انسانیت کی بعثت کے متصل بعد اﷲ
تعالٰی نے انسان کی رہبری و راہنمائی کے لیے انبیا علیہ السلام کو دین حنیف
کا علم حق تھما کر مبعوث فرمایا ۔انبیا اپنے اپنے زمانے میں اپنی قوم کی
دین متین کی جانب اور راہ حق کی طرف راہنمائی کرتے رہے ۔یہ سلسلہ کم بیش
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں تک جاری رہا۔یہاں تک کے کائنات کے آخری نبی و
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاگیا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تاقیامت
تک کے لیے تمام جہانوں کی قیادت سونپی ۔ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اﷲ
نے نبوت و رسالت کے سلسلے کو مکمل فرمادیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی
نبی و پیغمبر یوم حساب تک نہیں آئے گا۔اب یہ دین حق تاقیامت تک رہنا ہے اور
اس دین کو تمام ادیان کے اوپر غالب بھی رہنا ہے ۔اسی پس منظر میں اﷲ کے
محبوب پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ ’’اخرج الیھود والنصار من
جزیرۃ العرب‘‘کہ جزیرہ عرب سے یہود ونصاری کو بے دخل کردیں۔آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے اس فرمان پر حضرت عمر فاروق ؓ نے عمل کرتے ہوئے یہود و نصاری کو
مکہ و مدینہ سے بے دخل کردیا۔اس امر میں نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکمت
یہ تھی کہ اسلام کامل و اکمل دین ہے ،اب اس میں کمی بیشی کی کوئی ضرورت
نہیں رہ گئی ۔اور یہود ونصاری کی فطرت میں منافقت و انتشار وافتراق کو فروغ
دینے رچا بسا ہوا ہے۔
موجودہ صورت حال میں دیکھیں تو اﷲ نے مسلمانوں کو اسلام کے ساتھ وابستگی کا
اعزاز عطاکیا گیا،اورتمام انسانوں میں مسلمانوں کو ممتاز بنایا ،اور ان سے
مطالبہ کیا کہ اب تا قیامت اسلام کو اپنے لیے فخرواعزاز قراردیتے ہوئے
اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں ۔مگر مرور زمانے کے ساتھ معاشرہ نے اسلام کی
حقیقی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرلی گئی۔ یہاں تک کہ خلافت اسلامیہ کا
خاتمہ کرکے امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیاگیاجس میں مرکزی کردار آل
سعود کا رہا۔جزیرۃ العرب میں محمد بن عبدالعزیز نے آل سعود کی حکومت قائم
کرلی،اب صورت حال اس قدر بدل گئی ہے کہ وہی بلاد مقدس جہاں سے حضورنے یہود
ونصاری کو بے دخل کرنے کا حکم دیا تھا انہیں کو آل سعود نے از سرنو داخل
ہونے کی اجازت دے دی،گویا کہ آل سعود نے اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ان
رہزنوں اور بھیڑیوں کو مکہ و مدینہ میں پناہ دے رکھی ہے۔
صرف اسی پر آل سعود نے اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے خون چوسنے اور ان
کو قتل کرنے کا موقع ان کفار کو
عطاکیا۔افغانستان،عراق،فلسطین،کشمیر،مصر،لیبیااور شام میں مسلمانوں کے قتل
عام میں مسلمانوں کے ازلی وابدی دشمنوں کا ساتھ دیا۔مصر اور شام میں سعودیہ
کا موجودہ شرمناک کردار دیکھتے ہوئے کوئی شک شبہ نہیں کہ یہ آل سعود یہود و
نصاری کی خوشنودی میں اسرائیل ،امریکہ ،ایران و اسلام دشمن تمام قوتوں کے
اعلی کار بن چکے ہیں۔مصر میں سفاک درندے سیسی کی خطیر رقم کے ساتھ حمایت نا
صرف خود کی بلکہ امارات و کویت کوبھی اپناشریک جرم بنایا۔اور اب حال ہی میں
قطر پر تمام خلیجی ممالک نے مختلف پابندی اس بنیاد پر لگائیں کہ وہ شام و
مصر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کر رہاہے ۔اور سعودی عرب نے اسلام پسند خالص
اسلامی امن پسند تحریک اخوان المسلمون پر پابندی اسلام دشمنوں کی خوشنودی
کے لیے لگادی گئی۔
اب آل سعود نے ملت اسلامیہ میں انتشار وافتراق میں بانٹنے کے لیے اپنی
تجوریوں کامنہ کھولتے ہوئے علما و حکمرانوں پرعمرہ اور مالی امداد کی لالچ
کو بطور ہتھیار کے استعمال کرناشروع کردیا ۔ پاکستان کو حالیہ بھاری بھر کم
امدادجاری کی اس کا سبب معلوم اب تک نہیں ہوسکا۔اندازہ یہ لگایاجارہاہے کہ
اس رقم کے بدلے میں پاکستان میں غیر مقلدیت کو فروغ دینے کی سازش کی جارہی
ہے ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس امداد کے بدلے میں اسلامی یونیورسٹی میں خالص
اہل حدیث و غیر مقلد فرقے کو فروغ دینے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔اس سلسلے
میں اول مرحلے میں عمرہ جیسی نیک عبادت کو طلبہ و اساتذہ اور ملازمین میں
بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ کرنے ،دوسرے مرحلے میں غیر
مقلد اساتذہ کی بھاری بھر مقدار میں تعیناتی اور اسی کے ساتھ ہی من پسند
طلبہ کی مکمل فیسیں معاف کرکے ان کی ہمدردی وحمایت حاصل کی جارہی ہے۔
اگر یہ اندازے درست ہیں تو یاد رکھیں کہ ملک پاکستان کی عوام جو کہ پہلے ہی
سے سیاسی ومذہبی فرقہ بندیوں میں تقسیم ہے یہ امر اس جلتی پر تیل کاکام کرے
گا ،ظاہر بات ہے کہ ہماراملک اس انتھاپسندی و فرقہ پرستی کو برداشت کرنے کا
متحمل نہیں ہے اور اسلامی یونیورسٹی کا جو امتیاز تھا کہ یہاں سے اسلام کے
حقیقی و معتدل ترجمان تیار کیے جائیں یہ اب نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی یہاں
سے ملت اسلامیہ کو متحدکرنے والے افراد اسلام کے داعی پیداہوں گئے۔سعودیہ
عرب اپنے اسلام و مسلمان دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور مکہ و مدینہ کی
نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے تمام کفار کی سازشوں میں شاکت داری سے اجتناب کرتے
ہوئے ملت اسلامیہ کی وحدت کے لیے اپنی ذمہ داری کو اداکریں۔ملک پاکستان
سمیت سارے عالم اسلام کو کسی فرقہ کی آماجگاہ بنانے سے اجتناب کریں بصورت
دیگر روز قیامت اﷲ کے حضور ندامت و ذلت کا سامناکرناپڑے گا۔اسلامی
یونیورسٹی میں صرف اپنے مخصوص نظریات کو فروغ دینے کی بجائے علم دوستی کا
ثبوت دیتے ہوئے مسلک پرستی کو فروغ دینے سے احتراز کرے۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ملک پاکستان اور خاص طور پر اسلامی یونیورسٹی کو
فرقہ پرستی و تشدد پسندی سے پاک کریں اور اگر سعودیہ اپنی امداد کے عوض ملک
کو اس دلدل میں دھکیلنے کی خواہش رکھتے ہے تو ان کی امداد واپس کرتے ہوئے
ان کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے سے صاف انکار کردیں اور پاکستان میں
بہتر نئی نسل کو پرورش دینے کے لیے اسلامی یونیورسٹی کے تمام داخلی و خارجی
امور پر دیانت داری کے ساتھ نظر رکھیں،اس یونیورسٹی کو کسی ایک سیاسی و
مسلکی گروہ پسندی میں فروغ دینے کی ہمہ جہت مذمت کرتے ہوئے ان کو ششوں پر
پابندی عائد کریں۔ موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں اس اہم امر پر غور
وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ اسلام و پاکستان کی حفاظت ہر باشعور مسلم پر
لازم ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی روز محشر گرفت کا سبب بن جانے کا
ذریعہ ہوگا۔ |