مسند اقتدار سنبھالنے کے اڑھائی
ماہ بعد وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے پہلا خطاب کیا۔انہوں نے اپنے خطاب
میں بجلی بحران اور دہشت گردی کے معاملات کوبطور خاص موضوع گفتگو بنایا۔
بجلی بحران کے خاتمے سے متعلق حکومتی اقدامات سے قوم کو آگاہ کیااور نیلم
جہلم ، نندی پور اور گڈانی پراجیکٹس پر روشنی ڈالی۔ چین کے تعاون سے تعمیر
کیے جانے والے خنجراب تا گوادر ہائی وے اور کراچی تا لاہور موٹر وے جیسے
معاشی طور پر فائدہ مندمنصوبوں کی اہمیت سے بھی قوم کو آگاہ کیا۔ اس کے
علاوہ سیلاب زدگان کی بحالی ، غریبوں کے لیے رہائشی مکانات کی فراہمی جیسے
خوش آئند اعلانات کیے۔ در حقیقت گذشتہ کئی برسوں سے وطن عزیز کو داخلی اور
خارجی سطح پر بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد عوام
پر امید تھے کہ ان مسائل کا فوری حل ممکن ہو سکے گا۔ مگرزوال پذیر معیشت،
دہشت گردی اور کرپشن جیسے عوامل کے باعث ملک کی حالت اسقدر دگر گوں ہے کہ
فوری ریلیف ممکن نہیں۔ وزیر اعظم نے درپیش مسائل اوربحرانوں کے حوالے سے
قوم کو آگاہ کیا ۔تاہم کچھ حلقوں نے اس حقیقت پسندانہ طرز عمل کو مایوس کن
اور حوصلہ شکن قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔بجا کہ عوام
وزیر اعظم سے خوش کن بیانات اور خوشخبری سننے کے متمنی تھے۔ مگر انہیں سبز
باغ دکھانے کے بجائے تصویر کا اصل رخ دکھانا کسی قدر دانش مندانہ اور
ایماندارانہ سوچ کا مظہر ہے۔ وزیر اعظم نے گذشتہ ادوار میں ہونے والی بد
عنوانیوں کے باعث قومی اداروں کی مخدوش حالت کا بطور خاص ذکر کیا۔ تاہم
ملوث افراد کے احتساب اور لوٹ کے پیسہ کی وصولی کے اعلان سے گریز کیا جس سے
عوام کو مایوسی ہوئی۔ موجودہ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھاری بھرکم
مینڈیٹ مسلم لیگ (ن) کو ماضی کی بد عنوانیوں کا حساب کرنے اور ملک کو ترقی
کی راہ پر گامزن کرنیکا پابند کرتاہے۔
دیگر معاملات سے قطع نظر،وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کا سب سے اہم پہلو
دہشت گردی کے حوالے سے ان کا پالیسی بیان تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے برسر اقتدار
آنے اور میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے سے ملکی اور بین الااقوامی سطح
پر یہ تاثر ابھرا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آئے گی اور
ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی کے مسئلے کو بہتر طور پر حل کیا جا سکے گا۔ مگر ان
اڑھائی ماہ میں اقتصادی صورتحال میں کچھ خاص فرق نظر نہ آیا اور تواتر سے
دہشت گردی کے واقعات بھی رونماہوتے رہے ۔وزیر اعظم نے بجا طور پر بجلی
بحران کے خاتمے اور چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے منصوبوں کو اقتصادی
ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہنا بھی درست کہ دہشت گردی
کے خاتمہ کے بغیر ان منصوبوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ پرویز مشرف کے دور حکومت
میں امریکی وار آن ٹیرر کا غیر مشروط حصہ بننے کے بعدسے جس طرح وطن عزیز
دہشت گردی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔بعد ازاں جمہوری
دور کے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی اس حوالے سے
کوئی پالیسی وضع نہ کر سکے بلکہ فرار، گریز اور صرف نظر کی راہ اپنائے رہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اسقدر دلیرانہ اور دو ٹوک الفاظ میں
دہشت گردی کے حوالے سے اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ میاں صاحب کا
کہنا تھا کہ ابھی تک چالیس ہزار پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جانیں
گنوا بیٹھے ہیں اور ہم مزید اپنے بچوں کی لاشیں اٹھانے کے متحمل نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنائی
جائے گی تاہم ضرورت پڑی تو بھر پور ریاستی قوت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔
بلاشبہ یہ پالیسی بیان بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ میاں نواز شریف ہمیشہ سے
دہشت گردی کے مسئلہ کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں
ہیں۔ پاک بھارت مسائل کے حوالے بھی وہ مذاکراتی پالیسی کے حامی رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ کشیدگی میں بھی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات
اور طرز عمل سے گریز کیا گیا۔ دونوں ممالک کے وسائل کو عسکری ضروریات کی
بجائے عوام کی معاشی بہتری پر خرچ کرنے کا نظریہ ان کی مدبرانہ سوچ کا مظہر
ہے ۔
وطن عزیز جس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں یر غمال بنا ہوا ہے ہمیں واقعتا ایک
مضبوط اور مربوط حکمت عملی اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔ کچھ حلقوں کی جانب
سے وزیر اعظم کے بیان کو مبہم اور غیر واضح قرار دیا جا رہاہے جو کسی قدر
قابل تائید بھی ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیر اعظم کے اس
پالیسی بیان کے خدوخال قوم اور سیاسی رہنماؤں کے سامنے لائیں ۔ پاکستان میں
عسکریت پسندی کی بہت سی جہتیں ہیں۔ قیاس ہے کہ ملک بھر میں تیس سے زائد
مختلف النوع عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔فقط خیبر پختونخواہ میں کالعدم
تحریک طالبان کی ایک درجن سے زائد گروہ موجود ہیں۔ فرقہ پرست تنظیمیں بھی
ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے ہتھیار بند گروہ ہیں جو
علیحدہ پسندی کی راہ پر گامزن ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کسی انتہا
پسند تنظیم کا نام نہیں لیا۔ حکومت کو واضح کرنا ہو گا کہ کون کون سے گروہ
اور تنظیمیں مذاکرات کے دائرہ میں آتی ہیں اور ان سے بات چیت کے لئے کیا
حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ بہتر ہوتا وزیر اعظم اپنے خطاب میں APC کا ذکر
بھی کرتے اور انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی ایک بار پھر اس
مسئلے کے حل کی دعوت دیتے۔ مسلم لیگ (ن) آغاز سے ہی اس معاملے کو تمام
اسٹیک ہولڈرز کی باہمی رضامندی سے حل کرنے کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
عمران خان کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے اے پی سی ملتوی کی گئی اور بعد
ازاں عمران خان نے اپنی شرکت کو آرمی چیف اور وزیر اعظم سے علیحدہ ملاقات
سے مشروط کیا تو حکومت نے اس پر بھی رضا مندی کا عندیہ دیا۔ حالانکہ یہ
مطالبہ عمران خان کی انتخابی کامیابی کے تناسب اور مینڈیٹ سے بالا ہے۔اگر
حکومت نے اسے اپنی انا کا مسلہ نہیں بنایا تو عمران خان کو بھی تمام
اختلافات اور سیاسی مخاصمت بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے کے حل کے لیے کردار
ادا کرنا چاہیئے۔ بہتر ہو حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے لئے بھی
اسی قسم کی علیحدہ ملاقات کا اہتمام کرے اور تجاویز حاصل کرے۔
چند روز قبل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کی
تشکیل نو بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جس کا مقصد سیاسی اور عسکری قیادت
کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تا کہ زیادہ موثر، دیرپا اور مربوط پالیسی وضع
کی جا سکے اور تمام فیصلے دونوں قیادتوں کے اشتراک فکر کا مظہر ہوں۔اس
سلسلے میں کامل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی مثبت کاوشوں کو سراہا
جانا چاہئیے تاکہ بہتری کی صورت نکلے۔ اپوزیشن جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ مل
بیٹھ کر اس اہم مسئلے کے حل کی صورت گری کریں، دہشت گردی کے معاملے پر
روائتی سیاست بازی سے اجتناب برتیں اور منفی سوچ کی بجائے مثبت طرز عمل
اختیار کرتے ہوئے وطن عزیز کو درپیش مسائل کے حل کی راہ نکالیں۔ |