اس ڈائن سے تو ہماری بلی اچھی

ہمارے فلیٹ کے داخلی دروازے کا ڈیزائین کچھ ایسا ہے کہ بلیاں آرام سے اندر آ سکتی ہیں۔ کسی طرح یہ بات ایک بھوری بلی کو بھی معلوم ہو گئی۔ وہ آتی اور گیلری میں موجود اسٹور کی کھڑکی سے اندر چلی جاتی۔ جب کئی ہفتوں کے بعد کسی کام سے ہم اسٹور میں گئے تو جنگلی کبوتروں کے پروں کے ڈھیراور خون کے دھبے دیکھ کر چونک گئے۔ یعنی محترمہ نے ہمارے اسٹور کو بیک وقت بیڈ روم اور ڈائننگ روم کا درجہ دے رکھا تھا۔اب اسے ہماری کاہلی کہیے یا کام کی مصروفیت کہ بیگم کے کئی بار کہنے پر بھی ہم دروازے پر باریک جالی نہ لگوا سکے۔ دن گزرتے رہے اور بیگم ہمیں اور ہم موصوفہ بلی کوکھری کھری سنانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ آخر ایک چھٹی کے دن جب بیگم نے پیچھا ہی لے لیا تو ہم نے بھی کمر کس لی اور جالی لگانے سے پہلے اسٹور کی صفائی کی ٹھانی۔ آستینیں چڑھائے ابھی ہم نے اسٹور کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ معصوم سی ’میاؤں میاؤں‘کی آوازیں کانوں میں پڑیں۔ فوراً سے پیشتر ہم سمجھ گئے کہ بلی موصوفہ نے بیڈاور ڈائننگ کے ساتھ اب ہمارے اسٹور کو میٹرنٹی ہوم کا درجہ بھی دے دیا ہے! ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ کیا کریں؟ یکایک اندر کا بچہ جاگ اٹھا اور دل میں اشتیاق اٹھا کہ بلی تو ہو گی نہیں ،بچوں کا تماشا ہی دیکھ لیں۔ آواز سے جگہ کا تعین کر کے پرانی کرسی جو ہٹائی تو انوکھا منظر سامنے تھا۔ بچوں کے ساتھ زچہ بھی موجود تھیں اور فیڈ کروا رہی تھیں۔وہ جو ذرا سی آہٹ پر بھاگ جاتی تھی، ہمیں دیکھ کر چوکنی تو ہوئی مگر اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں، بلکہ ننھے بچوں کو سینے سے چمٹائےعجب انداز میں ہمیں گھور نے لگی۔ ان نگاہوں میں کیا نہیں تھا، خشونت، غصہ، دھمکی!!.... جیسے کہہ رہی ہو، کہ ایک قدم بھی بڑھایا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ ہمارے منہ سے ہش نکلا، تو اس نے فوراً اپنا پنجہ اٹھا لیا،بے اختیار ہمارا دل کانپ گیا۔ ہم پچھلے قدموں باہر نکل آئے۔ بیگم کی استفسارانہ نگاہوں پر انہیں بتایا تو انہوں نے بے اختیار سر پکڑ لیا۔ پھر کہنے لگیں۔ ” اب اسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ ماں بن گئی ہے، اسے نکالنا مناسب نہیں، اس کے بچے خطرے میں پڑ جائیں گے، آپ کو پتا ہے کہ بلا بلونگڑوں کی تلاش میں ہوتا ہے، وہ کھا جائے گاانہیں!؟“ انہوں نے انکشاف کے سے انداز میں کہا۔ پھر اگلے کئی دن عجیب مناظر دیکھنے کو ملے۔ وہ بلی صاحبہ جن سے ہماری بیگم سب سے زیادہ خار کھاتی تھیں، اب اسے باقاعدگی سے دودھ دیا جا رہا تھا کہ بلی ان کی نظر میں والدہ محترمہ کے درجے پر جو فائز ہو گئی تھی۔

آئیے اب ایک دوسرا منظر نامہ دیکھتے ہیں....خونی منظر نامہ.... ایک دل دہلا دینے والا واقعہ،جس کی وجہ سے پچھلے ہفتے سے اب تک دل و دماغ نارمل نہیں ہوسکے ہیں!

پچھلے ہفتے تمام اخبارات میں یہ لرزہ خیز خبر چھپی کہ لاہورمیں ایک ماں نے نہایت سفاکی کے ساتھ اپنے دو پھول جیسے بچوں2 سال کی بیٹی مناہل کو پانی میں ڈبو کر اور8 ماہ کے یوسف کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا ہے۔یہ ایسا بھیانک جرم ہے کہ لکھنا بھی آسان نہیں ہے۔ جب لکھتے ہوئے تصور میں ایک خاکہ سا بنتا ہے کہ ایک ’ماں‘ جی ہاں ایک ماں جو دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ ہے، اپنی بچی کو پانی میں ڈبو رہی ہے توہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور جب ماں اپنے 8 ماہ کے بیٹے کا گلا گھونٹ رہی ہو تو دنیا کی ہر شے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب ہماری چھ ماہ کی پیاری بیٹی خنساءکے گلے میں دلیا اٹک گیا تھا تو ہم میاں بیوی کیسا تڑپ اٹھے تھے، لیکن بسمہ کیسی ماںتھی....ماں تھی بھی کہ نہیں!

اور عذرِ گناہ دیکھیے کہ قاتلہ کے مطابق بھوک کی وجہ سے اس نے یہ دنیا کا سب سے بڑا جرم کیاہے! .... کیا ا س بات پر یقین کیا جا سکتا ہے؟.... تھر میں کتنے بچے بھوک سے مر گئے.... وہاں ہندو والدین اپنے جگر گوشوں کو سینے سے لگائے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن یہ کسی نے نہیں کیا کہ اپنے ہاتھوں سے انہیں مار دیں ۔ ارے ایسی حالت میں توبھیک مانگنے کی ربّ بھی اجازت دیتا ہے.... وہ بھیک مانگتی، برتن مانجھ لیتی،خود نہیں پال سکتی تھی تو ایدھی ہوم دے آتی ، بلکہ ایک ماں کو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود کو بھی بیچنا پڑے تو کوئی جرم نہیں....مگر یہ سب ڈھکوسلا تھا اپنی سفاکی پر پردہ ڈالنے کا.... چینلز نے خوب اچھی طرح اس کا بھانڈا پھوڑ ا.... جوہر ٹاؤن کا علاقہ، ایک کروڑ روپے مالیت کی کوٹھی،جس کا کرایہ پچاس ہزار روپے ماہوار آسکتا تھا، پورچ میں کھڑی کئی لاکھ کی کار، قیمتی کپڑوں سے بھری وارڈوب اور ملزمہ کے بیان کے بالکل برعکس پڑوسیوں کے بیانات، پھر یہ غربت اور بھوک کا روناچہ معنی دارد؟دو دن بعد خبر آئی کہ اصل وجہ میاں بیوی کا جھگڑا تھا.... ملزمہ بسمہ کا ناکارہ شوہر کوئی کام نہیں کرتا تھا، سارا خرچ سسرال والے اٹھاتے تھے، جب انہوں نے خرچ دینا بند کر دیا تو اس نے اس کا بدلہ اپنے ہی بچوں کو مار کر لے لیا!ایک دن کے بعد پھر ملزمہ نے بیان بدل دیا کہ دراصل اس کا شوہر اسے غیر اخلاقی حرکات پر مجبور کرتا تھا۔انتہائی عجیب عذر، یعنی اگرکسی عورت میں اتنی غیرت ہے تووہ شوہر پر دو حرف بھیج کر چلی جائے،مارنا ہی ہے تو اس بے غیرت شوہر کو مارے یا خود کوہی ختم کر لے مگر معصوم بچوں کا کیا قصور ہوا؟

ہم خواتین کا احترام کرتے ہیں.... ایک عورت کئی حوالوں سے مردوں کے لیے انتہائی عزت و احترام کا باعث ہے لیکن معاف کیجیے گا میرے نزدیک اِس عورت سے کئی زیادہ احترام کے قابل وہ بزدل سی بھوری بلی ہے جو اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے مگر مرنے مارنے پراتر آتی ہے....اِس عورت کو ہم ڈائن تو کہہ سکتے ہیں عورت نہیں۔ پولیس کے مطابق جب قتل ہوا تو شوہر اسی کمرے میں موجود تھا،یعنی دونوںبدبخت اس قبیح جرم میں برابر کے شریک تھے۔

پچھلے دنوں جب یہ رپورٹ عالمی میڈیا کے حوالے سے پڑھی کہ امریکا میں ایک سال میں سینکڑوں بچے اپنے والدین کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں اور قتل کیے جانے کا محرک صرف یہ بتایا گیا کہ یہ بچے اپنے والدین کے خیال میں ان کی عیش کوشی میں رکاوٹ بنتے تھے! تو کتنی حیرت ہوئی تھی لیکن اب یہ لاہور کا واقعہ سن کر تو گویا دنیا ہی اندھیر ہو گئی.... اور اتنا ہی نہیں جب اس موضوع پر گوگل پر مزید سرچ کیا تو ہمارے تو ہوش اڑ گئے۔ جی ہاں گزشتہ ایک سال میں ملک عزیز میں کم و بیش 32کم سن بچے جن کی عمر چھ ماہ سے بارہ سال تک تھی،اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔صرف تین عبرت انگیز واقعات ملاحظہ فرمائیے ۔ جولائی کے شروع میں ذرائع ابلاغ پر یہ دل دوز خبر نشر ہوئی کہ ایبٹ آباد میں شوہر سے جھگڑے کے بعد بیوی نے اپنے تین بچوں کو زہر دے دیا۔ اُدھر گگو منڈی کے ایک گاؤں کے حنیف نے اپنے چار بچوں اور بیوی کو نشہ آور مشروب پلا کر چھری سے گلا کاٹ دیا ۔ ککمنگ کے رہائشی سفیر نے اپنی بیوی شیریں، 7سالہ بیٹے سمیر اور12سالہ بچی سویرا کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔نفرت کی انتہا دیکھیے کہ سفاک باپ نے سمیر کے پیٹ میں آٹھ گولیاں ماریں!....اف کیا قیامت کا سماں ہے، آسمان ٹوٹ پڑے ہم پر تو کم ہے!
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186407 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More