انسانیت کا دشمن صرف وہی نہیں جو
کسی دوسرے کا حق مارتا ہے بلکہ ہر وہ فرد بھی اس زمرے میں آتا ہے جو اپنے
مفاد کو دوسروں پر ترجیح دے ۔ اگر ایک طرف مافیا نے لوگوں کا سکون غارت کیا
ہوا ہے تو دوسری طرف انصاف کی خاطر در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑتی ہیں۔
سائل کسی بھی قیمت پر اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے مگر بعض اوقات معاملات
زندگی میں کچھ ایسے بھی مقام آتے ہیں کہ حالات کے گرداب کے سامنے انسان بے
بس نظر آتا ہے۔ البتہ اگر ارباب اختیار انصاف کا بول بالا رکھیں تو سائل
کیلئے امید کی ایک کرن ضرور روشن ہو جاتی ہے۔ مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں کی
داد رسی کرنا ارباب اختیار کا نہ صرف اولین فرض ہے بلکہ ایک کار خیر بھی ہے۔
طرح طرح کے حالات کے مارے پریشان حال لوگ تھانوں، کچہریوں اور عدالتوں اور
دیگر سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں، بعض تو اپنوں کے ہی ستائے
ہوئے ہوتے ہیں اور بعض مافیا کے ڈسے ہوئے، اگر انکو انصاف کی خاطر روشنی کی
ہلکی سی بھی کرن نظر آئے تو انکی امید باندھ جاتی ہے۔ ورنہ اسی ڈگر پر چلتے
سالوں پہ محیط سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
البتہ ایسی بات نہیں کہ ان پریشانیوں میں گھرے لوگوں کو اپنے مسائل کا حل
معلوم نہ ہو بلکہ انکو وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ارباب اختیار تک کی رسائی
میں دشواری کا سامنا رہتا ہے ۔ ہر حاجت مند کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکے
معاملہ کوئی ذمہ دار اور دیانتدار فرد نبٹائے، اور اکثر اوقات خواہش ہوتی
ہے کہ انکی شنوائی اعلیٰ عہدہ داران تک ہو۔ اس طرح کے واقعات کم و بیش نظر
آئے ہیں ارباب اختیار نے ضرورت مند اور مظلوم کی داد رسی کا مناسب اہتمام
کیا ہو، کیونکہ ان سارے معاملات کو نبٹانے کیلئے ادارے موجود ہیں مگر پھر
بھی کچھ معاملات ماوراء ہوتے ہیں، یا پھر کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں جنکا حل
ضروری ہے اور ایسے عوامل کا تدارک بھی اسی صورت ممکن ہے کہ ارباب اختیار نے
اپنے دروازے عوام کیلئے کھلے رکھے ہوں، جہاں بے سروسامانی کا شکار سائل
اپنے معاملات کا حل پا سکے، جبکہ یہیں مثالی پن کی ایک جھلک نظر آتی ہے ۔
آج وزیراعلیٰ پنجاب کے قائم کردہ شکایت سیل میں بیٹھے، پورے پنجاب کے مختلف
علاقوں سے آئے ہوئے حاجت مندوں کا ایک جم غفیر دیکھا۔ ہر آنے والے کی داد
رسی کا فوری اہتمام ہوتا نظر آیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب میاں شہباز شریف
صاحب نے3 -کلب روڈ پر جو عوام کی شکایات کیلئے شکایت سیل قائم کیا ہے اس
میں مسائل کے فوری حل کیلئے تقریباً پنجاب کے ہر شہر سے آئے ہوئے لوگوں کا
ایک مجمع سا لگا ہوا تھا۔ کچھ لوگ کرسیوں پر براجمان تھے اور کچھ اپنی باری
کے انتظار میں کھڑے ہاتھ میں درخواست پکڑے آہستہ آہستہ ڈائریکٹر پبلک افیر،
جناب شاہد قادر صاحب کے میز کیطرف بڑھ رہے تھے، لوڈ شیڈنگ کے باعث کبھی
کبھی گرمی کا ماحول بھی ہو جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ روزہ داری بھی مگر مجھے
شاہد قادر صاحب کے ماتھے پر کوئی ناگواری یا شکن کے آثار نظر نہ آئی جبکہ
شکایات کا ایک انبار موجود تھا۔ ہر فرد کی خواہش تھی کہ اپنی شکایت کی
درخواست لیکر شاہد قادر صاحب کی میز کی طرف جائے اور اپنا مسلہ خود بیان
کرے۔ جبکہ شاہد قادر صاحب اپنی ذمہ داری بڑی تندہی سے سرانجام دے رہے تھے،
اور یہ واضع لگ رہا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ معاملہ
فہم بھی ہیں جو ساتھ ساتھ معاملات کو بخوبی نپٹا رہے تھے ۔ چندے کچھ تفتیش
کے ساتھ فورا معاملہ نوعیت بھانپ لیتے اور کچھ ضروری سوالات کرنے کے بعد
فوری حل کیلئے درخواست متعلقہ لوگوں کیطرف بجھوا دیتے، جبکہ ہر نئے والے
درخواست گزار سے تفصیلات پہلے سے ہی لی جارہی تھیں تاکہ معاملات جلدی
نبٹائے جا سکیں۔
میرے اک سوال پر بتلانے لگے کہ ہم ہر شکایت لیکر آنے والے کیلئے ایک جیسا
معاملہ رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ پریشان حال سائل جو کہ دور دور سے
آئے ہوئے ہیں انکو بار بار چکر نہ لگانے پڑیں۔ لہٰذا کوشش یہی کی جاتی ہے
کہ معاملات فوری سلجھانے کا اہتمام ہو۔ انکے ہر آنے والے کو خندہ پیشانی سے
ملنے پر مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اکثر لوگ اپنی بات منوانے کیلئے بضد بھی
ہوجاتے مگر انکے رویے میں ترشی دیکھنے میں نہ آئی۔ ایک صاحب فرما رہے تھے
کہ میں صرف جناب شہباز شریف صاحب سے ملنا چاہتا ہوں، ایس پی تک تو میں مل
چکا ہوں مگر کوئی شنوائی نہیں، اگر آئی جی صاحب تک میرا مسئلہ پہنچ جائے تو
پھر بات بنتی نظر آتی ہے، ابھی وہ صاحب بات کر ہی رہے تھے کہ اسی اثنا میں
انکی درخواست کے بارے میں، متعلقہ بات، آئی جی صاحب ہو رہی تھی، اس سائل نے
جناب شہباز شریف صاحب سے ملنے کا اصرار تر ک کردیا حالانکہ انکو کہا گیا کہ
اگر وہ پھر بھی ملنا چاہیں تو کوئی پابندی نہیں۔ یعنی ایک طرف فون بج رہے
تھے تو دوسری طرف سائل کی خواہش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معاملات بھی
نبٹائے جا رہا تھے۔ ایک صاحب جو کسی بیماری کی وجہ چلنے سے معذور تھے انکو
دو لوگ اپنے کندھوں کے سہارے لیکر آئے ہوئے تھے انکا معاملہ یہ تھا کہ ان
کا گھر کوئی ہتھیانا چاہتا ہے لہٰذا اسکے لئے بھی فوری حکم نامہ جاری کیا
گیا، اور اسی طرح ایک صاحب جو کہ غالباً جھنگ سے آئے ہوئے تھے انکو بھی
شدید پریشانیوں کا سامنا تھا اور اسکا بھی فوری حل نکالا گیا جس کے باعث
آنے والوں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آ رہے تھے۔
میں یہی سوچ رہا تھا کہ لگتا ہے کہ وہی لوگ یہاں آتے ہونگے جو زیادہ تعلیم
یافتہ نہیں یا جن کو تھانے، کچہریوں اور دیگر سرکاری اداروں کی معلومات
نہیں، مگر یہ میری ایک خام خیالی تھی کیونکہ اکثر افراد کے معاملات، کچھ
اداروں، اور تھانوں میں اور اکثر کے احباب میں الجھے ہوئے نظر آئے۔ ایک
خاتون جو کافی تعلیم یافتہ لگ رہی تھیں، انہوں نے اپنے بارے میں بتلاتے
ہوئے حیران کر دیا کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی علاوہ ایک سرکاری
ہسپتال میں اچھے عہدے پر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں، یعنی وہ ایک
ڈاکٹر ہے جبکہ اسکے میاں بھی ایک ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ایک گھریلو نجی جھگڑے
کی بنیاد پر خود ہی استعفیٰ لکھ کر فارغ کروا دیا اور اس وقت ان محترمہ کو
معلوم ہوا جبکہ انکو ہسپتال سے فار غ کر دیا گیا تھا، اور جواز یہ کہ انکے
شوہر نے انکا استعفیٰ داخل دفتر کروایا، لہٰذا وہ محترمہ اسکے باعث پریشانی
کا شکار ہیں جبکہ ان کو دو پچوں کی کفالت بھی خود کو کرنی پڑتی ہے۔ انکے
معاملہ کو بھی افہام و تفہیم سے فریقین کے مابین حل کرنے کی کاوش نظر آئی۔
مسائل تو بے شمار ہیں اور راستے دکھانے والے بہت ہیں مگر جب حل کیلئے نکلو
تو پتا چلتا ہے کہ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے۔ اگر پریشان حال اور مجبوریوں
کے مارے کسی چیز کی تلاش میں ہیں تو وہ یہی ہے کہ عملی طور پر ان لوگوں کی
داد رسی کی جائے۔ کیونکہ تسلی دینا اور وعدے کرنا تو آسان نظر آتا ہے مگر
کسی کی تکلیف کو دور کرنا واقعی ایک معنی رکھتا ہے۔ عوام جب بھی کسی
نمائندے کو اپنے لئے منتخب کرتے ہیں تو انکی یہ امید ہوتی ہے انکے یہ
نمائندے ایوانوں میں جا کر ملکی سالمیت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنی
عوام کی فلاح و بہبود کا اہتمام کریں گے بلکہ اپنے عوام کی ہر پریشانی میں
انکے اسی طرح ساتھ ہوں گے ،جیسے الیکشن کے دنوں میں ایک رویہ کا اظہار کر
چکے ہیں۔ عوام کو جب سرکاری اداروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور شنوائی نظر
نہیں آتی تو انکو ایک آسرے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اب وہ اپنے منتخب
نمائندوں کی مدد لیں۔ اس عمل میں اگر داد رسی کا اہتمام ہو تو یہ ایک عوامی
خدمت کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے، اس کاوش کی جھلک مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب
جناب شہباز شریف کے قائم کردہ شکایات کے سیل میں نظر آئی جہاں اقرباء پروری
سے بالاتر ہو کر ہر سائل کی پریشانیوں کے حل کیلئے نہ صرف خوش مزاج لوگ
موجود ہیں بلکہ دور دراز سے آئے ہوئے پریشان حال لوگوں کے معاملات کو فوری
حل کرنے کا اہتمام بھی موجود ہے۔ جبکہ یہ مثالی سلسلہ نہ صرف اپنی کامیابی
کے نقش بھی چھوڑ رہا ہے بلکہ حقائق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ |