ہالینڈ کے دارالحکومت” ہیگ“ میں دو روز تک جاری رہنے والی
تیسری عالمی جوہری کانفرنس گزشتہ روز اختتام پذیر ہوگئی۔ کانفرنس میںامریکی
صدر اوباما اور پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت 53 ممالک کے
سربراہان نے شرکت کی اور پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بطور
خاص امریکی صدر اوباما کے ساتھ نشست دی گئی۔ تیسری جوہری عالمی نفرنس سے
پہلے ہیگ میں سیکڑوں افراد نے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف پیدل مارچ کرتے ہوئے
یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ ہونے والے کروڑوں ڈالر بھوک سے
مرتے لاکھوں بچوں پر خرچ کیے جانے چاہئیں۔ اعلامیے کے مطابق تیسری دو روزہ
عالمی جوہری سلامتی کانفرنس میں شریک53ممالک نے جوہری تحفظ کے لیے عالمی
قوانین کو مقامی قوانین کے طور پر اپنانے، آئی اے ای اے کے معیار کی پابندی
اور جوہری سلامتی کو مزید محفوظ بنانے پر اتفاق کیا۔ اعلامیے میں مزید کہا
گیا کہ جوہری توانائی والے ممالک افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو کم کریں۔
ایٹمی ہتھیار والی یورینیم کو کم افزودگی والی یورینیم میں تبدیل کیا جائے
، جوہری ممالک مستقبل میں ایٹمی تحفظ کو مقدم رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔
جوہری سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف کا کہنا
تھا کہ پاکستان نیوکلیئرسیکورٹی بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اورجوہری سیکورٹی
کے لیے عالمی برادری کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل محفوظ ہیں،
جوہری اثاثوں کی حفاظت ہماری قومی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ہم خصوصی طور
پر حفاظتی انتظامات کرتے رہتے ہیں۔ جوہری سلامتی کے کلچر کو فروغ دینے میں
پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے، ہمارے فیصلے اور عزم سے تمام اقوام جوہری
سلامتی کے لیے متحرک ہوئیں۔ آئی اے ای اے کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے
نیو کلیئر سیکورٹی کے لیے تمام ممالک کوتعاون بڑھاناچاہیے۔ پاکستان کی
جوہری سلامتی کا نظام 5 ستونوں پر مشتمل ہے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے تحت
جوہری مواد ،تنصیبات کے تحفظ اور ممکنہ تابکاری سے بچاؤ کے لیے سخت نظام
موجود ہے ، جوہری برآمدات کے بارے میں پاکستان کا نظام نیو کلیئر سپلائرز
کے معیار کے مطابق ہے۔ نیوکلیئرسپلائرزگروپ اوردیگربرآمدی کنٹرول کے اداروں
کی رکنیت کے اہل ہیں،غیرامتیازی طورپررکن بنایا جائے۔پاکستان کو توانائی کے
بحران کا سامنا ہے،پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کیا جائے۔
جرمنی نے پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے پاکستانی مطالبے کی
حمایت کی۔وزیراعظم نواز شریف اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے مابین 45 منٹ
تک جاری رہنے والی ملاقات میں دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ
پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ
خیال کیا گیا۔ جرمن چانسلر نے پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقی کے لیے
اپنے ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ جرمنی دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے پاکستان کے اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وزیراعظم
محمد نواز شریف نے پاکستان کو جی ایس پلس کا درجہ دلانے کے سلسلے میں
پاکستان کی حمایت پر جرمنی کا شکریہ ادا کیا،جبکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں
کو محفوظ تسلیم کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی پر مکمل اعتماد ہے۔امریکا پاکستان کے
ساتھ مل کر کام کررہا ہے، پاکستان میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے
بھی تعاون جاری رکھیں گے۔دفاعی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ
امریکا کے کسی ایک بیان کے بعد یہ معاملہ ختم نہیں ہوسکتا،امریکا اور
پاکستان کے درمیان جوہری معاملات پر شکوک و شبہات چلتے رہیں گے، عالمی
میڈیا مفروضوں کی بنیاد پر خبریں دیتا ہے، کوئی بھی پاکستان کے نیوکلیئر
اثاثے نہیں چرا سکتا، امریکی پاکستان آکر ہمارے ایٹمی اثاثے اٹھا کر لے
جائیں، ایسا کسی طور ممکن نہیں۔ جوہری معاملے پر پاکستان کو ایک کامیابی مل
گئی، مغربی دنیا اور امریکا کو باور کرالیا گیا کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت
کے لیے اقدامات تسلی بخش ہیں، امریکا نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت سے متعلق
اقدامات پر مطمئن ہوگیاہے۔
کانفرنس میں امریکی صدر بارک اوبامانے اعلان کیاکہ جوہری تحفظ کانفرنس
2016ءشکاگومیں منعقد ہوگی ۔واضح رہے کہ ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کے لیے
پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کے ایک طویل سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے،تاکہ براہ
راست یا بلواسطہ ایٹمی مواد،تابکار ذرائع، متعلقہ تنصیبات یا اس سے متعلق
دیگر سرگرمیوں کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات کا سدباب کیا جاسکے،ان میں
غیرقانونی سرگرمیوں کا سراغ لگانا اور ان کی روک تھام کے علاوہ حادثات کے
ذریعے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے انتظامی اور تکنیکی
اقدامات بھی شامل ہوتے ہیں۔ایٹمی سیکورٹی کا مقصد ایٹمی مواد کی راستے میں
غیرقانونی لوٹ مار اور ضبطی کی روک تھام کرتے ہوئے ایٹمی ایندھن کی سپلائی
کویقینی بنانا ہوتاہے۔ 1960ءکی دہائی کے اواخر میں پرامن مقاصد کے لیے
ایٹمی توانائی کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ایٹمی مواد کی منتقلی بڑھ گئی
تھی، سوویت یونین کے سقوط کے ساتھ ہی سابق سوویت یونین کے علاقے میں موجود
ایٹمی مواد اور تنصیبات کی دیکھ بھال کا مسئلہ ابھر کرسامنے آیا،جس نے
تخفیف اسلحہ، ایٹمی اسلحہ اور ان کی تنصیبات کی تعداد میں کمی کی ضرورت پر
زوردیا۔ ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کے پیش نظر2010ءمیںپہلی ایٹمی سیکورٹی
سربراہ کانفرنس امریکی صدر اوباما کی ہدایت پر واشنگٹن میں منعقد کی گئی۔
پہلی کانفرنس میں 47ممالک اور تین بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی تھی،اس
کانفرنس کا مقصد تعاون میں اضافے، ایٹمی مواد اور تنصیبات کے بہتر تحفظ کے
لیے ٹھوس معاہدے کرکے دنیا بھر میں ایٹمی سیکورٹی کو بہتر بناناتھا، سربراہ
کانفرنس کے نتائج، پلان میں ٹھوس منصوبوں اور ایکشن پوائنٹس کی شکل میں درج
کیے گئے تھے ۔ تمام شرکا ممالک کانفرنس میں ایٹمی مواد کو محفوظ بنانے پر
متفق ہوئے تھے۔2012ءمیں دوسری ایٹمی سربراہ کانفرنس سئیول میں منعقد ہوئی،
جس میں 55ممالک اور 4بین الاقوامی تنظیموں کو مدعو کیا گیا تھا۔اس کانفرنس
میں نئے عزائم شامل کیے گئے،جن میں شرکاءنے ایٹمی تحفظ، سلامتی اور
ریڈیولوجیکل یورسیز (تابکاری کے ذرائع) کی چوری اور ناجائز استعمال سے بہتر
حفاظت کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کیا تھا اور اب ہیگ میں
تیسری دوروزہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد گزشتہ برسوں کی کامیابیوں کا جائزہ
لینا اور یہ پتالگانا تھا کہ گزشتہ اعلامیوں میں طے کردہ کون سے مقاصد پورے
نہیں ہوپائے۔
یہ خیال رہے کی ایک طرف امریکا سمیت 53ممالک کے سربرہان دنیاکو ایٹمی دہشت
گردی سے بچانے کے لیے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں جمع ہوئے اور امریکا ہی
ایٹمی سربراہی کانفرنسوں کی سربراہی کرتا چلا آرہا ہے، جبکہ دوسری جانب
”بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس“ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1945ءسے لے کر اب تک
بنائے گئے سوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں 97فیصد امریکا اور روس نے بنائے
ہیں۔ 1945ءمیں قائم امریکی مین ہٹن پروجیکٹ کے تحت پہلا ایٹم بم بنایا
گیاتھا۔ اس وقت دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد تقریباً 19ہزار ہے، ان
میں سے 420 ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ممالک کے پاس اور باقی ایٹمی طاقتوں کے
پاس ہیں۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایٹمی مسلح ممالک میں اسرائیل 200ایٹمی
ہتھیاروں کے ساتھ سرفہرست ہے، جبکہ پاکستان اور بھارت میں سے ہر ایک کے پاس
100ایٹمی ہتھیار ہیں۔ برطانیہ کے پاس مسلمہ ایٹمی قوتوں میں شامل ہونے کے
باوجود صرف 225ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق بھارت، اسرائیل، شمالی
کوریا، پاکستان اور جنوبی افریقا نے تحدید ایٹمی اسلحہ معاہدے سے باہر رہتے
ہوئے چھوٹے اور کم ہلاکت خیز ایٹمی ہتھیار بنائے اور اس کے لیے تجربات بھی
کیے۔ مسلمہ ایٹمی طاقتوں، امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین سے کم کیے،
لیکن مذکورہ رپورٹ مرتب کرنے والے سمجھتے ہیں کہ چین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں
کا ذخیرہ برطانیہ کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے۔ گو کہ امریکا اور روس کے پاس
ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے، لیکن اب انہیں جدید یا اپ
گریڈ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جنوری 2007ءمیں بلیٹن نے اس انتباہ کے ساتھ
دنیا میں ہلچل مچادی تھی کہ دنیا میں اس وقت موجود 27ہزار ایٹمی ہتھیاروں
میں سے دو ہزار، منٹوں میں داغے جانے کے لیے تیار ہیں۔ جنوری 2014ءکی ایک
رپورٹ کے مطابق امریکا کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 4650ہے، جنہیں 800سے
زاید بیلسٹک میزائلوں اور طیاروںسے چھوڑا جاسکتا ہے، جبکہ 2700ایٹمی ہتھیار
”ریٹائرڈ“ اور تلف کیے جانے کے منتظر ہیں۔ تمام ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی
تعداد 7400 ہے، جس میں 2130آپریشنل وار ہیڈز، تقریباً 1150آبدوزوں سے چھوڑے
جانے والے بیلسٹک میزائل اور 470بین براعظمی میزائل شامل ہیں۔ ایک اندازے
کے مطابق 300اسٹریٹجک ہتھیار امریکی جنگی فضائی اڈوں پر ذخیرہ ہیں۔ 200 نان
اسٹریٹجک وار ہیڈز یورپ میں اور 2530 اسٹوریج میںہیں۔ صدر اوباما کی امریکی
انتظامیہ ایٹمی ہتھیاروں کے پورے نظام کو گزشتہ دہائی میں 200 ارب ڈالرز کی
لاگت سے اپ گریڈ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ |