بزم فکر و فن ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھکر

ایک دور تھا جب بھکر کو ادب کے اعتبار سے '' تھل کا لکھنئو '' کہا جاتا تھا، خلیل رام پوری، حیا رام پوری ، باقر بخاری، ذاکر برنی ، خلش صہبائی جیسے شعراء کرام ، ادیب شخصیات نے صحراء کی تپتی ریت پر ادب و سخن کی ترویج کی ، ملک کے بڑے بڑے شعرائ، ادبائ، اس دھرتی پر قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے، باقاعدہ ادبی محافل کا انعقاد کیا جاتا، غزل، شعر ، اور مرثیہ کلام پیش کیا جاتا اور ادبی صف میں شامل ہونے والے ادب نواز '' نمازیوں '' کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، قافیہ اور ردیف کے پُل صراط پر چلتے ہوئے جہاں شعراء وہیں ادباء بھی ادب کے تمام رنگ و ثناء ایک ہی محفل میں بیان کردیتے تھے اور عوام کی طرف سے انہیں دیا جانے والا دادِ تحسین کا تاج بھی نمایاں ہوتا ، داد و تعریف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا جاتا تھا۔ تھل کے لکھنئو میں ادب پروان چڑھتا رہا، ادبی محافل ، مشاعرے منعقد کیے جاتے رہے، عوام جرائم سے نفرت اور آپس کا درد بانٹنے والے تھے۔ ایک عرصہ تک ادب و سخن کی محافل کا سلسلہ چلتا رہا ، شعراء اپنے کلام کے ذریعے پیار اور امن کو فروغ دیتے رہے۔

1980 ء سے 1990 کے عشرہ کے دوران ادب و سخن کے ریگزار میں پروفیسر بشیر احمد بشر، موسیٰ کلیم بخاری،پروفیسر اثر ترمذی ،پروفیسر تنویر صہبائی ،استاد شمشاد نظر جیسے پھول اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے ۔ ادب و سخن کے ساتھ ساتھ ان پھولوں نے بھکر کے اندر محبت اور امن کو فروغ دیتے ہوئے ادبی فضاء میں مزید خوشبوئیں بکھیریں ، اور ادب کو نئی جہت عطاء کی۔ ان ادب شناس شخصیات نے مل کر تھل کے لکھنئو میں ایک پودا لگانے کی سعی شروع کردی ، ادبی محافل کا سلسلہ تو جاری تھا مگر ایک ادبی تنظیم کے قیام کی اشد ضرورت تھی۔ 1980ء میں پروفیسر بشیر احمد بشر کی سربراہی میں پروفیسر اثر ترمذی صاحب نے سوسائٹی بورڈ کے نام سے ایک ادبی تنظیم قائم کی جس نے ضلع بھکر کے ادبی لکھنئو میں مزید جدت پیدا کی۔

پروفیسر بشیر احمد بشرنہصرف اچھے ماہر تعلیم تھے بلکہ ادب، تحقیق، شاعری، انگلش لٹریچر کے حوالے سے اپنے وقت کے '' گُرو '' کہلاتے تھے ۔ بشر صاحب نے عمر بھر قلم اور کتاب سے اپنا رشتہ استوار رکھا ، انہیں بلاشبہ اردو ادب کے میدانِ تحقیق و تخلیق کا '' جری سپاہی '' قرار دیا جاسکتا ہے۔ اہل قلم و کتب کا ایک وسیع حلقہ اُن کا گرویدہ تھا۔ مرحوم حقیقی معنوں میں ایک سچے ادیب اور محقق و تخلیق کار تھے۔راقم کی تحقیق کے مطابق 1998 میں بشر صاحب نے جنابِاثرترمذی کے ساتھ مل کر سوسائٹی بورڈ کے پلیٹ فارم سے ادبی محافل کا انعقاد کروایا، ان کے رفیق کاروں میں پروفیسر رانا شبیر ، پروفیسر نذیر احمد شبلی شامل تھے۔ اسی سال کے آخر میں بزم فکر و فن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ناصرف تھل کے لکھنئو میں نئی خوشبوئیں بکھیرنا تھا بلکہ ادب اور فن کے ساتھ ساتھ '' فکر '' کو لے کر اس قوم کے اندر جذبہ حب الوطنی، ادب سے لگائو اور ایک اچھا اور مفید شہری بنانے کی سعی تھی۔ بزم فکر و فن کے بانیوں میں بشر صاحب کے ساتھ ساتھ پروفیسر اثر ترمذی صاحب کا نامِ گرامی صف اول میں شمار ہوتا ہے۔ بزم فکر و فن کے پہلے صدر جناب اثر ترمذی صاحب جبکہ جنرل سیکرٹری کے لیے خوبصورت لب و لہجے کے مالک اور اپنی تحریروں کے ذریعے ہر باشعور کا دل گردہ ہلا دینے والی شخصیت جناب پروفیسر منیر بلوچ صاحب کا نام سامنے آتا ہے۔ وقت کے نشیب و فراز سے مقابلہ کرتے ہوئے دونوں ادب نواز ، ادب شناس شخصیات نے نہ صرف ادب بلکہ فن کے فروغ کے لیے بھی کارہائے نمایاں پیش کیے ۔ یہ ان دنوں کی حسین یادیں ہیں جب تھل کے صحرا میں ملک کے نامور شعراء ، ادیب ان محافل میں شرکت کرتے تھے ، ان میں انور مسعود، منو بھائی،عزیز اکبر شاہد کے علاوہ پڑوسی اضلاع کے نامی گرامی شعراء شامل ہیں ۔ ڈرامہ، ادبی محافل، مقابلہ جات، مشاعرے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔ اس کارواں میں دیگر ادب نواز زعماء کے ساتھ پروفیسر نذیر احمد شبلی بھی شامل تھے۔

سال 2003 میں بزم فکر و فن کی ٹیم عزم نو کے ساتھ میدان میں اتری تو اس قافلہ میں کئی نئے سالار بھی شامل ہوگئے۔ شعبہ اردو کے سر کا تاج جناب پروفیسر حبیب اللہ خان نیازی کو صدارت کی ذمہ داری سونپ دی گئی ،اس قافلہ میں نیازی صاحب کے ہمراہ منیر بلوچ ، ڈاکٹر قمر عباس، پروفیسر حضر حیات، پروفیسر امان اللہ کلیم، ساجد بخاری جیسے انمول ہیرے بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔ ان دنوں '' بزم فکر و فن '' اپنے جوبن پر تھی، بام عروج اپنی حدوں کو چھو رہا تھا، ہر ادبی محفل میںس بزم فکر و فن کا ذکر '' فرض '' سمجھ کر کیا جاتا تھا، ادبی تقاریب، ڈرامے، ادبی مقابلہ جات اور مشاعروں کے ذریعے امن اور پیار کا پیغام عام کیا جاتا رہا۔ انور مسعود، منو بھائی، زاہد فخری، سلیمان گیلانی، مصطفی خادم، عزیز اکبر شاہد، مظہر نیازی،محمد محمود احمد ہاشمی، سعید عاصم جیسے ملکی سطح کے شعراء ان محافل کی زینت بنتے رہے ۔ مجروح سلطان پُوری نے کیا خوب کہا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

بزم فکر و فن کے پلیٹ فارم سے '' ادب '' اور '' فن '' دونوں پروموٹ ہوتے رہے، نوجوان ہیروں کو پالش کیا جاتا رہا، ان محافل میںفقط ادب اور فن ہی نہیں بلکہ اخلاقیات ( کردار سازی ) کی ترجمانی بھی کی جاتی رہی، امن کی صدائیں گونجتی رہیں، محبت کا پیغام عام ہوتا رہا۔ بے زباں طائر سرمستِ نواہوتے رہے ۔
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ
بے زباں طائر کو سرمستِ نوا کرتی ہے یہ

حبیب اللہ خان نیازی کی صدارت میں بزم فکرو فن '' ادب اور فن '' کے فروغ میں رخت سفر ہے ۔ ڈاکٹر طاہر یعقوب سے لے کر پروفیسر غلام حسین بھٹی ( پرنسپل ) تک ، ادارہ کے ہر سربراہ نے اس '' ادبی منافع بخش '' تنظیم کے فروغ کے لیے ہمیشہ ساتھ دیا ہے اور ہر حوالے سے معاونت میں پیش پیش رہے ہیں۔
بخشے ہے جلوہ گل ذوقِ تماشہ غالب
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہوجانا

پروفیسر منیر بلوچ کے بعد پروفیسر قمر عباس صاحب جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہے ۔ قمر اپنی آب و تاب کے ساتھ حبیب سے '' حُب '' نبھاتا رہا ۔ پھر افضل راشد جیسی شخصیت اس عہدہ پر براجمان ہوئی تو بزم کے رنگوں میں مزید نکھار پیدا ہوگیا۔ہر صاحب دل کے لیے دردِ رکھنے والی شخصیت جنابِ افضل راشد ناصرف اچھے شاعر ہیں بلکہ اچھے تخلیق کار، محقق ، دانشور ، ادب شناس اور بہترین ماہر تعلیم میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ ۔۔۔ '' کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے'' ۔ حبیب اللہ خان نیازی اور افضل راشد کی جوڑی نے ذاتی تشہیر و مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ادب کے فروغ کے لیے کام کیا ۔ اور ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ ادب کی خدمت کرتے رہے کہ
ہمیں تشہیر کی خواہش نہیں بس روشنی کی ہے
کسی کو مت بتانا یہ دیے ہم نے جلائے ہیں

جیسے ہی سال 2013 کا سورج طلوع ہوا ، بزم فکر و فن میں مزید جدت و رعنائیت پیدا ہوتی گئی ، رنگا رنگ پروگرامز ہونے لگے، بین الکلیاتی مقابلہ جات ہوں یا آل پاکستان محفل مشاعرہ بزم و فکر و فن نے ہمیشہ اپنی روایت برقرار رکھی ہے۔ فکر اور فن کے اس قافلہ میں پروفیسر محمد ساجد رائو جیسی ان مٹ شخصیت کا بطور جنرل سیکرٹری سامنے آنا '' سونے پر سہاگہ '' کے مترادف ہے۔ نیازی صاحب اور رائو صاحب نے اپنی ٹیم پروفیسر امان اللہ کلیم ، پروفیسر افتخار طیب ، پروفیسررانا عمیر احمد، پروفیسرخضر عباس خان، پروفیسر ملک نصیر احمد، پروفیسر قلب عباس، پروفیسر انجم مسعود جیسی ہنر مند اور اپنے کام میں مہارت رکھنے والی شخصیات کے ساتھ مل کر ایک بار پھر تھل دھرتی کو '' تھل کا لکھنئو '' بنادیا ہے۔ ڈرامہ، ادبی محافل،ادبی مقابلہ جات، او رمشاعروں کے ذریعے انارکی ، دہشت گردی اور حبس کے اس موسم میں ناصرف عوام کو تفریح و توضیع فراہم کی ہے بلکہ ادب و فن کے فروغ میں بھی تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں۔ پروفیسر حبیب اللہ نیازی صاحب موجودہ ٹیم کے ساتھ ایک تیر پر دو شکار کرتے ہیں، ایک اچھی بزم اور دوسرا پروفیسر قلب عباس عابس اور افتخار طیب کی ایک ساتھ موجودگی شاید انہیں ابھی تک جوان رکھے ہوئے ہے۔
تذکرہ میر کا غالب کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر ، اربابِ ہُنر کرتے ہیں
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102293 views i like those who love humanity.. View More