پاکستان میں اب تک ہر حکمران نےریاست اورعوام پر اپنی
سیاسی فیکٹری کو ترجیح دی۔ خاندانی غلبہ کے تسلسل کی خاطر ایسا انتخابی
نظام رائج رکھا ہوا ہے جس میں ووٹ چھینا یا خریدا جاتا ہے۔ نظریات یا منشور
کے پابند عام سیاسی کارکن کو پارٹی ٹکٹ ملتا ہے نہ ووٹ۔ اس صورت حال میں
کسی بھی شعبہ زندگی میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ریاست
اپنے قیام سےعوام کوبتدریج مفت سہولیات کی فراہمی کی پابند ہوتی ہے مگر
یہاں ہر سہولت بتدریج ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ آج عام پاکستانی تعلیم،صحت،
انصاف، سکیورٹی اور روزگار کی خریداری پر مجبور ہو چکا ہے۔ نا بالغ اور
اپاہج جیسے زیر کفالت پاکستانی بھی اشیائے صرف پر عائد سیلز ٹیکس کا بوجھ
اٹھائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اُن کے منتخب نمائندگان سے تنخواہ دار سول
سرونٹ سبھی شہنشاہیت کا مزہ لے رہے ہیں۔ استحصال اور افلاس کے شکار
پاکستانی کو جمہوریت، آئین اور قانون کے بانیان کا احترام کیوں ہو۔ وہ ماضی
کی ناانصافیوں سے مشتعل ہے۔ سیاسی فیکٹریاں چلانے والے ہر مقتدر کی منافقت
سے نالاں ہے۔ ذاتی و خاندانی نقصانات پہنچانے والے سےانتقام لینے کا خواہش
مند ہے۔ حالات میں تبدیلی کی خاطر کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ اُسے غرض نہیں کہ
مسیحا طالبان میں سے ہے یا خمینیان سے۔ وہ صرف اور صرف انصاف چاہتا ہے جو
شائد اُسےخونی انقلاب کے بغیر نہیں مل سکتا۔ |