ہمارے ہاں نجی ادارے قلیل سرمایہ،
مختصر انفرا سٹر کچر اور محدود افرادی قوت کے حامل ہونے کے باوصف قدرے نفع
بخش ثابت ہوتے ہیں اور بسااوقات چند ہی برسوں میں معروف و مقبول ہوجاتے
ہیں۔بطور مثال ملک کے نامور تعلیمی اداروں پر نگاہ ڈالیے۔ بیشتر کا آغاز
ایک چھوٹے سے اسکول کی صورت ہوا، چند ہی برسوں میں ا سکی شاخیں ملک بھر میں
پھیل گئیں ۔ پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے آغاز کی صورت یہ ادارہ پی ایچ
ڈی تک تعلیم فراہم کرنے لگا۔صف اول کے بیشتر تعلیمی ادارے کم و بیش اسی پس
منظر کے حامل ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ہر شعبہ میں یہی احوال ہیں۔ جبکہ
سرکاری سطح پر صورتحال قطعی برعکس ہے۔ بھاری بھر کم سرمائے، بہترین
انفراسڑکچر اور لا محدود افرادی قوت کے باوصف سرکاری ادارے ترقی کی منازل
طے کرنے کے بجائے زوال کیجانب گامزن ہوتے ہیں اور آخر کار سفید ہاتھی بنے
سرکاری خزانے اور عوام الناس کے ٹیکس کے محتاج بن جاتے ہیں۔ وجہ بے حدسادہ
ہے۔نجی ادارے فرد یا افراد کے ذاتی سرمائے کی بدولت قائم ہوتے ہیں۔ سو تمام
ادائیگیوں اور جمع خرچ پر نگاہ رہتی ہے۔ انتہائی ضرورتا ملازمین بھرتی کیے
جاتے ہیں اور ان کے اوقات کار، اخلاص نیت، احساس ذمہ داری اور کارکردگی
پرپیہیم توجہ مرکوز رہتی ہے۔ چپراسی سے چیف ایگزیکٹو تک کی نوکری اور
تنخواہ اچھی کارکردگی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نظم ،
نگرانی اور جوابدہی کے نظام کے تحت چلنے والا ادارہ خود بخود اچھے نتائج کا
حامل مضبوط اور نفع بخش ادارہ بن کر قائم رہتا ہے۔ دوسری جانب سرکاری
اداروں پر چونکہ حکومتی خزانہ صرف ہوتا ہے ، سوکسی کو ادارے کی فلاح و
بہبود اور ناموری سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ سرمائے کے اسراف یا نقصان کے
حوالے سے کسی کے دل میں کوئی درد ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نگرانی کی ضرورت
محسوس کی جاتی ہے۔ سرکاری ملازم نظم و ضبط، نگرانی ، گرفت اور جوابدہی کے
آزار سے آزاد ہوتا ہے۔ عام طور پر منتہائے مقصود فقط تنخواہ و مراعات کی
وصولی ہوتی ہے ۔سو مال مفت ، دلِ بے رحم کے مصداق معاملات چلتے رہتے ہیں
اور رفتہ رفتہ سرکاری ادارہ سفید ہاتھی بن جاتا ہے۔ ۔نجی اداروں میں
استحصال و زیادتی بھی نوکری کا حصہ گردانتے ہوئے برداشت کی جاتی ہے۔ جبکہ
سرکاری اداروں میں اثرو رسوخ ،جوابدہی سے استشناء اور کبھی جاب سیکورٹی
جیسے عناصر، ملازمین کو احساس ذمہ داری اور عمدہ کارکردگی سے گریزاں رکھتے
ہیں۔ ایسے میں کسی بھی ادارے کا رو بہ زوال ہونا قدرتی امر ہے۔ ڈاکٹروں کی
ہی مثال لیجیے ، وہ ڈاکٹر زجو سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن ٹھیٹرزکو تالے
لگائے ،سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں، نجی ہسپتالوں اور ذاتی کلینک
پر قطعی مختلف طرز عمل اپنائے مہذب ، ذمہ دار اور اوقات کار کے پابند نظر
آتے ہیں۔ نجی اداروں میں نہ تو کلرکوں کا قلم چھوڑ احتجاج دکھائی دیتاہے
اور نہ ہی ڈرائیوروں کی پہیہ جام ہڑ تالیں۔ افسران عدالتوں کا رخ کرتے ہیں
اور نہ ہی ملازمین مالکان کے خلاف سراپا احتجاج نظرآتے ہیں ۔ہمارے بیشتر
سرکاری ادارے روبہ زوال ہیں اورخسارے کا شکار ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، ڈاک،
اسٹیل ملز، نشریاتی و دیگر ادارے حکومت کو آمدن فراہم کرنے کے بجائے سرکاری
خزانے اورعوامی محصولات پر چل رہے ہیں ۔ اعلیٰ عہدوں پر نا اہل افراد کی
تعیناتیاں ، مالی بد عنوانیاں، احتساب اور جوابدہی سے استثناء، میرٹ کی پا
مالی اور سیاسی غلط بخشی جیسے عوامل ہمارے سرکاری اداروں کو دیمک کی طرح
چاٹ چکے ہیں۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پی آئی اے کی خستہ حالی کے
پیش نظر، اس کے 26 ٖفیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دی ۔ واضح ہو کہ پی آئی
اے کو چلائے رکھنے کے لیے ہر ماہ تین ارب روپے حکومتی خزانے سے ادا کیے
جاتے ہیں۔ یعنی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری و اثاثہ جات کا حامل ادارہ ،جو
ہرماہ ملازمین کو کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کرتا ہے، حکومت کو
منافع دینا تو کجا ، الٹا ہر ماہ تین ارب روپے وصول رہا ہے۔ یہ و ہی پی آئی
اے ہے جسے دنیا بھر کی ائیر لائنوں میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ اس نے بہت سے
ممالک کی ائیر لائنوں کے قیام اور تر بیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ہمارے
پائیلٹوں اور انجینئروں نے متحدہ عرب امارات ائیر لائن کی داغ بیل
ڈالی۔آغاز کارپی آئی اے سے دو طیارے لیز پر حاصل کر کے ہوا ۔ آج یہ 200 سے
زائد طیاروں کی مالک ہے اور دنیا بھر میں انتہائی کامیاب اور منافع بخش
گردانی جاتی ہے۔ جبکہ خود پی آئی اے کا حال قابل صد افسوس ہے۔
گرچہ دنیا بھر میں سرکاری اور ریاستی اداروں کونجکاری کے ذریعے منافع بخش
بنانے کا رحجان تقویت پکڑ چکاہے۔ ماضی میں ہمارے ہاں بھی یہ تجربہ کسی حد
تک کامیاب رہا۔ پی آئی اے کی تباہ حالی کے تناظر میں اسکی جزوی نجکاری
بہترین فیصلہ ضرور ہے۔ مگر میری رائے میں تمام تر فائدہ مندی کے با وصف ،
نجکاری کسی بھی حکومت کی آخری تر جیح ہونی چاہیئے نہ کہ اولین۔ہمارے ہاں کم
و بیش تمام سرکاری اداروں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔یعنی ان سب کی نجکاری کر
دی جائے؟ اور انہیں ملکی یا غیر ملکی افراد یا کمپنیوں کی تحویل میں دے
دیاجائے؟ مسلم لیگ (ن) بر سر اقتدار آنے سے قبل گڈ گورننس، میرٹ اور شفافیت
کے دعوے اور وعدے کرتی رہی ہے۔پہلی کاوش کے طورپر اچھے چیف ایگزیکٹیو اور
منتظمین کی تعیناتی کر کے اصلاح احوال کی کاوش کی جانی چاہئیے تھی۔ آغازکار
میں ہی پی آئی اے جیسے اہم قومی ادارے کی نجکاری حکومت کی پسپائی اور شکستہ
پائی کی مظہر ہے ۔بہتر ہوتا اسقدر اہمیت کا حامل ادارہ کامل حکومتی تحویل
میں رہتا اور عمدہ منصوبہ بندی اور نگرانی کے ذ ریعے اسکی سازگاری اوربحالی
ممکن بنائی جاتی۔ قوت ارادہ اور اخلاص نیت ہو تو کچھ بھی خارج از امکان
نہیں۔
اس معاملہ کا ایک اہم پہلو ضرور زیر بحث آنا چاہیے۔ پی آئی اے کی بربادی کی
بڑی وجہ نااہل اور سیا سی بھر تیاں ہیں۔ یوں تو گذشتہ دو دہائیوں میں پی
آئی اے کی بربادی کا اہتمام کیا گیا ۔مگر خاص طور پر پی پی پی کا گذشتہ دور
حکومت بے انتہا کرپشن کا حامل تھا۔ تھوک کے حساب سے سیاسی بھرتیاں اور
مالیاتی بد عنوانیاں کوئی مخفی امر نہیں ۔ جلسے جلوسوں میں کرسیاں لگانے
والے عام جیالے بھی پی آئی اے جیسے اداروں میں لاکھوں روپے ماہانہ پر بھرتی
کیے گئے۔ میٹرک فیل اور فقط گریجوئیٹ اعلی ٰ ترین عہدوں پربراجمان رہے۔ اس
5سالہ دور حکومت میں دیگر اداروں کی طرح پی آئی اے کو بھی ذاتی اور
کاروباری فوائد کے حصول کے لیے کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
برسراقتدار آنے سے قبل میاں نواز شریف ، نجی مجالس اور عوامی جلسوں میں پی
پی پی حکومت کی بد عنوانیوں پرانتہائی رنج اور تشویش کا اظہار کرتے ، بر سر
اقتدار آنے کی صورت کڑے احتساب کے لئے پرعزم رہے ہیں۔ اب اس عزم کی صورت
گری ہونی چاہیےے۔ سیاسی مفاہمت اور اقدار کی سیاست کا طرز عمل قابل تحسین
سہی ، مگر بہرصورت جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ ،احتساب اور جوابدہی کے متقاضی
ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ صائب سہی،مگر ماضی میں ہونے والی ادار ہ
جاتی بد عنوانیوں کا حساب اور کھربوں کی وصولی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
جس سے صرف نظر قطعاً نامناسب اورملک و قوم سے نا انصافی کے مترادف ہو گا۔ |