مجھے يہ کہنے ميں کوئي باک نہيں
کہ اٹھائيس ہزار مربع ميل پر پھيلا پورا گلگت بلتستان ادبي و علمي حوالے سے
مکمل بانجھ ہے- اگر دو چار لوگ ادب بالخصوص خالص ادب لکھتے ہيں تو اس کا
اطلاق پورے علاقے پر نہيں کيا جا سکتا ہے-عربي اور انگريزي ادب تخليق کرنے
والے تو شايد دو چار بھي نہيں ، البتہ اردو ادب لکھنے والے چند احباب ہيں
بھي تو ان کي پذيرائي نہيں- وجہ صاف ظاہر ہے کہ پورا معاشرہ بے ادب ہوچکا
ہے- ہمارے دوست احمد سليم سليمي ايک اچھے استاد ہونے کے ساتھ ايک اچھے ادب
دوست بھي ہيں-ادبي کتابيں جمع کرنا ان کا خاص مشغلہ ہے-گلگت بلتستان کے
نثري ادب ميںان کا بھر پورحصہ ہے- ''حديثِ دل'' کے نام سے ان کي تيسري کتاب
منظر عام پر آئے کافي دن ہوچکے ہيں-لاريب کہ اس کتاب کا لب ولہجہ يعني
اسلوب ادبي ہے-سليمي صاحب ادبي ذوق رکھتے ہيں اس ليے وہ اخباري خبروں اور
نيوز سٹوريزکو بھي ادبي رنگ و بو ميںديکھنا چاہتے ہيں- انہيں لوکل اخبارات
ديکھتے اور پڑھتے ہوئے سخت کڑھن محسوس ہوتي ہے حالانکہ اخبار ميں خبر ادبي
سے زيادہ صحافتي زبان بلکہ عوامي زبان کا تقاضہ کرتي ہے-جس طرح سليمي صاحب
کو اخبارات ديکھتے ہوئے تکليف ہوتي ہے کہ ان کا اسلوب ادبي نہيں ،بالکل اسي
طرح عام قاري تو چھوڑو کالج کے ليکچراروں اور پروفيسروں تک کوبھي سليمي
صاحب کي کتاب''حديثِ دل'' پڑھ کر يہ تکليف بلکہ شکايت ہے کہ ان کي کتاب
مشکل الفاظ و تعبيرات اور ادبي اصطلاحات سے بھري پڑي ہے جو عام انسان کي
سمجھ سے بالاتر ہے-ميرے ليے مشکل يہ ہے کہ جس طرح سليمي صاحب کو صحافت کے
حوالے سے سمجھانا مشکل ہے اس طرح زندگي ميں غلطي سے کسي کتاب کي ورق گرداني
کرنے والے احباب کو يہ سمجھانا مشکل ہے کہ ادبي زبان اور صحافتي زبان ميں
بہت فرق ہوتا ہے- عوامي يا بازاري زبان تو بالکل مختلف ہوتي ہے-''خالص ادب''
بازاري يا صحافتي زبان ميں تخليق نہيں ہوسکت- ادب کے ليے ادبي اسلوب ضروري
قرار پاتا ہے،اصطلاحات اور ٹرمينالوجيز کا استعمال ادب کا جز لاينفک ہے
ورنہ پھر اديب ايسي کتابوں کو ادبي حيثيت دينے سے انکار کرتے ہيں- وللناس
فيما يعشقون مذاہب
''حديثِ دل '' ايک خوبصورت و مزين کتاب ہے-يہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے -باب
''عشق نامہ '' سے لے کر باب '' سفر نامہ'' تک پڑھنے کے بعد يہ احساس ہوتا
ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ شہر بے اماں ميں بھي ا دب لکھنے والے موجود
ہيں-ہمارے ہاں تو الحمدللہ ايسے ايسے اديب بھي موجود ہيں جو تاريخ کو بھي
ادب ميں لکھتے ہيں، نتيجتاً تاريخ اور ادب دونوں سے ہاتھ دھو بيٹھتے
ہيں-ہمارے ممدوح سليمي کي تحرير ميں تازگي کے ساتھ ساتھ زندگي بھي ہے اور
زندگي بھي رواں رواں- خيالات ميںندرت ہے توجملوں ميں شگفتگي اور الفاظ
ميںرواني بھي ہے-ان کا اسلوبِ بياں اچھا ہے ادبي چاشني کے ساتھ تحرير ميں
فطري بے ساختگي کوٹ کوٹ کر بھري ہوئي ہے- ان کا بسمل فکري ہميشہ ان کو نئے
خيالات سے روشناس کرواتا ہے- عجيب بات ہے کہ گزشتہ کئي عرصے سے اس ظالم
بسمل فکري نے مظلوم سليمي کي فکري،نظري اور تخليقي سوچ کو ايک مخصوص خول کے
اندر بندکرکے رکھا ہواہے- وہ خول ہے '' خالص ادب''- ہم تو يہ کہيں گے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہے-ابھي ادب کے امتحاں اور بھي ہے-
موضوعات چننے ميں سليمي کو اچھي مہارت ہے- مثلاً اور کافري کيا ہے....؟ کے
عنوان سے ايک شگفتہ تحرير قلم بند کي ہے-اس تحرير ميں نوجوانوں کو اکسانے
کي بھرپور کوشش کي گئي ہے-معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کوکھول کر بيان کيا
ہے- نام نہاد ملکي ليڈروں کو خوب کوسا ہے-اس تحرير ميں بھي وہي نامراد بسمل
فکري چھايا ہوا ہے جو آخر ميں تين فرشي سلام کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے-ذرا
کتاب کو پڑھتے ہوئے '' ادب نامہ'' تک پہنچا تو ''شام اور بسمل فکري کا
کہرام'' کے ٹائٹل سے ايک تحرير ديکھنے کو ملي-مظلوم سليمي کا قنوطي بسمل
فکري تو يہاں اچانک گيٹي داس سے وارد ہوتا ہے اور وہ کچھ اہل چلاس کو سنا
ڈالتا ہے جو کبھي ان کو کسي نے کہنے کي ہمت نہيں کي- اگر واقعي ميں اہل
چلاس والوں کو بسمل فکري کي ان حرکتوں کا علم ہوا تو سانحہ لالوسر کي طرح
بسمل فکري کے ساتھ '' سانحہ گيٹي داس '' پيش آسکتا ہے-ان دونوں مقامات ميں
قرب مکاني بھي ہے-
حديث دل ميں مختلف عنوانات سے بہترين تحريريں شامل ہيں-سليمي صاحب کے بقول
وہ سدا بہار ادبي تحريريں لکھتے ہيں- کتاب پڑھنے سے اس دعوي- کا سچ ثابت
ہونا قوي لگتا ہے- اس کا ايک ذاتي تجربہ يہ بھي ہے کہ سليمي صاحب اپنا ايک
مضمون مختلف اخبارات و جرائد ميں بار بار شائع کرواتے ہيں- ہر بار پڑھنے سے
الگ لطف و سرور ملتا ہے- ہم چونکہ يہ دعوي- نہيں کرسکتے کہ ہم سدا بہار
تحريريں لکھتے ہيں لہذا ہماري تحريريں بھي سدا بہار کے بجائے صرف بہار ہي
ہوتيں ہيں- اور سدا بہار ہوتو شايد مزا بھي نہ آئے-کيونکہ ہميشہ بہار ہو تو
بھي يکسانيت اور ايک جيسي کيفيت انسان کو اکتا ديتي ہے-بہار کے ساتھ خزاں
ضروري ہے جيسے پھول کے ساتھ کانٹے-محبت کے ساتھ نفرت، اچھائي کے ساتھ برائي،
حق کے ساتھ باطل، وگرنہ صرف خوبي والوں کا قدردان کون ہوسکتا ہے جب تک
خاميوں والے انسان نہ پائے جائے-
سليمي صاحب جتنے خوش شکل ،خوش ادا اور خوش خوراک آدمي ہيں اس سے زيادہ
بامروت انسان بھي ہيں -وہ آساني سے کسي کا دل نہيں دکھاتے- ادب و مروت ان
کي تحريروں ميں بھي نظر آتي ہے-بعض دفعہ مروت ميں انسان مارا جاتا ہے -اس
مروت ميں وہ بعض دفعہ ادبي بونوں کو ادبي مينارے بنا کر پيش کرتے ہيں-بے
مائيوں کو ديوقامت علمي مجسمہ کي شکل ديتے ہيں- تحرير کے مابين السطور سے
يہ سمجھنے ميں دير نہيں لگتي کہ يہ رطب اللسانياں محض کسي کي خاطر ميں کي
جارہي ہيں-ورنہ ايسے ادبي ميناروں اورعلمي مجسموں کي مارکيٹ ويليو کسي سے
پوشيدہ نہيں-حديث دل ميں ديوانے کي بڑ کے عنوان سے ايک خوبصورت تحرير موجود
ہے-اس تحرير سي اپني معاشرتي حالت کا جائزہ لينا کوئي مشکل نہيںکہ معاشرہ
کس حد تک بگڑا ہوا ہے اور حکمران کن خرمستيوں ميں مبتلا ہيں، اس تحرير ميں
بھي وہي بسمل فکري مکمل تلخي ليے موجود ہے-
سليمي ديکھنے ميں معصوم ضرور لگتے ہيں مگر لکھنے ميں تو پورے بسمل فکري کے
ہمزاد لگتے ہيں -او ر وہ خود کو بسمل فکري کا ہمزاد ہونے پر فخر بھي کرتے
ہيں-مجھے تو يوں لگتا ہے کہ بسمل فکري ان ميں سرايت کرگيا ہے- البتہ بو لنے
ميںبھلے لگے يا نہ لگے مگرناکام تصنع اور معاشرتي وسماجي مجبوريوں کا شکار
ضرور ہوتے ہيں اور اپني سفيد پوشي کے ساتھ معتدل کلامي کا بھرپور بھرم قائم
رکھتے ہيں بلکہ رکھنے کي سعي ناتمام کرتے ہيں-جس کا تجربہ روز ہوتا ہے-
سليمي لکھنے ميں کيسے لگتے ہيں اس کا فيصلہ تو ان کي پہلي کتاب دشت آرزو
پڑھ کر ہم نے لگايا تھا کہ ان کي ذاتي زندگي جتني سماجي ناہمواريوں (يعني
ناکاميِ عشق و نامرادي)سے بھري پڑي ہے اتني ہي ان کي کتاب بھي دل ہلادينے
کے ليے کافي ہے-ان کي کتاب شکست آرزو بھي سماجي بالخصوص ازدواجي ناہمواريوں
کے مسائل سلجھاتے سلجھاتے مکمل ہوتي ہے- ان کي نئي کتاب ''حديثِ دل'' کے
مطالعے سے بھي يہ بات عياں ہوتي ہے کہ ان کي نثر ميں معاشي ، سماجي، سياسي
اور مذہبي بکھيڑوں کا رونا رونا ہے- ہم اس مختصر تحرير ميں ان تمام خوبيوں
کو بيان تو نہيں کرسکتے جو ان کي کتابوں اور نثر ميں موجود ہيں-قارئين سے
گزارش ہے کہ ايک دفعہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کريں - يہ گارنٹي دينے کے ليے
ميں تيار ہوں کہ اگر يہ کتاب آپ کو کچھ دے نہ سکے تو آپ کا کچھ بگاڑے گي
بھي نہيں- |