بلیک واٹر کی آمد، حقیقت کیا ہے؟

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں امریکی عہدیداروں کی آمد و رفت میں اضافے کو جہاں پراسرار سرگرمیوں میں تیزی سے تشبیہہ دی جارہی ہے وہیں اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی توسیع اور دو سو سے زائد گھر کرائے پر حاصل کرنے کے معاملہ سے لیکر پاکستان میں ”بلیک واٹر“ نامی تنظیم کی آمد کے حوالے سے بھی افواہیں گردش میں ہیں۔ اندیشے، وسوسے اور وہ واہمے اگرچہ ایک عرصہ سے ظاہر کئے جارہے تھے لیکن حکومت کی جانب سے ہر الزام کے جواب میں ”ایسا کچھ نہیں“ کی رٹ کے سامنے الزام لگانے والے بے بس رہے اور حکومتی تردیدوں کے شور نے سچائی کو بھی دبائے رکھا۔ امریکہ کی جانب سے بھی ایک آدھ بار اطلاعات کی نفی کی گئی لیکن حقیقت کو جھوٹ کے پردوں سے باہر آنے سے روکا نہ جاسکا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے جمعرات کے روز ”امریکہ کو زمین دینے میں کوئی حرج نہیں “ کے الفاظ پر مشتمل بیان دیکر اس بات کی تو تصدیق کر دی کہ سفارتخانے میں توسیع سے لیکر امریکی میرینز کی پاکستان آمد کی خبریں حقیقت ہی ہیں لیکن حکومت ابھی تک ”بلیک واٹر “نامی تنظیم کی پاکستان میں موجودگی کا اعتراف کرنے کی جرات نہیں کر سکی حالانکہ ٹھوس شواہد کے مطابق متذکرہ تنظیم نہ صرف اسلام آباد بلکہ پشاور اور کراچی میں بھی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیر داخلہ نے آدھی تصدیق کیوں کی؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ بلیک واٹر( جو”زی ورلڈ وائیڈ“ کے نام سے کام کررہی ہے)، کی موجودگی اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی سولہ ایکڑ پر قلعہ نما توسیع اور میرنیز کی تعداد میں اضافہ سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو تمام اندیشے درست ہونے کی خوفناک نشاندہی کر رہی ہیں۔ سفارتخانے کی توسیع یا بعض اطلاعات کے مطابق منی چھاﺅنی کی تعمیر کا منصوبہ تو شاید امریکی تھنک ٹینک نے نام نہاد دہشتگردی کے نام پر خطے میں اپنی جڑیں مزید مضبوط بنانے کے لیے حال ہی میں تشکیل دیا ہے لیکن بلیک واٹر شروع دن ہی سے اس جنگ میں کسی نہ کسی طرح ملوث رہی ہے لہٰذا پاکستان میں اس کی موجودگی کی بار بار تردید ڈھٹائی کی انتہاء کے سوا کچھ نہیں البتہ پاکستان میں اس کی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہیں؟ تنظیم کی مختلف مقامات پر مندرجہ ذیل سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بلیک واٹر جو اپنا تعارف دنیا میں ایک سکیورٹی آرگنائزیشن کے طور پر کراتی ہے دنیا کی خطرناک ترین عیسائی دہشت گرد تنظیم ہے جو ساری دنیا میں کرائے پر امریکی مفادات کی حفاظت اور دیگر خطرناک امور میں ملوث رہی ہے۔ اس آرگنائزیشن کو امریکی سامراج اور امریکی ایجنسی سی آئی اے کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس کا سربراہ ایرک ڈی پرنس جو 6 جون 1969کو مشیگن ہالینڈ میں پیدا ہوا عمر سے ہی اسلام سے نفرت کرتا ہے اور ساری دنیا میں عیسائی اقتدار کے خواب دیکھتا رہا ہے اور اسی وجہ سے پوپ بینڈکیٹ کے بھی خاصا قریب ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی اور عیسائی مذہب کا پرچار اس کا نصب العین ہے۔ امریکی حکومت نے بلیک واٹر کے مقاصد کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ان مقاصد کی اصلاح کرائے بغیر ہی 2002ء میں امریکی فوجیوں کی سکیورٹی کا ٹھیکہ دینے کے بعد2007ء میں اسے امریکی ہا٥س آف کامن کی طرف سے تصدیقی سند بھی جاری کردی۔ 13 فروری 2007 کو ایرک نے اعلان کیا کہ کمپنی بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ کے بجائے Xeزی کے نام سے کام کریگی اب اس کا کام بزنس اور سکورٹی کے کاموں سے مختلف ہوگا۔ نئے نام کے ساتھ ہی اس کی مرکزیت بھی تبدیل کر دی گئی۔ جس کے تحت سی آئی اے کی ہدایت پر کوفر بلیک کو اس ادارے کا نیا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ زی سروسز ایل ایل سی(Xe services LLC)ایک پرائیویٹ ملٹری آرگنائزیشن ہے۔ جو بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ کی بدنام زمانہ نام سے امریکہ کے شہر کیرولینا میں قائم کی گئی تھی۔ ایرک پرنس جو امریکی بحریہ کا تربیت یافتہ ہے نے بھی فوج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد 1990میں 6000 ایکڑ زمین ریاست ورجینیا کی سرحد کے ساتھ شمالی کیرولینا میں بلیک واٹر کے قیام کے مقصد کیلئے خرید کر اپنی ایک پرائیویٹ اسٹیٹ آف آرٹ قائم کرلی جہاں پر لوگوں کو پرائیویٹ طور پر فوجی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ ایک سال میں40 ہزار افراد کو فوجی تربیت فراہم کرتی ہے جو زیادہ تر امریکی فوجی ہی ہوتے ہیں۔

عراق میں اس کمپنی کے ذمے عراقی سکیورٹی گارڈ اور فوج کو تربیت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی اس دوران (زی ) نے لا تعداد عرقی شہریوں کو ہلاک و زخمی کرنا شروع کر دیا۔ بغداد کے نیسور اسکوائر میں 16 ستمبر 2007 کو ایک ساتھ سکیورٹی کے نام پر بہت سے عراقی ہلاک ہوئے تو عراقی وزیر داخلہ نے اس کمپنی کو عراق سے نکل جانے کا حکم دیدیا تھا۔ اسی طرح اس کی کاروائیاں افغانستان اور پاکستان میں بھی جاری ہیں، افغانستان سے یہ تنظیم پاکستان میں داخل ہوئی۔ مبینہ طور پر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں بھی اسی ادارے کے دو امریکی مارے گئے تھے جو خفیہ بکسوں کو ہوٹل میں لیکر گئے تھے۔ امریکہ کے اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کے سابق فوجیوں پر مشتمل نجی کمپنی کو، جس کا پہلا نام ’بلیک واٹر‘ تھا سی آئی اے دہشت گردی کے خلاف مہم میں القاعدہ کے خلاف ڈرون حملوں میں استعمال کرتی رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے سرکاری حکام اور سکیورٹی کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازموں کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس کمپنی کے اہلکار پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں جبکہ کمپنی سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو ان خفیہ اڈوں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بظاہر تو یہی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بھی بلیک واٹر حسب سابق سکیورٹی مقاصد کے لیے موجود ہے لیکن حقیت یہ ہے کہ ، ''بلیک واٹر'' کے ہرکارے ویزوں کے تکلف کے بغیر چارٹرڈ طیاروں میں پاکستان آتے ہیں اور ان کی آمدورفت کا کوئی ریکارڈ پاکستانی انتظامیہ کے پاس نہیں ہے، یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ پراجیکٹ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے زیر نگرانی کام کررہا ہے۔ جس کا مقصد بظاہر القاعدہ اور طالبان کے اہم لیڈروں تک رسائی اور انہیں قتل کرنا ہے لیکن درحقیقت پس پردہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر نظر رکھنا، چین اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سی آئی اے نے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں امریکہ کے مخالفین کو قتل کرانے کیلئے ''بلیک واٹر'' نامی بدنام زمانہ تنظیم کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اسلام آباد میں نئے امریکی سفارت خانے میں جو دو سو کمرے بنائے جا رہے ہیں میں 1500 افراد کا عملہ قیام پذیر ہوگا۔ ان کمروں کے متعلق کہا جارہا ہے کہ یہ ان کنٹریکٹرز کو دیئے جائیں گے جو امریکیوں کی سکیورٹی پر مامور کئے جائیں گے بلاشبہ یہ زی (بلیک واٹر )کے تربیت یافتہ فوجی گارڈ ہی ہونگے ۔

پشاور، اسلام آباد اور کراچی کے بعد مزید چھ شہروں میں اس بدنام زمانہ تنظیم کی سرگرمیوں کی بھی اطلاعات ہیں اور پاکستان میں مختلف مقامات پر اب تک اسلام آباد میں کم از کم پانچ انتہائی شرمناک واقعات ہو چکے ہیں ۔ 25/اگست کو پشاور موڑ پر، ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے قریب ایک ناکے پر دو گاڑیوں کو روکا گیا۔ ان میں چار امریکی سوار تھے۔ چاروں کے پاس انتہائی جدید خودکار ہتھیار تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں۔ جواب ملا۔ ”ہم کالا پانی (Black Water) سے تعلق رکھتے ہیں“۔ چاروں کو مارگلہ پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ ذرا دیر بعد امریکی سفارت خانے کا ایک اہلکار وہاں پہنچ گیا۔ ایک پولیس آفیسر ایس پی آفتاب ناصر اور ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر کیپٹن اعجاز بھی اس کے ہمراہ تھے۔ تھانے کے انچارج نے مزاحمت کی لیکن دو پاکستانیوں نے اسے دھمکیاں دیں اور چاروں امریکیوں کو چھڑا لے گئے۔ اس سے پہلے تین امریکیوں نے اسلام آباد کے معروف علاقے، آبپارہ مارکیٹ میں محسن بخاری نامی شخص کو صرف اس جرم پر بری طرح زدوکوب کیا کہ اس نے اپنی گاڑی امریکیوں کی گاڑی کے قریب کھڑی کی تھی۔ ڈپلومیٹک انکلیو میں بھی ایک امریکی گارڈ نے ایک پاکستانی پولیس آفیسر کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا۔ پشاور میں بھی آئے دن ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جہاں بلیک واٹر کے کارندے دندناتے پھر رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ تلخ ترین حقائق کے باجود ہماری حکومت مزاحمت کے بجائے تردیدوں کی پالیسی اپنائے عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.