جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ایک ایسی فوج کے سربراہ تھے جو
آج بھی دنیا کی بہترین پیشہ وارانہ فوج مانی جاتی ہے۔بنیا کسی زمانے میں
ذرائع ابلاغ میں پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا کہ پاک فوج کے جوانوں کا تو واقعی
جواب نہیں لیکن پاک فوج کے افسر اس فوج کی قیادت کے اہل نہیں۔بھارت ظاہر ہے
ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے ہم جتنا مرضی اسے چینی کھلائیں اس کا منہ کبھی
میٹھا نہیں ہو سکتا۔اس کی جانب سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا کوئی اچھی
بات کی توقع کرنا عبث ہے۔پاک فوج کے افسران اور جوان سب ایک ہی شاخ کے برگ
وبار ہیں۔ان پھولوں میں حب وطن کا ایک ہی خون موجیں مارتا ہے ۔اس لئے ان کے
روئیے اور کارکردگی کو علیحدہ خانوں میں رکھنا دشمن کی چال کے سوا کچھ
نہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افسروں نے ثابت کیا کہ وہ اور ان کے جوان
مادرِ وطن کی طرف اٹھنے والی کسی بھی آنکھ کو پھوڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔اس
جنگ میں جنرلز سے لے کے جوان تک ہر ایک نے اپنے لہو سے اس چمن کی آبیاری کی
ہے۔
فوجی میں وفا نہ ہو تو اسے فوجی کہنا زیادتی ہے۔فوجی اپنے سیکشن اپنی
پلاٹون اپنی کمپنی سے لے کر اپنے ادارے اور پھر اپنے ملک کی عزت کی حفاظت
کے لئے جان قربان کرنا ہی اپنا زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔فوج کے اندر وہ جس
سیکشن میں تعینات ہوتا ہے اس کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ یہ سیکشن سب
سیکشنز سے بہتر ہو۔ اس کی پلاٹون سب پلاٹون میں اعلیٰ ہو اور یوں وہ اپنا
تن من دھن سب کچھ اس اعزاز کے لئے داؤ پر لگانے کو تیار رہتا ہے۔ ایسی بہت
سی مثالیں موجود ہیں جب پاک فوج نے اپنی یونٹ اپنے ادارے اور اپنے ملک پہ
حرف نہ ٓنے دیا اور اپنی جان قربان کر دی۔گھر بیٹھ کے کالم لکھنا اور ٹی وی
چینل پہ بیٹھ کے تجزیئے کرنا اور بات لیکن سنساتی گولی کے آگے سینہ سپر
ہونا ایک بالکل علیحدہ بات ہے۔اپنے آج کو اپنوں کے بہتر کل کے لئے قربان
کرنے کا حوصلہ وہی کر سکتے ہیں جو اپنے آپ سے بڑھ کر کسی سے پیار کرتے ہیں۔
میں اکثر لکھتا ہوں کہ قائد کی وفات کے بعد یہ قوم یتیم ہو گئی۔اس کی تربیت
ویسی ہی ہے جیسی بچپن میں یتیم ہو جانے والے اکثر بچوں کی ہوتی ہے اور پھر
باپ کے مرنے کے بعد اس قوم کو جو سرپرست ملے وہ قائد کے بقول کھوٹے سکے
تھے۔ ان کوتاہ بینوں سے یہ ملک سنبھالا نہ گیا۔ نہرو کی دھوتی دیر سے بدلتی
تھی اور یہاں کی حکومتیں اس سے بھی پہلے بدل جاتی تھیں۔خلا کبھی خلا نہیں
رہتے۔ فوج نسبتاََ زیادہ منظم اور طاقتور ادارہ تھا۔جب ایوب خان کو بطور
وزیر دفاع ملکی سیاست میں رگیدا گیا توگویا فوج کی سیاسی معاملات میں
مداخلت کی راہ ہموار ہو گئی۔ایوب کے مارشل لاء نے ہمیں منگلا اور تربیلہ
جیسے تحفے دئیے۔معاشی ترقی کا ایک سنہرا دور لیکن فرد کی حکمرانی تھی جس کی
نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی معاشرہ۔لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کر کے
انہیں روٹی دے دینا معاشرے کی توڑ پھوڑ کا باعث بنتا ہے۔ اس مارشل لاء کی
وجہ سے ہم اپنا ایک بازو کٹوا بیٹھے۔پھر یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور اس
کے بعد مشرف،فرد واحد کی حکمرانی کی بدترین مثالیں ہیں۔ان تینوں ادوار میں
ہمیں کیا کیا تحائف ملے ان پہ بہت سی کتابیں لکھی جا چکیں جبکہ کچھ ابھی
لکھی جائیں گی۔جنرل کیانی نے قوم کی اس کسمپرسی اور بے بسی کا بر وقت ادارک
کیا اور بتدریج فوج کو سیاست سے دور لے گئے۔پاکستان کل قوموں کی تاریخ میں
سرفراز ہوگا تو مورخ جنرل کا نام اس ملک کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے
گا۔معاشرے جبر استحصال اور ڈنڈے کے زور پہ تعمیر نہیں کئے جا سکتے۔قانون ہی
کی حکمرانی ملکوں کو اقوام عالم میں ممتاز کرتی ہے۔فوج نے اپنی مرضی سے
اپنے اختیارات سویلین حکمرانوں کو منبتقل کئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ
فوج کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ایک جج صاحب نے عدالتوں میں بلا کے
سینئر فوجی افسران کی تزلیل کو وطیرہ بنا لیا لیکن جنرل کیانی نے کبھی صبر
کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔گو کہ اس ٹیوب میں کئی پنگچر ہیں لیکن سول
حکومت کا پہیہ بہرحال رواں ہے۔جنرل راحیل کا انتخاب بھی درست سمت کی طرف
اگلا قدم ہے۔
جنرل کیانی کے ان اقدامات کی وجہ سے فوج نے عوام کی نظروں میں اپنی عزت اور
وقار بحال کیا۔لوگ اب فوج اور فوجیوں کی عزت کرتے اور ان سے پیار کرتے ہیں۔
دشمن کے راتب پہ پلنے والے اور امن کی بھاشا بھونکنے والے چند ہی ہیں جنہیں
ساری برائی کی جڑ فوج ہی نظر آتی ہے لیکن اس ملک کے عوام کو ایک ریاستی
ادارے کے طور پہ اپنی فوج سے بڑا پیار ہے۔جنرل مشرف کا معاملہ اس پیار میں
دوبارہ سے دراڑ ڈال رہا ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ فوج جنرل کو بلاوجہ
سہارا دے رہی ہے۔ انہیں اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنا چاہئیے۔ جنرل مشرف
نے کسی انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ آئین بچاتا تو ملک جاتا تھا اور ملک
بچاتا تو آئین کی قربانی ناگزیر تھی۔جنرل کے وکلاء کو اپنا کیس اسی ایک
دلیل پہ لڑنا چاہئیے۔ان کے وکلاء کا رویہ اور فوج کے ادارے اے ایف آئی سی
میں ان کا مورچہ ادارے کو بدنام کر رہا ہے۔ فوج میں اپنے سینئر کے لئے محبت
تواضح اور احترام بہت ہوتا ہے لیکن فوج کے اربابِ حل و عقد یہ بات بھی اچھی
طرح جانتے ہیں کہ ادارے افراد سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔فوج انگوٹھا رکھنے کا
اپنا انداز پہلے ہی سرینڈر کر چکی۔اب اسے دوبارہ استعمال سوائے بدنامی کے
اور کچھ نہ لا سکے گا۔جنرل مشرف کو بھی یہ بات ضرور سوچنی چاہئیے کہ ان کی
وجہ سے ان کا ادارہ بدنام ہو رہا ہے۔ فوجی تو اپنی سیکشن کی بدنامی برداشت
نہیں کرتا جبکہ آپ کا تعلق تو فوج کے ماتھے کے جھومر کمانڈوز سے ہے۔ ٓپ کی
وجہ سے فوج پہ پھبتیاں کسی جا رہی ہیں ۔انہی احترا م اور محبت کو امتحان
میں نہیں ڈالنا چاہئیے۔مشرف کے وکیل اس مقدمے کو سیاسی بنا کے مشرف کو نفرت
اور ہٹ دھرمی کا نشان بنا رہے ہیں۔انہیں چاہئیے کہ وہ اپنی لیگل ٹیم تبدیل
کر کے اپنے مقدمے کے لئے پیشہ ور وکلاء کی خدمات حاصل کریں۔فوج کو بھی جلد
از جلد اس کبل سے جان چھڑانی چاہئیے ورنہ عاشقی میں عزت سادات جانے کے لٹنے
کے پورے امکان موجود ہیں۔
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں |