مولانا عطاء اللہ شہاب گلگت بلتستان میں ادب و سیاست کا
ایک معروف نام ہے۔ساتھ ساتھ انہیں ایک مذہبی رہنماء ہونے کا اعزاز بھی حاصل
ہے۔ مولانا کے ساتھ میری رفاقت کافی پرانی ہے۔میں چونکہ ایک طالب علم ہوں
مگر مولانا ہمیشہ مجھے اپنے دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔ مولانا کے ساتھ کافی
عرصہ علمی و ادبی کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان سے''
ماہنامہ شہاب'' کے نام سے ایک مجلہ نکالنا شروع کیا تھا، اس کی ایڈیٹری کے
لیے مولانا کی انتخاب نظر مجھ پر پڑی، الحمد للہ بے بضاعتی اور بے
سروسامانی کے باوجود، حتی المقدور اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کی کوشش
کی۔ مولانا کے ساتھ دیگر امور میں بھی ہمیشہ سے مشاورت ہوتی رہتی ہے۔ اس کا
قطعاً یہ مطلب نہیں کہ میں مولانا کے ہر کام و فکر میں ہمنوا ہوں اور اندھا
مقلد ہوں۔ میں نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے مولانا کے ساتھ ہمیشہ نظری
و سیاسی اختلاف کی ہے اور انہیں صفحات میں اپنا مدعا واضح لکھا بھی ہے اور
مولانا کی محفل میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ مگر الحمد للہ ہمارے
تعلقات اور احترام میں کمی نہیں آئی۔میں ان کی بے احترامی کا سوچ بھی نہیں
سکتا ۔اورمختلف فورم میں ان کا وکیل بھی بن جاتا ہوں۔اور شہاب صاحب بھی
دھیمے انداز میں اپنی بات مجھ تک کسی نہ کسی پیرائے میں پہنچاتے ہیں۔مجھے
یہی امید ہے کہ میری اس نالائقی اور واضح اختلاف پر وہ مجھ سے خوش نہیں تو،
ناراض بھی قطعاً نہیں ہیں۔
آج کی محفل میں مولانا کی ایک ادبی کاوش کا ذکر کرنا ہے۔مولانا صحافتی اور
ادبی حلقوں میں اچھی طریقے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔تاہم ان کی سیاسی
سرگرمیوں نے انہیں اس میدان سے دور نہیں رکھا ہے، تو قریب آنے سے بھی روکا
ہے۔پروفیسر غلام حسین سلیم مجھے بتارہے تھے کہ مولانا دن کو سیاسی
اکٹیویٹیز میں مشغول ہوتے ہیں اور رات کو انہیں قلم بند کرتے ہیں اور ہم سے
یہ نہیں ہوتا، یہی بات مولانا کی اولین کتابی کاوش '' منزل کی تلاش '' کے
منظر عام پر آنے کے بعد عنایت اللہ شمالی نے کہی تھی مجھ سے۔دیگر
سیاستدانوں اور شہاب صاحب میں یہ امتیازی فرق ہے۔ اس وقت شہاب صاحب کی
تیسری ادبی کاؤش '' شیخ الہند کے دیس میں سات دن ''میرے سامنے ہیں۔ شہاب
صاحب نے 2011ء میں مولانا فضل الرحمان کی معیت میں ایک پارلیمانی وفد کے
ساتھ ہندوستان کا سفرکیا تھا۔یہ کتاب اس پارلیمانی وفد کے دورہ ہندوستان کی
روئیداد ہے۔ اس وفد میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے چوٹی کے رہنماء شامل
تھے۔ غالباً مولانا سب سے کم عمر اور پھر چھوٹے سیاستدان بھی تھے۔ اس لیے
ان سات دنوں میںبڑے لوگوں کے ساتھ انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔گلگت
بلتستان ہاؤس اسلام آباد سے میں نے خود مولانا کو سفرِہندوستا ن کے لیے
رخصت کیا تھا۔شہاب صاحب کو لینے شیرانی صاحب(چیئرمین اسلامی نظریاتی
کونسل)، عطاء الرحمان صاحب (وفاقی وزیر)اور گل نصیب صاحب(ممبر قومی اسمبلی)
جی بی ہاؤس پہنچے تھے ۔واہگہ بارڈر پہنچ کر، پھر دارالعلوم دیوبند پہنچ کر
بھی اس ناچیز کو احوال سفر سے مطلع کیا تھا۔ واپسی پر دیکھا تو مولانا نے
دو ڈائروں میں ہندوستان کے سفر کی روئیداد کے ٹپس اور ضروری نوٹس لکھے تھے،
اور اہم مقامات کی تصاویر بھی اپنے کیمرے میں محفوظ کی تھی۔ جب مجھے دکھایا
تو ازحد خوشی ہوئی۔ ہندوستا ن کے کچھ سفر نامے بھی ساتھ لائے تھے اور کافی
سارے پرانے سفر نامے برادرم شبیر میواتی نے بھی مہیا کیے تھے۔ جی بی ہاوس
میں سکونت کے دنوں میں ، میں اکثر ماہنامہ شہاب کے امور کی غرض سے شہاب
صاحب کے پاس جاتا ، ساتھ ہی ان سے سفرنامہ لکھنے کا اصرار بھی کرتا ، یوں
مولانا نے سفرنامہ لکھنا شروع کیا اور میں نے اپنی نگرانی میں کمپوز کراکر
پروف ریڈنگ کرنا شروع کیا ۔ چند ہفتوں میں کتاب کمپوز اور پروف ریڈنگ کے
مراحل سے گزر کر تیار ہوئی۔ اس جہدمسلسل اور عرق ریزی کا اعتراف مولانا نے
کتاب کے دیباچے میں بھی خوبصورت پیرائے میں کیا ہے اور خصوصی شکریہ بھی ادا
کیا ہے۔دوستوں کی خدمات کا اعتراف کرنا اور تحریر ی شکل میں ہمیشہ کے لیے
ثبت کرنے میں مولانا قطعاً کنجوسی سے کام نہیں لیتے جیسے کتاب تحفة ًدینے
اور کھانا کھلانے میں کرتے ہیں۔میں نے کتاب کو دوران پروف ریڈنگ پڑھی تھی۔
اور اب کی بار دوبارہ بھی پڑھی، ہاں تصاویر کے انتخاب میں برادرم فہیم کے
ساتھ میری چوائس کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مولانا کی کتاب کا ایک حصہ نثر
ہے اور دوسرا حصہ تصاویر پر مشتمل ہے۔ شہاب صاحب ایک مضبوط نثر نگار ہیں۔
ایک دور میں شاعری کی بھی کوشش کی مگرانہیں کامیابی نثر میں ہی ملی۔ابتدائِ
سفر سے لے کر اختتام سفر تک کی تمام معلومات رومانی انداز میں اکٹھی کررکھی
ہے۔ کہیں چاہیے نوشی کا ذکر ملے گا تو کہیں اخبارات کے بیڈ ٹی کا۔ کہیں
علمی، ادبی، صحافتی اور سیاسی گفتگو ہوتی نظرآئے گی۔ تو کہیں ہندوستان کے
مقدس مقامات بالخصوص دارالعلوم دیوبند سے عقیدت و محبت جگہ جگہ مختلف
پیرائیوں میں دیکھنے کو ملے گی۔مسجد خیرالدین ، امیر شریعت، سکھ فلسفی اور
پھر معروف جلیانوالہ باغ کا خونیں منظر کی منظر کشی مولانا نے نرالے بلکہ
جذباتی انداز میں کی ہے۔دوران سفر لطیفے، علمی پھلجڑیاں اور پھر اکابر
علماء کا دلکش مناظر دیکھ گنگانا بھی قاری کو محظوظ کیے بغیر نہیں رہنے
دیتا۔ میر کارواں کی معیت میں جب دیوبند پہنچتے ہیں تو منظر دیدنی کے ساتھ
عقیدت کا جام سے لبریز نظر آتاہے۔ پھر مولانا آگے چل کر گلگت بلتستان کی
دارالعلوم دیوبند کے ساتھ والہانہ عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے دیوبند سے فیضاب
ہونے والے گلگتی اکابر کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔شہاب صاحب اور اس کے رفقاء
کبھی تو اکابر دیوبند کی قبروں میں زیارت کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ہندوستا
ن کے بازاروں میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔دلی کا لال قلعہ، جمیعت علماء ہند
کا مرکزی سکرٹریٹ اور پھر جامع مسجد دلی میں ان کی بیٹھیکیں ہوتیں ہیں۔ ان
کی تاریخ اور رومانویت میں کھو جاتے ہیں۔جب دلی کا سیر کرنے نکلتے ہیں تو
پھر قطب مینار،عظیم بزرگ خواجہ بختیار کاکی کا مزار، مسلمانوںکا آخری
تاجدار بہادر شاہ ظفر کا محفل اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی اور
مفتی سعید دہلوی کی قبور پر حاضر ہوکر آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ اور ہونا بھی
چاہیے، کون اپنے شاندار ماضی پر فخر نہیں کرتااور پھر اس کے مفقود ہونے
پرحزن و ملال کا پیکر نہیں بنتا۔دنیاے اسلام کے عظیم مفکر ، اردو ادب کے
واحد ادیب جس کی مثال مشکل ہے کی قبر کی زیارت سے محرومی کا اثر شہاب صاحب
کی قلب تک پہنچ جاتی ہے اورحرکات قلب بند ہوتے ہوتے اللہ کا کرم ہو جاتا
ہے۔ یہ ابوالکلام کا حق ہے کیونکہ ساری زندگی شہاب صاحب ان سے سیاسی سوچ
اور ادبی غذا لیتے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان صاحب کی وزیراعظم من موہن
سنگھ کے ساتھ ملاقات، خانوادائے شاہ ولی اللہ کے مزارات کی زیارت اور پھر
تاریخی مدرسہ رحیمہ کی زیارت احباب سفر کے سفر کو دوبالا کردیتی ہے۔
ہندوستانی صحافیوں کے ساتھ نشست بھی سفر کی رونق بڑھانے کا سبب بنتی
ہے۔گولڈن ٹمپل امرتسر،چندی گڑھ،مولانا مودود مدنی،مولانا ارشد مدنی،قاسمی
قبرستان،مملوک علی ،حضرت قاسم نانوتوی، حضرت مدنی،قاری طیب،شاہ عبدالعزیز و
شاہ عبدالقادر اور یگر اکابر پر بھی معلومات کتاب کا زینت بنی ہے۔ کہیں پر
مولانا فضل الرحمان ایوان صدر کا وزٹ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اقلیتوں کے
وزیر سے وفد کی ملاقات ہوتی اور کہیں پاکستان کے سفیرشاہد ملک وفد اور
مولانا فضل الرحمان کو ہندوستا ن کے بارے میں بریفنگ دیتے نظر آتے ہیں۔کتاب
کو بے جاطوالت سے بچایا گیا ہے۔ اسلام آباد کے معروف پبلیشر Nararatives نے
خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا ہے۔روزنامہ بادشمال نے قسط وار شائع کیا
ہے۔ماہنامہ الجمیعة میں بھی شائع ہوئی ہے۔ ظاہری تمام خوبیوں سے مزین یہ
کتاب گلگت بلتستان کے کتب خانوں میں ناپید ہے۔ ادبی حلقوں میں کتاب نے جگہ
بنا لی ہے۔ میرے دوستوں نے ملک کے مختلف حصوں سے کتاب پڑھنے کے بعد فون کیا
کہ اس میں آپ کا ذکر بھی ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں تصاویر کا چناؤ اور
تزئین اور کیپشنز اعلی معیار کے ہیں۔میرے دوست مفتی نذیراحمد خان نے
''سنگریزے'' کے عنوان سے ابتدائیہ لکھا ہے۔ان کی تحریر مکمل ادبی ہوتی ہے۔
انہوں نے احترام استاد میں کچھ قلابازیاں بھی کھائی ہے۔ مگر اپنے منصب کا
خیال رکھتے ہوئے کتاب کا دوسرا حصہ'' ذی روح تصاویر کی بھر مار'' سے اختلاف
نہیں کی مگر اتفاق بھی نہ کرسکے ۔اور شاید اتفاق نہ کرنا بہترین اختلاف ہی
ہے۔ مگر مجھے تو ان تصاویر پر اختلاف نہیں کیونکہ میں ''مفتی '' ہی نہیں تو
اختلاف چہ معنی دارد۔میں نے اس سے قبل بھی مولانا شہاب کے متعلق لکھا ہے۔
ان کی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے نظیریات و بیانات کے اتار چڑھاؤ کا ذکر
کیا تھا جس پر شہاب صاحب شاکی تھے بلکہ اب تک ہیں۔ اس لیے زیر نظر کتاب پر
لکھنے سے گریز کیاتھا مگر نہ لکھنا ناانصافی تھی ،لکھ دیا جو کتاب کا حق
ہے۔شہاب صاحب نے ایک اور کتاب''گلگت سے اڈیالہ تک'' بھی تبصرے کے لیے کافی
پہلے ارسال کی ہے۔ اس پر تبصرہ صرف اس لیے نہیں ہوسکا کہ شہاب صاحب کے
متبعین بھی ہماری تحریر سے غضبناک ہوتے ہیں۔اگر چہ شہاب صاحب شاکی ہو بھی
جائے تو انہیں غصہ پینا خوب آتا ہے۔وہ اختلاف ضرور کریں گے مگر یہ ہمیں
ماننا پڑھے گا کہ ان میں سیاسی '' ْٹالیرینس'' سب سے زیادہ ہے۔ ا س سفرنامہ
پر احمد سلیم سلیمی نے بھی خو ب لکھا ہے۔ شہاب صاحب مناسب سمجھے تو ایک
تجویز پیش خدمت ہے۔ اس کتاب کی ایک تقریب رونمائی گلگت میں بھی ہونی چاہیے۔
اسلام آباد میں ہونے والی تقریب رونمائی لوکل باسیوں اور ادباء کی پہنچ سے
بہت دور تھی اس لیے وہ شریک نہ ہوسکے اگرچہ فارمیلٹی پورا کرنے کے لیے ''
دعوت نامے'' تقریب رونمائی سے ایک دن قبل پہنچائے گئے تھے اور ہمیں تو اس
دن جس دن اس تقریب نے ہونا تھا۔اسلام آباد والی تقریب رونمائی میں کچھ
ناہنجاروں نے رنگ میں بھنگ بھی ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر وہ تقریب تھی تو
ملکی لیول کی اور بڑی قدر آور شخصیات نے شرکت کی تھی۔ بہر صورت یہ کتا ب
گلگت بلتستان لیول کی نہیں بلکہ ملکی لیول کی ہے۔ اور اس لیول پر پذیرائی
بھی ملی ہے۔ |