
ہم سے معافی نامہ پر دستخط کرائے گئے دوسرا یہ کہ جب ہمیں پولیس کے چھوٹے
چھوٹے روشندان والے ٹرک پر بٹھایا جارہا تھا تو میں نے کہا تھا کہ “ہم بھاگ
نہیں رہے تھے “ میرا خیال تھا کہ اس پر پولیس افسر تحقیقات کریں گے
لیکن ایسا نہیں ہوا- |