سوچتا ہوں

سوچتا ہوں کہ سوچنے پہ ابھی تک کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لگا۔ اﷲ ہمارے ڈار صاحب کو عمر طویل عطا فرمائے۔شیخ رشید سے خار کھا کے وہ ڈالر کو ایک سو دس روپے سے ستانوے روپے پچاس پیسے پہ لے آئے ہیں۔ان کی اس محنت کوشش اور قربانی کا اندازہ پاکستان کے بھوکے ننگے کبھی نہیں لگا سکتے۔ ہاں وہ جن کے اربوں ڈالر ملک سے باہر ہیں ان کو صحیح اندازہ ہو گا کہ ڈالر کو اس حد تک نیچے لانے کا کیا مطلب ہے۔اب دالر کی اس بے وقعتی کا ائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا تو اس میں ڈار صاحب کا کیا قصور۔ان کا کام ہے ملک میں سرمایہ کاری کا فروغ۔ بھنڈی کس بھاؤ بکتی ہے اور مرغ اپنی چڑھتی قیمت کی وجہ سے بنیرے پہ چڑھ کے لوگوں کا جو منہ چڑا رہا ہے۔بجلی ڈالر کی کم مائیگی کے ساتھ ہی مہنگی ہو گئی ہے اور آلو اپنی بڑھتی قدر کی بنیاد پہ غریبوں پہ آوازے کسنے لگا ہے ۔یہی حال دوسری سبزیوں اور ترکاریوں کا ہے کہ خود تو سبز ہیں لیکن ان کی قیمت سن کے خریدنے والا لال پیلا بلکہ اب تو نیلا پڑنے لگا ہے۔ ہاں کریلے گوشت کی قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ ان کی ڈش ہی نہیں جنہیں قیمتوں کی کمی اور زیادتی سے کوئی فرق پڑتا ہے۔

سوچتا ہوں! ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہیں۔ہمارے وزیر اعظم ہیگ میں منعقدہ دو روزہ جوہری سلامتی کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں موجود ہیں۔وزیر اعظم نے وہاں اچھی باتیں کی ہیں۔ان کا اس کانفرنس کے شرکاء سے خطاب بھی اچھا تھا اور مطالبات بھی۔ کبھی ہمارے لہجے میں البتہ وہ گھن گرج بھی آ ہی جائے گی جو دوسری جوہری طاقتوں کا خاصہ ہے۔لوگ پیٹ کاٹ کے گھر بناتے ہیں۔کاروبار جماتے ہیں لیکن پاکستانی قوم نے پیٹ کاٹ کے کلاشنکو ف خریدی ہے۔اس لئے کہ قوم جانتی تھی کہ بھرا پیٹ کسی کو نہیں دکھتا لیکن ہاتھ کا ڈنڈا ،راہ کے کتے کو بھی نظر آتا ہے اور وہ ڈنڈا بردار پہ بھونکنے سے احتراز کرتا ہے۔ ہمارا عجب ڈنڈا ہے کہ ابھی تک ہمی پہ برس رہا ہے۔کتے ہیں کہ اسے دیکھ کے اور زور سے ہم پہ بھونکنے لگتے ہیں۔ سوچتا ہوں تو سوائے اس کے اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کلاشنکوف تو ہم نے لے لی ہے لیکن اس کے چلانے والوں کو مار دیا ہے جو دشمن کے گھر جا کے دشمن کے کان لال کر دیا کرتے تھے۔ کلاشنکوف ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے وہ موقع پہ خود چل نہیں سکتی۔ہیگ میں اکٹھے ہونے والے ان بدمعاشوں نے کھیل ہی کھیل میں ہمارے سادہ لوح وزیر اعظم سے ان کے دل کی بھی بوجھ لیں۔اس ساری مشق کو وار گیم کا نام دیا گیا۔

سوچتا ہوں سڑک چھاپ شیخ رشید کو کوئی وجہ بتائے بغیر کنیڈا جانے والی پرواز سے اتار دیا گیا۔اس کی وجہ امریکی حکم بتائی گئی۔ شیخ آج سڑک چھاپ نہیں ۔وہ غریب آدمی نہیں اس کا قصور یہ ہے کہ اس کا باپ غریب آدمی تھا۔وہ بھلے جو بھی ہو لیکن پاکستان کی نام نہاد معزز قومی اسمبلی کا رکن ہے۔جوہری طاقت کی طاقتور اسمبلی کا رکن۔اسمبلی میں شوروغوغا تو وہ جمشید دستی کی طرح خوب مچا لیتا ہے لیکن اشرافیہ اس کو اپنے جیسا نہیں سمجھتی کہ اس نے منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنی نہیں سیکھی اور ابھی بھی شیدے ٹرکاں آلے اور میدے نان چھولے والے کی بات کرتا ہے۔مجال ہے کہ جوہری طاقت کے کسی وزیر مشیر نے کوئی جوہر دکھایا ہو۔یہ تو ویسے بھی بچہ جمورا حکومت ہے اس سے پہلے مداریوں کی حکومت میں تو بیلٹیں جوتے اور جرابیں تک اتار لی جاتی تھیں۔یار لوگ افسانہ گھڑنے میں ایسے طاق ہیں کہ نہ پوچھیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس زمانے کا ایک وزیر کافی دیر تک ایک انڈروئر میں رہنے کی وجہ امریکی ایئرپورٹ ہی پہ نمونیہ کا شکار ہو گیا کہ وہاں ٹھنڈ بھی قیامت کی پڑتی ہے۔باقی لوگ تو وہ شاپنگ وغیرہ کا شوق کرتے رہے اور اس غریب کو سارا وقت ہسپتال میں گذارنا پڑا۔

سوچتا ہوں ! سرمایہ کاری کسے کہتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب لوٹ کھسوٹ ہے۔ عوام کی جیبوں پہ ڈاکہ۔کیا سرمایہ کاری کا یہ مطلب ہے کہ پیسہ آنا چاہئیے اس کے بدلے عوام کے ساتھ جو ہو جائے۔ یہ جوہری طاقت کی سوچ تو نہیں ہو سکتی۔یہ تو شاہی محلے کی سوچ ہے شاہی قلعے کی نہیں۔موبائل کمپنیوں ہی کو لے لیں۔ان پڑھ اور جاہل عوام کو کچھ تو حکومت لوٹ لیتی ہے اور جو باقی بچ جاتا ہے وہ یہ کمپنیاں کبھی انٹرنیٹ کے بہانے تو کبھی کسی پیکیج کے نام پر عوام کی جیبوں سے نکلوا لیتی ہیں۔یہی حال بجلی بنانے والی کمپنیوں کا ہے۔غیر ملکی تو خیر جب بھی سرمایہ کاری کرے گا منافع ہی سے مطلب رکھے گا اس سے کیا گلہ کہ اس نے تو ہماری نااہلی اور مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہی ہے ہمارء اپنے سی این جی والے جس طرح عوام کو غیر محسوس طریقے سے لوٹتے ہیں۔اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔وہ اپنا ایک روپیہ وصولنے کے لئے مرنے مارنے کی حد تک چلے جاتے ہیں لیکن صارف کے پورے نو روپے ہڑپنے میں ذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ حکومت اس میں بھی برابر کی شریک ہے جس نے روپے کی بنیادی اکائی ہی کو ٹکے ٹوکری کر دیا ہے۔

سوچتاہوں! پھر اس ڈر سے سوچنا بھی بند کر دیتا ہوں کہ سوچنا متعدی بیماری ہے۔ اگر کسی دوسرے کو لگ گئی تو سارا زوال میرے سر آئے گا۔ میں بھی سڑک چھاپ ہوں۔ شیخ رشید تو صر ف آف لوڈ ہوا ہے۔اگر میں لوڈ ہو گیا تو کیا ہوگا۔ اسے چیخ وپکار کے لئے نام نہاد جوہری اسمبلی کا ایوان تو مہیا ہے مجھے تو رونے والا بھی کوئی نہیں۔اس لئے بھائیو۱ سوچنے پہ ہزار بار لعنت بھیجو اور منا بھائی کی طرح لگے رہو۔ ایک دن تمہاری اس چپ کی چبھی پہ شاید اﷲ میاں کو رحم آ جائے اور تمہیں کوئی ایسا قائد ملے جو بھلے کلاشنکوف چلائے نہیں لیکن اسے چلانا جانتا ضرور ہو۔تاضروں سے تو ڈر ہی رہتا ہے کہ کسی دن کلاشنکوف ہی کا اچھے داموں سودا نہ کر لیں۔منافع اچھا مل رہا ہو تو مال نکالنا ہی مناسب ہوتا ہے۔ کلاشنکوف کا کیا ہے پھر بن جائے گی۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268727 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More