اگرچہ‘ منہ پر اور منہ سے‘ کوئی کچھ نہیں کہتا‘ لیکن
دیکھنی‘ سب کچھ کہہ دیتی ہے۔ بہت سی باتیں‘ لفظوں کی محتاج نہیں ہوتیں‘
سمجھی سمجھائی ہوتی ہیں یا پھر‘ دیکھنے کے طور‘ ان کے مفاہیم کھول دیتے
ہیں۔ لوگوں کے منفی رویے اور ترچھی نظریں‘ مجھے اپنی حیثیت اور حقیقی اوقات
سے‘ آگاہ کر دیتی ہیں۔ اب میں باحیثیت اور شرفا کی بستی میں‘ اقامت رکھتا
ہوں۔ میں سیٹھ ناسہی‘ کنگال اور مفلوک الحال بھی نہیں۔ زندگی کی ہر ضرورت‘
مجھے دستیاب ہے۔ سلام دعا میں‘ ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ دو نمبری لوگ‘
کبھی بھی میرے دوست نہیں رہے۔ ناخوش گوار لوگ‘ شروع سے‘ مجھے پسند نہیں
آتے۔ وہ بھی‘ مجھے پسند نہیں کرتے۔ ہر دو نمبری کو‘ شریف طبع اچھے نہیں
لگتے۔ یہ ایک طرح سے‘ ضدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جگہ رہتے ہوئے بھی‘
معاشی اور فکری حوالہ سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں دور ہوتے ہیں۔
میں نے پنج وقتوں کو‘ جھوٹ بولتے‘ رشوت لیتے‘ اور کمزوروں کا حق دباتے
دیکھا ہے۔ وہ یہ سب دھڑلے سے کرتے ہیں۔ حج کے بعد تو‘ بہت سے‘ سمجھ لیتے
ہیں‘ کہ پچھلا کیا‘ معاف ہو چکا ہے اور اس کے بعد‘ دو نمبری کے لیے‘ انہیں
کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ پوچھنے والوں کا‘ وہ گھی شکر سے‘ منہ بند کر چکے ہوتے
ہیں یا بہ وقت ضرورت‘ بھر دیتے ہیں۔
عوام سے‘ ووٹ حاصل کرنے والے‘ خود کو‘ بالائی مخلوق خیال کرنے لگتے ہیں۔
وزارت امارت کی کرسی‘ انہیں ناکرنے والے کام‘ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ وہ
کسی قانؤن‘ ضابطے اور اصول کے پابند نہیں رہتے۔ عوام نمائندوں کو‘ اہل رائے
سمجھ کر‘ ووٹ دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں‘ کہ یہ جو کریں گے‘ اچھا ہی
کریں گے۔ ان کا کیا‘ عوامی فلاح و بہبود کے لیے ہی ہو گا۔ جب اخبار اور
ریڈیو‘ ان کے کیے کی‘ خبر پاتے ہیں تو ان پر دکھ کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔
آخر‘ میڈیا والوں کو‘ خبر کیسے ہوئی اور انہیں‘ رپوٹنگ کی جرآت ہی کیوں
ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں میڈیا صرف نغمے سنانے اور ان کی کارگزاری کی تشریح اور
تعریف و توسیف کے لیے ہے۔
اخبار اور ریڈیو‘ کوئی بہت بڑی ہی خبر سناتے ہیں۔ یہ بھی کہ‘ اخبار اور
ریڈیو‘ اصل حقیقت کو بھی پیش نہیں کرتے۔ حال ہی میں‘ پاک بھارت جنگ ختم
ہوئی ہے۔ جنگ کے دوران‘ ریڈیو اور اخبار بڑی حوصلہ افزا خبریں سناتے تھے۔
جنگ کے خاتمے پر معلوم ہوا ہے‘ کہ آدھا ملک ہی‘ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ رگڑا
کیا دینا تھا‘ رگڑا لگ گیا ہے۔
روزہ‘ تزکیہ نفس کے لیے‘ اعلی ترین ذریعہ ہے۔ اس سے‘ بھوک کی تلخی کا
اندازہ ہوتا ہے۔ رک جانا ہی‘ روزے کا پہلا اور آخری مقصد ہوتا ہے۔ رکنا
کیا‘ یہاں تو خرابی میں اور تیزی آ جاتی ہے۔ روزے دار کہتا ہے‘ میرے منہ
میں روزہ ہے‘ جھوٹ کیوں بولوں گا۔ حالاں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ پہلے
کم تولتا تھا‘ روزہ رکھ کر‘ کم تولنے کے ساتھ ساتھ‘ ملاوٹ کو بھی شعار
بناتا ہے۔
ان پڑھ لوگوں کو تو چھوڑیے‘ جو لوگ‘ علم حاصل کرتے ہیں‘ وہ تو‘ ان پڑھ
لوگوں کو بھی‘ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ پڑھائی‘ روشنی کا نام ہے۔ یہ کیسی
روشنی ہے‘ جو تاریکیوں کی نمائندہ ہے۔ آج پڑھا لکھا‘ شاطر بن گیا ہے۔ دفتر
میں ہے‘ تو رشوت لیتا ہے۔ دفتر کے باہر ہے‘ تو تقسیم کے دروازے کھولتا ہے۔
کتابیں اور استاد‘ تو دو نمبری نہیں سکھاتے۔ علم‘ سچائی کی طرف لے جاتا ہے۔
آج کا سچ تو یہ ہے‘ کہ عدل و انصاف کو‘ رشوت کی نوک پر رکھو‘ اور خوب کما
کر جیبیں بھاری کرو۔ درحقیقت‘ علم کرسی کے حصول کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔
کرسی کا ملنا‘ رزق میں فراخی کا سبب بنتا ہے۔
جس پیٹ میں‘ رزق حرام چلا گیا‘ وہ حلال دا کس طرح رہا۔ حرام لقموں سے بننے
والا خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا
ہے‘ اس پیٹ والے کے‘ جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری
اصولوں پر‘ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے ذریعے‘
خود کو حلال دا ثابت کرنے کی‘ کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے‘ کہ وہ حلال دے ہو
جاتے ہیں؟ اگر نہیں‘ تو انہیں اور ان کی اولادوں کو‘ حرام دا کیوں نہیں کہا
جاتا یا ترچھی اور معنی خیز‘ نظروں سے کیوں نہیں دیکھا جاتا۔
میں‘ پانچ وقت‘ باجماعت نماز ادا کرنے کی دل و جان سے‘ کوشش کرتا ہوں۔ ہر
سال‘ باقاعدگی سے روزے رکھتا ہوں۔ پچھلے سال‘ حج بھی کرکے آیا ہوں۔ الله
مجھے‘ میری ضرورت سے‘ کہیں بڑھ کر عطا کر دیتا ہے۔ اس لیے‘ میں رزق حرام پر
لعنت بھیجتا ہوں۔ میں اپنی بیوی‘ جو اسی علاقے کی ہے‘ کے سوا‘ ہر عورت کو‘
اپنی ماں بہن سمجھتا ہوں۔
میں اپنا محلہ چھوڑ کر‘ دور دراز علاقے میں‘ آ بسا ہوں۔ یہاں مجھے کوئی
نہیں جانتا تھا۔ ابتدا میں‘ صرف اطراف کے‘ ہم سائے ہی‘ میرے نام اور کام سے
آگاہ تھے۔۔ اب تقریبا پورا محلہ مجھے جانتا ہے۔ ایک سال پہلے‘ مجھے اچانک‘
مسجد میں‘ اپنے علاقہ کے‘ ملک صاحب مل گیے۔ ان کے‘ یہاں دور کے رشتہ دار
رہتے تھے۔ وہ انہیں‘ کسی کام کے سلسلے میں ملنے آئے تھے۔ میں بڑے تپاک سے‘
انہیں گلے ملنے کے لیے‘ آگے بڑھا۔ پہلے تو‘ انہوں نے مجھے بڑے غور سے
دیکھا۔ گلے ملنے کی بجائے بولے اوے توں جیناں یابھ دا پتر‘ شیدا حرام دا
ایں۔ مسجد میں دو چار نمازی رہ گیے تھے۔ یہ جملہ کسی ایک کا سن لینا‘ عزت
کو خاک کرنے کے لیے‘ کافی تھا۔ میں جواب دیے بغیر‘ مسجد سے نکل کر گھر آ
گیا اور سوچنے لگا۔
محلہ میں‘ ایک حاجی صاحب بھی رہتے ہیں۔ ضلعی دفتر میں ملازم ہیں۔ سب ان کی
عزت کرتے ہیں۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔ پچھلے سال‘ حج کرکے آئے ہیں۔ یہ حج‘
انہوں نے رشوت کی کمائی سے کیا ۔ رشوت کی کمائی سے‘ انہوں نے ٹھیک ٹھاک
جائداد بنا لی ہے۔ پچاس سے‘ تجاوز کر جانے کے باوجود‘ عورتوں کے بڑے شوقین
ہیں۔ ان کا بس چلے تو‘ روزن نشاط میں ہی‘ بسیرا کر لیں۔ انہیں کوئی حرام دا
نہیں کہتا‘ حالاں کہ ان کا کوئی کام حلالی نہیں۔
میں حرام دا ہوں‘ یا زناکار حرام دے ہیں۔ میں خود تو‘ تخلیق نہیں پا گیا۔
طریقہ تخلیق تو مشترک ہے‘ لیکن اس میں مذہبی اور سماجی ضوابطہ سے انحراف
موجود تھا۔ سماجی اور مذہبی انحراف‘ مجھ سے تو سرزد نہیں ہوا تھا۔ انحراف
کرنے والے‘ سماج میں بہ طور حلال دے دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی حرام
دا نہیں کہتا۔ جس کا انحراف سے‘ تعلق واسطہ ہی نہیں‘ آج اٹھائیس برس بعد
بھی‘ اپنی اور لوگوں کی نظر میں حرام دا ہے۔
عجیب روایت ہے‘ رشوت خوروں کو کوئی حرام دا نہیں کہتا۔ جھوٹی گواہی دینے
والے‘ ہر قسم کی دو نمری کرنے والے‘ حلال دے ہیں اور میں‘ حرام دا ہوں‘ جو
دینی واجبات‘ خلوص نیتی سے ادا کرتا ہوں۔ دو نمبری سے‘ دور بھاگتا ہوں ان
حقائق کے بعد‘ ایک عرصہ گزر جانے بعد بھی‘ میں حرام دا ہوں۔
کوئی تو بتلائے‘ کہ حرام دا کون ہے‘ میں یا سماجی دو نمبر
معززین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
7-4-1973
|