وہ 2 مارچ 1972ءکو کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8
سال کی عمر تک زیمبیا میں زیرِتعلیم رہیں۔ اس کے بعد کراچی میں انہوں نے
ثانوی تعلیم مکمل کی۔ بعدازاںامریکاکے جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ زیرِ
تعلیم رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس گئیں اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
2002 ءمیں پاکستان واپسی آئی مگربدقسمتی سے یہاں انہیں ملازمت نہ مل سکی
اور وہ تلاشِ معاش میں امریکا چلی گئی ۔ ان دنوں امریکا کے میریلینڈ میں
ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003 ءمیں کراچی واپس آ
گئیں۔امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ القاعدہ
سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ٹھیک گیارہ سال
قبل 30 مارچ 2003 ءکو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں
ہوائی اڈہ کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں
سمیت انہیں اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 30
برس تھی ۔ان کے بڑے بیٹے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے بچے کی بمشکل ایک
ماہ۔
قارئین کرام !درج بالا تعارف سے سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ کس کی
داستانِ دل گداز ہے؟کون بد نصیب اپنے حکمرانوں کے بے حسی اور خود غرضی کے
ہاتھوں اپنے پھول جیسے بچوں کی جدائی سہنے پر مجبور ہوئی اورجسے گھر بار سے
الگ ہوکر ظلم و ستم جھیلنے امریکی زندانوں میںپہنچنا پڑا۔
جی ہاں !یہ اس قوم کی بیٹی کی کہانی ہے جو متحدہ برصغیر پر ہزار سال حکومت
کرچکی ،یہ حکایت اس ملک کی شہری کی ہے جو ایٹمی قوت کہلوانے کی دعویدار ہے
۔جی ہاں !یہ دختر ِپاکستان عافیہ صدیقی کا تعارف ہے ۔
گیارہ سال قبل قوم کی بیٹی بیچ دی گئی جب اس قوم کو پرویزمشرف نامی آمر سے
پالا پڑاتھا جو اپنے ہی ہم وطنوں کو مکا دکھا کر کہا کرتا تھا”میں کسی سے
نہیں ڈرتا ۔“پرویز مشرف کے اقتدار سے الگ ہوا ۔ پیپلز پارٹی کادور بھی گزر
گیا ،عافیہ کی رہائی منشور کا حصہ بنانے والے نون لیگ کی حکومت کو بھی سال
ہونے والا ہے مگر عافیہ کی زیست میں موجود خزاں کی رت بدلنے کا نام لے رہی
نہ بہارِتازہ کی آمد کی کوئی دور دور تک امکانات ہے۔ فیض احمد نے کہا تھا
”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا “
حکومت ِوقت بھی اسی صورتِ حال کا شکا ر ہے لہذا نہیں کہا جاسکتاکہ حکومت ان
کی رہائی کیلے کچھ کرے گی البتہ قوم آج ان سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک
بھرمیں مختلف تقریبات منعقد کرے گی ۔
اے عافیہ بہن !قید و بند کے گیارہ سال مکمل ہونے،اپنوں کی جفا، غیروں کے
ستم سہنے سہتے ایام ِحیات کاٹنے پرہم آپ کی ہمت و برداشت کو سلام پیش کرتے
ہیں اور آپ سے اپنی اس بے بسی کا برملااظہار کرتے ہیں جس کے باعث آپ اتنا
طویل عرصہ تک پابند سلاسل ہیں۔
عافیہ بہن !ہمیں معاف کرنا ہم میں امریکا جیسی ہمت نہیں کہ آپ کوریمنڈڈیوس
کی طرح اٹھارہ کروڑ عوام کے درمیان سے اچک کر لے جائیں ۔ہم آج تلک یہ ہمت
بھی نہیں کرسکے کہ امریکا سے یہ کہہ سکتے کہ ہمارے بے گناہ شہریوںپر ڈرون
حملوں سے باز آجاﺅ، تو ہم آپ کی رہا ئی کیلے کیاکرپائیںگے ۔عافیہ بہن
خاموشی سے مظالم سہتی رہو کہ اب کوئی ا بن قاسم نہیں آنے والا ۔ |