راقم الحروف 1974ء میں لاہور میں
منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران طالب علم تھا۔ میں نے صبح کلاس
جانے کے بجائے بادشاہی مسجد لاہور کا رخ کیا بس کے زریعے بادشاہی مسجد تک
پہنچا ،مسجد کے مین دروازے سے مسجد کے برآمدے فرش سے 3فٹ کی اونچائی پر
شرکائے اسلامی سربراہ کانفرنس کے مندوبین کے لیے راستہ بنایا گیا تھا، اسی
روز میں نے سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے معمر قذافی ، یوگنڈا کے عیدی
امین، بنگلادیش کے شیخ مجیب الرحمن، فلسطین کے یاسر عرفات، اردن کے شاہ
حسین، مصر کے انورالسادات جیسے رہنماؤں کو دیکھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ،
شاہ فیصل ، معمر قذافی، عیدی امین تب عالم اسلام کے جر اور نڈر رہنما تصور
کیے جاتے تھے۔ پاکستان سے کافی شکایات کے باوجود شاہ فیصل جناب ذوالفقار
علی بھٹو اور معمرقذافی کی خواہش پر اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ بادشاہی
مسجد میں پہلی صف میں سرجھکائے بنگلا دیش بن جانے کے دکھ اور عالم اسلام کو
یکجا کرنے کی خواہش لیے اور آنکھوں میں آنسو لیے شاہ فیصل پاکستان کے لیے
فکر مند نظر آئے۔دوسری طرف قذافی یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف اپنے غصے
کا اظہار ہر مجلس میں کرتے نظر آتے۔ معمر قذافی گلبرگ میں قائم اسٹیڈیم میں
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ہمرا پہنچے تو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا
سمندر دیکھ کر انہوں نے مسرت کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں ہاتھ
دے کر فضا میں بلند کیا۔ اسی روز جناب ذوالفقار علی بھٹونے اس اسٹیڈیم کو
معمر القذافی کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا، آج ہر شخص اس اسٹیڈیم کو
قذافی اسٹیڈیم کے نام سے جانتا ہے۔ مذکورہ چاروں رہنما جو عالم اسلام کی
رہنمائی کادرد رکھتے تھے ، آج دنیا میں نہیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں
سے در گزر فرمائے۔
بھٹو کے خلاف تحریک جس کو تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا تھا، کے دوران
اس وقت کے سعودی سفیر عزت مآب ریاض الخطیب نے بڑی کوششوں سے پیپلزپارٹی اور
پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کو ایک میز پر بیٹھنے پر رضامند کیا مگر
نادیدہ قوتوں نے اس عمل کو ناکام بنادیا۔
پاکستان اسلام کا قلعہ اور ایٹمی ملک ہے جس کی افادیت اور اہمیت سے کوئی
انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی لابی نے پاکستان کو اپنی سازشوں کی
آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ پاکستان کو جغرافیائی ، نظریاتی اور معاشی طور پر
تباہ کرنے کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے کبھی فوج کو بدنام کرنے اور کبھی
اسلام اور مذہبی طبقے کے خلاف اقدامات کے لیے امداد دی جاتی ہے، مختلف
ممالک کی ایجنسیاں پاکستان کو مفلوج کرنے کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم
کیے ہوئے ہیں، این جی اوز کے ذریعے آنے والا سرمایہ پاکستان کی جڑوں کو
کھوکھلا کررہا ہے۔ان حالات میں پاکستان کو دوستوں کی تلاش ہے، ماضی کی بعض
غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کے دوستوں میں کمی ائی ہے اور پاکستان کو نہتا
اورتنہا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر منظم طریقہ پر کام ہوا ہے۔
ان حالات میں ملک کو نظریاتی اور معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے موجودہ
حکومت نے سفارت کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی ممالک سے رابطے شروع کیے
اور ان ممالک نے تعاون کا ہاتھ بڑھایا، جن میں سعود عرب ، چین ، ترکی اور
دیگر ممالک شامل ہیں۔
سعودی ولی عہد سلمان بن عبد العزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا ،
انہوں نے دفاعی شعبے میں دو طرفہ تعاون پر اتفاق کیا، پاکستانی مصنوعات کو
اپنی مارکیٹ تک رسائی دینے کی یقین دہائی کرائی، شام ، فلسطین، کشمیر اور
افغانستان سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے کے معاملات پر
بھی بات کی۔ اس موقع پر سعودی فنڈ برائے ترقی کی جانب سے چترال کے لئے
58ملین ڈالر کا معاہدہ بھی طے پایا، جبکہ اس کے علاوہ سعودی عرب میں مقیم
پاکستانی سالانہ 4ارب ڈالر سے زائد ترسیل زر کے ذریعے ملکی معشیت کے
استحکام میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ماضی میں بھی سعودی حکومت نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہر طرح
کا تعاون کیا۔ زلزلہ ، سیلاب، قحط اور دیگر قدرتی آفات کے موقع پر تعاون
کرکے برادرانہ رشتے کو مضبوط کیا۔ مرحوم شاہ فیصل کے دور اقتدار سے لے کر
آج تک پاکستان کے ساتھ دوستانہ ماحول کو فروغ حاصل ہوا۔ سابقہ کچھ حکومتوں
کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جو ایک خلا پیدا ہواتھا اس کو پر کرنے کے لیے
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام بردار اسلامی کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو
مضبوط کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ سعودی امداد پر بعض پاکستانی سیاست دان پریشان کیوں ہیں
اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں۔ ایک لیڈر نے فرمایا کہ قوم کو سعودی امداد کے
حوالہ سے بتایا جائے، مجھے تعجب ہوا کہ لیڈر صاحبان تو الیکشن جیت کر
اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اب وہ عوام کو کیسے یاد کررہے ہیں حالانکہ عوام
کو صرف الیکشن کے ایام میں یاد اور شکل دکھائی جاتی ہے۔
ہمارے ان مہربان سیاست دانوں نے آج تک پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد
کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا کہ یہ نام نہاد امداد کن شرائط پر اور کن
مقاصد کے تحت دی جاتی ہے۔ انہوں نے جنرل پرویزمشرف کی جانب سے ڈالروں کے
عوض ملک کی افغانستان پاکیسی اور کشمیر پالیسی کو ہی نہیں بلکہ قوم کی
بیٹیوں کو بھی فروخت کرنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ انہیں امریکی ڈالروں کے
حصول کی خاطر لال مسجد آپریشن اور قبائلی علاقوں میں کارروائیاں کرنے پر
کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ انہوں نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ این جی اوز کو
بیرون ممالک سے بے بہا فنڈ کس محبت میں مہیا کیا جاتا ہے؟ این جی اوزکے
بجائے عوام الناس کی ترقی کے لیے حکومت کو فنڈ کیوں نہیں دیے جاتے؟ آج تک
جتنے بھی بیرون ممالک سے قرضے لیے گئے اس سے عوام الناس کی زندگیوں پر کیا
اچھے اثرات مرتب ہوئے؟ تھر میں موت کا جن کیوں ناچا، کس لیڈر نے اپنی جیب
سے ان غریبوں کی امداد کی؟ ایسے موقع پر بھی سعودی عرب نے دست تعاون بڑھایا
اور تھر کے لوگوں کی ساتھ تعاون کیا۔ کیا لیڈروں کو اس پر بھی اعتراض ہے
کبھی برطانوی اور فرانسیسی امداد پر بھی یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں جو سعودی
عرب امداد کے حوالے سے اٹھائے جارہے ہیں۔ شاید امریکی ڈالروں میں ایسا جادو
ہے کہ اس سے زبان اور آنکھیں بند ہوجاتی ہیں اور پاکستانی غیرت و حمیت کو
زنگ لگ جاتا ہے اور سعودی امداد پر بے غیرت بریگئیڈ پر بھی ’’ قومی غیرت ‘‘
غالب آجاتی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ اسلام 27مارچ 2014ء) |