لشکر جھنگوی کی دھمکی کے بعد بلاول بھٹو محتاط ہوگے۔
انہوں نے اپنا دورہ پنجاب التواء میں ڈالدیاہے۔اور پنجاب حکومت کو خبردار
بھی کر دیا ہے کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اسکی ذمہ دار پنجاب حکومت ہوگی
کیونکہ لشکر جھنگوی کی پشت پناہی پنجاب حکومت کر رہی ہے۔اور لشکر جھنگوی کے
خلاف کارروائی کرنے سے گریز کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔جس پر پنجاب کے
وزیر اعلی شہباز شریف کی جانب سے پنجاب پولیس کے سربراہ کو ہدایت کی ہے کہ
وہ بلاول بھٹو زرادری سے رابطہ کرکے انہیں دھمکی آمیز خط ملنے کی تحقیقات
کریں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پنجاب پولیس کے سربراہ نے بلاول بھٹو زرداری
سے رابطہ کیا ہے کہ نہیں ……اگر رابطہ کیا گیا ہے تو کیا بلاول بھٹو نے
انہیں موصول ہونے والا دھمکی آمیز خط دکھایا ہے کہ نہیں……ہاں ابھی یہ بات
بھی غور طلب ہے کہ پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے بلاول سے ٹیلی فونک
رابطہ کیا گیا ہے اور یہ رابطہ آئی جی پنجاب کے ایک افسر نے ٹیلی فون کرکے
بلاول بھٹو سے معلومات حاصل کی ہیں-
بلاول بھٹو کے اس موقف کو کہ ’’اگر پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی
نہ کی گئی تو چھوٹے صوبے غیر محفوظ رہیں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب ایکشن
لے‘‘ وزیر اعلی پنجاب کے فرزند اکبر اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف
نے بلاول بھٹو کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور انہیں( بلاول بھٹو) کو نصیحت کی ہے
کہ وہ بچگانہ باتیں نہ کریں اور بلاول تھر کے لوگوں کو بچائیں دہشت گردی
جیسے معاملات پر سیاست نہ کی جائے‘‘ اس کے علاوہ حمزہ شہباز نے بلاول بھٹو
کی درازی عمر کی بھی دعا کی ہے ۔حمزہ شہباز نے کہا کہ تھر میں بھوک افلاس
کے ہاتھوں لوگوں کے مرنے پر نواز شریف بھی سیاست کر سکتے تھے لیکن وہ خود
وہاں گے۔
بلاول بھٹو کو اپنی جان کی پرواہ کرنے کا پورا حق ہے۔اگر انہیں کسی طرف سے
دہمکی ملی ہے تو اسے سیاست کی آنکھوں سے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اسے خالصتا
سکیورٹی کے حوالے سے دیکھا اور لیا جائے۔ حمزہ شہباز کو بھی اپنی پنجاب اور
وفاقی ھکومت کی طرفداری کااتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ بلاول بھٹو کو اپنی
جان کی حفاظت کو یقینی بنانے کا حق ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی
پاسداری کرنی چاہئے نہ کہ توتو اور میں میں میں الجھتے پھریں……جب ان دونوں
کے ’’ بڑے ‘‘ 1990دہائی کے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو انہیں
بھی اپنے ’’بڑوں ‘‘کو فالو(Follow) کرنے کی ضرورت ہے۔
حمزہ شہباز کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ان اطلاعات کو بھی مدنظر رکھیں کہ
بلاول بھٹو کو سندھ کا وزیر اعلی بنایا جا سکتا ہے۔اور ایسے بات کے حق میں
آزیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سابق
صدر زرداری صاحب نے اپنے قریبی رفقائے کار سے مشاورت شروع کردی ہے۔سندھ کی
وزارت اعلی بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کرنے سے کئی ’’ چھوٹے منہ بڑی باتیں
‘‘کرنے سے بند ہوسکتے ہیں۔ میرا مطلب آپ سمجھ گے ہونگے …… بلاول کے کپتان
بننے سے ہا لہ شریف سے لیکر کشمور تک وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کے
خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو ’’ چپ ‘‘ لگ جائیگی۔
اسطرح ایک تو بلاول کو بیوروکریسی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاسل کرنے کا
موقعہ ملے گا اور دوسری طرف انہیں صوبے کی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے
اور سندھ کے عوام کی خدمت کرنے کے خواب کی بھی تعبیر ملے گی۔ اسی تناظر میں
میرا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز بلاول کے حوالے سے کچھ کہنے کی بجائے خاموشی کو
اختیار کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔حمزہ شہباز کی نسبت مریم نواز عقل مندی اور
دانش کا مظاہر کر رہی ہے۔
حمزہ شہباز ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ اگر بلاول سندھ کے وزیر اعلی
بن جاتے ہیں تو پنجاب آنے پر انکے والد محترم کو انہیں ’’جی آیاں نوں ‘‘
کہنے کے لیے لاہور ائرپورٹ پر تشریف لیجانی پڑے گی
اس صورت میں لاہور ائر پورٹ پر کیا منظر ہوگا؟ حمزہ شریف کو اس زاوئیے سے
بھی دیکھنا ہوگا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ ’’ بلاول
بھٹو زرداری شریف فیملی سے کہیں بڑھے قدکاٹھ رکھتا ہے۔
ہاں حمزہ شہباز شریف کو چاہئے کہ وہ پنجاب حکومت کے تمام ذمہ داران کو
ہدایات جاری کریں کہ وہ بلاول کی سکیورٹی کے حوالے سے تمام اقدامات کو
یقینی بنائیں۔اور ان کے دورہ پنجاب کے دوران انہیں چیف منسٹر کی سکیورٹی
دینے کی بھی ہدایت کریں……ورنہ بے نظیر کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے
نواسے کو پنجاب میں کوئی گزند پہنچی تو یہ نہ پنجاب کے حق میں بہتر ہوگا
اور نہ ہی پاکستان کے لیے سودمند…… حمزہ شہباز شریف بلاول کو دہشت گردی کے
حوالے سے سیاست نہ کرنے کی نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس نصیحت پر
عمل پیرا ہونا پڑے گا۔کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،ایک ہاتھ سے
نہیں…… اور میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ ایک ہاتھ سے
تالی بجتی ہو - |