( تحریر : ملکہ . کے . خان)
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو سب سے پہلے
انہوں نے وہاں پر امن کی دعا مانگی تھی.کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے امت کی
اصلاح کے لئے بھیجے گئے اس پیغمبر کو معلوم تھا کہ معاشی تعمیروترقی اور
دنیا میں باوقاراورمحفوط زندگی گزارنےکے لئے امن لازمی ہے.ان کی دعا کی
قبولیت کا جیتا جاگتا ثبوت سعودی عرب کی بے اب و گیا صحرا میں متحرک
اوراعلی معیار کی انسانی زندگی ہے جہاں پر مثالی امن کے بدولت خوب تحقیق
ہوئی اور زیر زمین تیل کے ایسے ذخائر دریافت ہوئے کہ اپنی ضرورت کے علاوہ
اس قدرتی عنایت سے اپنے ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کما کر نہ صرف سعودی
باشندے شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں بلکہ پاکستان سمیت دیگر عریب اسلامی
ممالک کے لاکھوں ہنر مند اور مزدور کار طبقہ وہاں پر جاکر قابل قدر کمائی
کے بدولت اپنے خاندانوں کی بہترین کفالت کر رہے ہیں . 21ویں صدی کے جدید
دور اور ترقی کی آس لگائی دنیا کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب شروعات
ہی میں امریکہ نے اپنے مفادات کے حاطر امریکہ پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی
اور کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کے خودساختہ الزامات لگا کر دو آزاد اسلامی
ممالک افغانستان اور عراق پر یکے بعد دیگرے حملے کرکے آہن و بارود کی بارش
کرکے لاکھوں بے گناہ افراد کو خون میں نہلا دیا. امریکہ نے اس معاملے میں
انسانی حقوق کے علمبردار اور عالمی تحفظ کے ذمہ دار ادارے اقوام متحدہ کو
بھی نظر انداز کردیا. امریکی خوف سے اقوام متحدہ بھی ان ہلاکتوں پر خاموش
رہا جو کہ قابل افسوس ہے. امریکہ نے طاقت زعم میں مست ہوکر اپنے اتحادی
نیٹو ممالک کی فوجیں افغانستان اتارے تو جنوبی ایشیاء کا پورا خطہ عدم
استحکا کا شکار ہوا. افغانستان میں اندھی بمباری ، زمینی کاروائی اور
آپریشنز میں ہزاروں افغان بوڑھے بچے اور خواتین سمیت عام لوگ مارے گئے . اس
دوران امریکہ نے عراق اور افغانستا ن کے پڑوسی ممالک کو بھی ڈرا دھمکانے کے
ساتھ ڈالرز کا لالچ دیکر ہمنوا بنا لیا یوں امریکہ کو کھلی چھٹی مل
گئی.افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد 1996 میں قائم ہونے والی مثالی پر
امن اور مستحکم طالبان حکومت کا تختہ الٹا گیا اور آئے روز بے گناہ افغانوں
کی ہلاکتوں پر افغانستان کے اندر اور ملحقہ پاکستانی سرحدی بیلٹ میں بنیاد
پرست اسلامی طبقے بے چینی کی لہر دوڑ گئی . وقتی طور خاموش رہنے والے افغان
طالبان نے دوبارہ صف کرکے مزاحمت اور قابضین پر حملے شروع کردئیے . پاکستان
کے سرحدی قبائلی پٹی میں امریکی ڈرون حملوں اور جہادیوں کی موجودگی کو جواز
بنا کر بعض کاروائیوں میں بین لاقوامی حدود کے قوانین کو پامال کیا گیا.جس
سے مشتعل ہوکر روس کی جہاد میں حصہ لینے والے جنگجو تنظیموں نے اسے اسلام
کے خلاف کفری قوتوں جنگ قرار دے کر اسلام پسند قبائلیوں کو ساتھ ملا لیا
اور یوں ردعمل کے طور پر تحریک طالبان پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی.
افغانستان کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی ہونے اور لاجسٹک سپورٹ دینے پر ٹی
ٹی پی نے پاکستان کو دشمن قرار دے کر سکیورٹی فورسز کے ساتھ جنگ اور
پاکستانی فوج نے جوابی کاروائی شروع کی. یوں ہم امریکی جنگ میں براہ راست
دھنس گئی . پاکستانی فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان 10سالہ جنگ ، خودکش
حملوں ، بم دھماکوں اور دیگر کاروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں میں 40 ہزار
سے زیادہ لوگ جس میں عوام ، فوج کے جوان ،سرکاری ملازمین ،اور طالبان جنگجو
مارے گئے . جنگ کی شدت اور مزید تباہی سے بچنے کے لئے حکومت اور عسکریت
پسندوں کے درمیان مختلف اوقات میں امن اور جنگ بندی کے ہونے والے اور ممکنہ
امن معاہدوں امریکی ڈرون حملوں اور پاکستان دشمن ممالک کے پوشیدہ قوتوں نے
اپنے کارندوں کی تخریبی کاروائیوں اور پروپیگنڈا مہم کے ذریعے مسلسل سبوتاژ
کرکے ناکام بنائے. جس سے ملک بدستور میدان جنگ بنا رہا اور پاکستانیوں کا
خون بہہ رہا ہے.ملک معاشی طور تباہی کے دہانے پر اور غربت و افلاس کا دور
دورہ ہے.جنگ پر پاکستان کا سالانہ کھربوں کا نقصان ہو رہاہے. امریکہ کی طرف
سے اعلان کردہ کوالیشن سپورٹ فنڈز بھی تعطل ، پابندی اور کٹوتیوں کی نذر
ہوگیا.وقت اور حالات سے دانشور اور تجزیہ نگاروں نے یہ اخذ کرلیا ہے کہ
امریکہ اور مغربی اتحاد کا مقصد افغانستان میں امن اور جمہوریت قائم کرنا
نہیں بلکہ ان کی نظریں ہماری جوہری اثاثوں پر اور عزائم خطرناک ہیں.موجودہ
وقت میں حکومت اور طالبان نے علماء کرام اور عوامی خواہشات کو مد نظر رکھ
کر امن مذاکرات کی جو حامی بھر لی ہے اس سے پورے ملک میں امید کی کرن
نظرآئی ہے.ماضی قریب کے دو نا خوشگوار واقعات کے باؤجود دونوں فریقین نے
عارضی تعطل کے دوبارہ مذاکرات کی میز پر آکر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے. اس
عوام کے بھی حوصلے بلند ہوئے ہیں .یہی وجہ ہے کہ شہری اور دہیاتی مساجد میں
لوگ امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے اجتماعی دعائیں مانگنے لگے ہیں .کیونکہ
پاکستانی عوام مزید خون بہنے اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ کھو رہے ہیں جس
کا براہ راست اثر سے ملک عدم استحکام کی طرف جارہاہے جو کہ ہمارے ملک،
اسلام اور ایٹمی اثاثوں کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں مدد دے رہا
ہے.جنگ بندی کے دوران ہونے والے تخریبی کاروائیوں اور واقعات سے ٹی ٹی پی
کی لا تعلقی کا اعلانکے بعد حکومت کو چاہیے کہ وہ باریک بینی اور چھان بین
سے ایسے عناصر کا سراغ لگائے اور طالبان بھی ان کے نام پر پہلے اور اب کے
واقعات کا اپنے طور پر عوام کے خاطر نوٹس لے اور سامنے انے پر انہیں بے
نقاب کریں. 2014 کے اواخر میں افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے
انخلاء کے بعد امن و استحکام کے لئے امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات
جاری ہے دونو طرف اپنے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش ہورہی ہے.اگر وہاں پر
جنگ کے فریقین مذاکرات پر متفق ہیں تویہاں پاکستان میں ایسا کیونکر ممکن
نہیں. پاکستانی عوام کی بھی خواہش ہے کہ فریقین صبر و تحمل کے ساتھ متنازعہ
امور اور خدشات کو ختم کرنے کے لئے مشترکہ طور پر قابل قبول حل نکالیں. ملک
میں رائج قوانین میں بھی اسلامی نظام سے متصادم شقوں پر علماء کرام سے
مشاورت کے بعد مقننہ سے ترمیم نا ممکن نہیں کیونکہ سیاسی حکومت اور عسکری
قیادت میں بھی مثالی اتفاق پایا جاتاہے. اگر خلوص دل سے طالبان اور حکومت
عوام کے بہترین مفاد میں دائمی جنگ بندی پر متفق ہو گئ تو یہ ہماری بڑی
کامیابی ہوگی. کیونکہ ہم بیرونی خیرات اور امدادوں کے لیے کب تک خوار ہوتے
رہینگے عوام بھی مزید اپنے پیاروں کے جنازے اٹھااٹھا کر تھک چکے ہیں. قوموں
پر ازمائش آتے رہتے ہیں مگر وہی کامیاب رہتے ہیں جو خطرات کا ادراک اور
مفاد عامہ کے لیے اپنے انا کو پس پشت ڈال کر آئندہ نسلوں کی فلاح کا سوچتے
ہیں. |