قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھ اور سندھ کی معروف
سیاسی و سماجی شخصیت
بر صغیر پاک و ہند کی جدو جہد آزادی کی تاریخ میں بعض شخصیات کی کلیدی
حیثیت ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان نیک سیرت ، پر خلوص ، بے باک، نڈر اور
سچے مسلمان رہنماؤں کی بے پناہ محنت، خلوص و دیانت، عظیم جدوجہد اور
قربانیوں کے باعث ہمیں آج یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم آزاد فضاء میں زندہ ہیں
اور ایک آزاد، خود مختار اور مسلم ریاست کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتے
ہیں۔جدوجہد آزادی کے حریت پرستوں کی جماعت کی سر براہی اور قیادت بانیِ
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو حاصل تھی جب کہ سر حاجی عبد اﷲ ہارون
مرحوم اس جماعت اور تحریک کے ایک اہم ذِمہ دار، مخلص، بے باک اور صف اول کے
مجاہدوں نیز قا ئد اعظمؒکے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ قائد اعظم کو آپ پر
مکمل اعتماد تھا یہی وجہ ہے کہ سر حاجی عبد اﷲ ہارون ہر مر حلہ پر قائد
اعظم کے ہمراہ دکھا ئی دیتے ہیں جس کا ثبوت پیر علی محمد راشدی کے اس بیان
سے ملتا ہے کہ’’ قائد اعظم محمد علی جناح ۱۹۳۸ء میں اوراس کے بعد
عبد اﷲ ہارون مرحوم کے انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ
’’سیفیلڈ‘‘ یعنی سر حاجی عبد اﷲ ہارون کی رہائش واقع کلفٹن میں ہوتا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی ، تحریک پاکستان کی عظیم شخصیت ،
بر صغیر کے معروف تاجر اور سب سے بڑھ کر انسان دوست حا جی سر عبد اﷲ ہارو ن
جن کی بر سی ہر سال ۲۷ اپریل کو انتہائی عقیدت و احترام اور سادگی سے منائی
جاتی ہے۔آپ کی سیاسی، سماجی ، طبی ، تعلیمی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں
بے لوث خدمات سے کسی کو انکار نہیں۔ آپ نے فلاحی سرگرمیوں ، غریبوں،
مسکینوں اور یتیموں اور سب سے بڑھ کر قومی مقاصد پر بے دریغ دولت صرف کی۔
آپ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کی ابتدائی زندگی اس
قدر کٹھن مراحل سے گزری ہو اوروہ صرف چار برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گیا
ہو اس قدر فراخدل، باہمت، استقا مت پسند، ساد ہ طبعّیت ،بے لوث اوریتیموں،
مسکینوں، لاورثوں، بیواؤں اور غریب و نادار افراد کا سہارا ثابت ہوا۔بے
پناہ دولت کے مالک کے گھر کے دروازے ہر چھوٹے بڑے امیر غریب کے لیے ہر وقت
کھلے رہتے تھے۔ ان کا گھر ’سیفیلڈ‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیا ست کا مرکز
تھا، اس گھر میں بر صغیر کا شا ید ہی کوئی مسلمان رہنما ایساہو جس کا گزر
نہ ہو ا ہوجن میں قائد اعظم محمد علی جناح ، سر آغا خان،مو لا نا محمد علی
جوہر،مو لانا شو کت علی جو ہر، مولانا حسرت موہانی ، آزاد سبحانی، فضل
حسین،فضل الحق،سر سکندر حیات،مسعود اﷲ، اکرام خان،
سلطان احمد، صاحبزادہ عبد القیوم، ڈاکٹر انصاری، عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر
یار جنگ شامل ہیں و غیرہ۔
سر حاجی عبد اﷲ ہارون مرحوم کا تعلق میمن برادری سے تھاآپ کے آباؤ اجداد
ہندوستان کی ریاست’ کچھ‘ میں مستقل قیام پذیر تھے جن کا ذریعہ معاش تجارت
تھا۔آپ کے والد کانام ’ہارون‘تھا ۔ چوبیس برس کی عمر میں ریاست ’کچھ‘ سے
مستقل نقل مکانی کرکے سندھ میں آباد ہوئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایااور
یہاں بھی تجارت شروع کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔معمولی سے
کاروبار سے گزر بسر مشکل سے ہو پاتا لیکن عبد اﷲ ہارون مرحوم کی والدہ
حنیفہ بائی انتہائی سمجھداراور سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھیں ان مشکل
حالات میں با عزت زندگی گزارتی رہیں۔ عبد اﷲ ہارون کو اعلیٰ مقام ان کی
والدہ حنیفہ بائی کے ذریعہ حاصل ہوا ۔
عبد اﷲ ہارون ۱۸۷۲ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی کانام عثمان
تھا ،یہ ابھی صرف چار برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور عبد اﷲ
ہارون کی پرورش ، تعلیم و تر بیت کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ آپ کی والدہ
محتر مہ حنیفہ بائی پر پڑ گیا، والدہ نے آپ کو کراچی کے ایک گجراتی اسکول
میں داخل کرایا، آپ نے تقریباً دو یا تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی ،شاید
مالی حالات کے باعث آ پ کی طبعّیت
اس جانب مائل نہ ہوئی ، آپ کی والدہ نے اس رجحان کو محسوس کیا تو آپ نے
فیصلہ کیا کہ انہیں تجارت کی طرف مائل کیا جائے۔
سر حاجی عبد اﷲ ہارون نے عملی زندگی کا آغازبچوں کے کھلونے اور معمولی
سازوسامان فروخت کرنے سے کیا ۔اس وقت آپ کی عمر ۶برس تھی لیکن بہت جلد اس
کام کو چھوڑ کر ایک دکان پر ملازمت اختیارکرلی۔ یہ دکان سائیکلوں کی مرمت
کی تھی۔ اس ملازمت کے بارے میں پیر علی راشدی نے حاجی عبد اﷲ ہارون کا بیان
کردہ واقعہ تحریرکیا کہ ’’ہم نے مسلم لیگ کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا
تو ہم تقریباً روزانہ شام کو کلفٹن کے ساحل پر ایک آنا کرایہ پر کرسیاں لے
کر بیٹھ جاتے اور مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوتی۔ ایک دن حاجی عبد اﷲ
ہارون نے اپنی زندگی سے متعلق تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں کچھ بھی نہیں
تھا یتیم بچہ تھا پردیس یعنی’’کچھ‘‘ ہندوستان سے سندھ میں منتقل ہوئے ابھی
چار برس ہوئے ہونگے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔سارا بوجھ میری ماں پر
پڑ گیا جو خود غریب تھی میں نے شروع میں دو تین درجے تعلیم حاصل کی اور
مالی مشکلات کے باعث نوکری کر نا پڑی، صدر کراچی میں رہائش تھی اور نوکری
جونا مارکیٹ کراچی میں سائیکلوں کی مرمت والی دکان پر ملی، میری ماں روزانا
روکھی سوکھی روٹی پکا کر کپڑے میں باندھ کر دیتی اور میں صدر یعنی اپنی
رہائش گاہ سے جو ناما رکیٹ پیدل جا یا کرتا تھا۔ اس وقت میری حالت کچھ اس
قسم کی ہوتی کہ پیر میں ٹوٹی ہوئی چپل اور کبھی وہ بھی ندارد ہوتی اور میں
ننگے پاؤں دکان جا یا کرتا تھا۔دکاندار چارآنے یو میہ مزدوری دیتا‘۔
آپ طبیعتاً نیک ، دیانتدار اور صوم و صلواۃ کے پا بند تھے چنانچہ اپنی محنت
اور ماں کی تر بیت ، دعاؤں اور ایک فرض شناس اور عقلمند رفیقہ حیات کی
رفاقت سے تجارت میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے لگے۔ حاجی عبد اﷲ ہارون کے
ماموں اوربہنوئی سیٹھ صالح محمد ہندوستان کے بڑے تاجروں میں سے تھے اور ان
کا کاروبار بڑے پیمانے پر چل رہا تھاچنانچہ حاجی عبد اﷲ ہارون نے ابتدا میں
ان سے مل کر تجارت شروع کی رفتہ رفتہ آپ اس میدان میں پاؤں جما تے
گئے۔تجارت کی غرض سے آپ نے ہندوستان کے مختلف شہرو ں کا دورہ کیا اور پھر
کراچی کے جوڑیابازار میں ایک دوکان کھولی اور یہاں سے اپنے طور پر تجارت کا
آغاز کیا۔ دکان خوب چل پڑی ساتھ ہی آپ نے ایک گجراتی ہندو پرشوتم داس سے مل
کر شکر کا کاروبار شروع کیا لیکن یہ ہندو پاٹنر جلد مرگیا چنانچہ آپ نے
تنہا شکر کا کاروبار شروع کیا جو وقت کے ساتھ ساتھ چمکتا گیا۔
حاجی عبد اﷲ ہارون کی سماجی اور فلاحی کاموں کی ابتدا جوڑیا بازار کی دکان
کے زمانے میں ہوئی ، آپ کی فلاحی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاروبار
میں بھی اضافہ ہوا یہاں تک کہ لوگ آپ کو’’ شکر کا راجہ‘‘ کہنے لگے اور
کراچی کا تاجر طبقہ آپ کو سیٹھ حاجی عبد اﷲ ہارون کہنے لگا۔تجارت بڑھتی گئی
، دولت میں اضافہ ہو تا گیاساتھ ہی حاجی عبد اﷲ ہارون کی سخاوت اور فراخ
دلی میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔حکومت وقت تجارت کے سلسلے میں آپ سے صلاح و
مشورے کرنے لگی اور آپ کو ایک بڑے تاجر کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ حکومت
نے آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو’ ریزروبنک ‘ کے ڈائریکٹر کے عہدے
کی پیش کش کی جو آپ نے قبول نہیں کی لیکن آپ اس بنک کے شیئرز کی الاٹمنٹ
کرنے والی کمیٹی کے رکن رہے۔۱۹۰۹ء میں آپ نے اپنے تجارتی مرکز کو
جوڑیابازار سے منتقل کر کے ڈوسلانی منرل میں منتقل کردیا۔ابتدا میں وکٹوریہ
روڑ پر ایک بنگلہ خریدا بعد ازاں جائیداد میں بے پناہ اضافہ ہو تا گیا اور
سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے شروع ہوجانے کے بعد اپنی رہائش ’سیفیلڈ‘ واقع
کلفٹن میں شروع کی جو بعد میں ہندوستان کے مسلمان رہنماؤں کا گڑھ بن گئی۔
حاجی عبد اﷲ ہارون کی ازدواجی زندگی کی ابتدا ۱۸۸۷ء میں ہوئی اس وقت آپ کی
عمر ۱۵ برس تھی۔آپ کی والدہ نے آپ کی شادی رحیمہ بائی سے طے کی۔شادی کے بعد
آپ حج پر تشریف لے گئے ۔ ۱۸۹۵ء میں آپ نے دوسری شادی کی اور ۱۲ نو مبر
۱۹۱۳ء میں آپ نے تیسری شادی ایرانی نژاد ڈاکٹر حاجی خان کی صاحبزادی لیڈی
نصرت سے کی۔آپ کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہوئیں۔ صاحبزادوں میں یوسف
ہارون، محمود ہارون اور سعید ہارون ہیں۔یوسف ہارون جو آپ کے سب سے بڑے
صاحبزادے ہیں نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ مغربی پاکستان کے
گورنر رہے۔محمود ہارون نے بھی ملکی سیاست میں بھر پورکر دار ادا کیا، مسلم
لیگ کے زبردست حامیوں میں سے تھے، مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ حاجی عبد اﷲ
ہارون کے چھوٹے بیٹے ’سعید ہارون ‘ بھی ملکی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ہمیشہ
مسلم لیگ سے وابستہ رہے، کراچی کی قدیم اور پسماندہ بستی لیاری ان کی سیاست
اور سماجی سر گرمیوں کا مرکز تھی۔ الیکشن میں بھی حص لیتے رہے ، ذوالفقار
علی بھٹو کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ان کے لیے الیکشن میں کامیابی مشکل
ہو گئی تھی۔
سرحاجی عبد اﷲ ہارون کی سیا سی و سماجی خدمات تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔آپ
نے اپنی زندگی کا آغاز معمولی حیثیت سے کیا لیکن اپنی ذہانت ، تدبر، محنت،
کوشش اور اپنی ماں کی تر بیت کی بدولت ہندوستان کی صفِ اول کی شخصیات میں
ان کا شمار ہونے لگا۔آپ سلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے بقول انعام درانی
’گتھیاں ان کے ناخنِ تدبیر کی آہٹ سے سلجھ جاتی تھیں‘ میونسپل کارپوریشن سے
لے کر مرکزی مجلس قانون ساز تک کوئی ادارہ ، کوئی منصوبہ ، کوئی مشن ایسا
نہ تھا جو مسلمانوں کی بہتری کے لیے ہواور عبد اﷲ ہارون اس میں شریک نہ
ہوں۔خلافت تحریک ، ریشمی رومال،بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک، سیاسی
کانفرنسیں، تعلیمی کانفرنسیں، آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس، انڈین نیشنل
کانگریس، مسلم لیگ خصو صاً سندھ مسلم لیگ غرض ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۲ء یعنی انتقال
تک مسلمانوں کی تمام تحریکوں میں عبد اﷲ ہارون نے کلیدی کردار ادا کیا۔قیام
پاکستان کے سلسلے میں سندھ مسلم لیگ کی سر پرستی حاصل ہوئی تو آپ نے نہ صرف
ایک بڑی جماعت اس کے حامیوں کی تیار کی بلکہ پورے صوبے میں پاکستان کی
تحریک کی روح بھونک ڈالی۔ سندھ کے بچے بچے میں پاکستان کی تحریک کی امنگ
اور لگن پیدا ہوگئی۔ اس قسم کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔دیگر رہنماجنہیں قومی
ہیرو ہونے کا تو شرف حاصل ہے ، انہوں نے تحریک آزادی میں بھی نمایاں کردار
ادا کیا اور ایک بڑی جماعت کو اپنا ہم نوا بنا لیا آپ نے مسلمانوں کی آواز
کو دنیا میں پہنچانے اور عام کرنے کے لیے ۱۹۲۰ء میں ایک اخبار ’’الوحید‘‘
جاری کیا جس نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ، انگریز اور ہندو
بوکھلا اٹھے ، آخر کار مقصد میں کامیابی ہو ئی لیکن افسوس کہ قیام پاکستان
تک عبد اﷲ ہارون کی عمر نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
۱۹۱۹ء میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو حاجی عبداﷲ ہارون نے اس تحریک میں
نمایاں کردار ادا کیا۔ ابتدا میں آپ صوبائی خلافت کمیٹی کے صدرمنتخب ہوئے
بعد ازآ ں آپ کوسینٹرل خلافت کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔مولانا سید محمد
میاں جو تحریک ریشمی رومال کے اہم کارکن تھے نے اپنی کتاب ’تحریک شیخ الہند
و ریشمی خطوط سازش کیس‘ کے صفحہ ۴۸ پر لکھا کہ تحریک ریشمی رومال میں حاجی
عبد اﷲ ہارون جو بہت بڑے تاجر تھے ہر دور اور ہر عہد میں قومی کاموں کے لیے
مقتدر رقمیں نکالتے رہے موجودہ صدی کے اوائل میں سندھ کے اندر تبلیغ اسلام
کے لیے جوکام جاری ہو ا تھا اس میں بے شمار روپیہ خرچ کیا گیا ، خلافت لیگ
اور مسلم کانفرس کی تنظیم میں چپ چاپ گرانقدر امداد دیتے رہے قابل غور امر
یہ ہے کہ امداد کے سوا انہیں کوئی غرض نہ تھی‘‘۔آپ جن اداروں کی مالی امداد
کیا کرتے ان کا حساب کبھی نہیں رکھا ، کراچی کے دو اداروں کا پورا خرچ ان
کے ذمہ تھا۔ تحریک ریشمی رومال کے سلسلے میں ایک مرحلہ ایسا آیا جب حضرت
شیخ الہند نے مولانا عبیدا ﷲ سندھی کو تحریک کے سلسلے میں کابل جانے کا حکم
دیا تا کہ وہ افغانستان کے سر براہ امیر حبیب اﷲ خان کو اس نازک وقت میں
اسلام کے لیے جانبازانہ اقدامات کرنے کے لیے تیار کریں۔مولانا عبیداﷲ سندھی
کابل جانے کے لیے تیار ہوگئے تو اس سلسلے میں پہلا اہم مسئلہ اخراجات کا
تھا ،مولانا ابو الکلام آزاد نے اس مقصد کے لیے حاجی عبد اﷲ ہارون سے
ملاقات کی ، انہوں نے بلا تآمُل پانچ ہزار روپے پیش کردیئے۔
حاجی عبد اﷲ ہارون مر حوم ۶ سال تک مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن کی حیثیت
سے سندھ کی نمائندگی کرتے رہے آپ پہلی مرتبہ ۱۹۳۶ء میں مرکزی مجلس قانون
سازکے رکن منتخب ہوئے اور ۱۹۴۲ء یعنی اپنے انتقال تک اس ادارے میں سندھ کی
نمائندگی کرتے رہے ۔ آپ نے قانون منظور کرایا جس کی رو سے مسلمان خواتین کو
اسلامی قانون وراثت کے مطابق ؑعورتوں کو آبائی جائیداد سے ان کا جائز حق
ملنے لگا۔آپ نے ۱۹۲۸ء میں مجلس قانون ساز میں ایک قرارداد پیش کی جس کی
منظوری کے بعد حکومت نے حج تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی اور حاجی عبد اﷲ ہارون
کو اس کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا ۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کمیٹی کی
سفارشات پر عمل در آمد شروع ہوا اور عازمین حج کی بیشتر تکا لیف دور ہوگئیں
۔ کراچی میں پرانے حاجی کیمپ کی تعمیر حاجی عبد اﷲ ہارون کی زیرنگرانی اور
آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آئی، حکومت نے آپ کو ۱۹۳۴ء میں حج کمیٹی
کا چیئر مین نامزد کیا اور آپ تین سا
ل تک اس کمیٹی کے چیئر مین رہے۔۱۹۲۳ء میں آپ بمبئی مجلس قانون ساز کے رکن
منتخب ہوئے اس سال آپ نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک کے مطالبے کو
تسلیم کیا اور اس کی حمایت میں جدوجہد شروع کی ۔
۱۹۳۰ء میں حاجی عبد اﷲ ہارون کو آل انڈیا مسلم کانفرس کا سیکریٹری نامز
دکیا گیا یہ اجلاس مولانا محمد علی جوہر کی صدارت میں منعقد ہوا یہی وہ اہم
اجلاس تھا جس میں مسلم کانفرنس نے گاندھی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا
اور اعلان کیا کہ کانفرنس برطانوی سامراج کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ ہندو
تسلط کے خلاف بھی تحریک چلائے گی۔ مسٹرگاندھی کی تحریک انڈیا کی مکمل آزادی
کے لیے نہ تھی بلکہ وہ سات کروڑ مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام بنا نا چاہتے
تھے۔
۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کاقیام عمل میں آیا جس کا نصب العین مسلمانوں کی بہبود
تھا حاجی عبد اﷲ ہارون نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی آپ ۱۹۲۰ء میں سندھ
مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۴۲ء یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام تک
مسلم لیگ صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے جدوجہد آزادی کی جنگ لڑتے
رہے۔ہندوستان کی تقسیم کی پہلی قرارداد سندھ کی مجلس قانون ساز نے منظور کی
۔ عبد اﷲ ہارون نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سندھ کے مسلمانوں میں پاکستان کے
قیام کی تحریک کو اس قدر مقبول کردیا کہ سندھ کا بچہ بچہ پاکستان کے قیام
کا حامی بن گیا ۔ قائد اعظم کو عبد اﷲ ہارون پر مکمل اعتماد تھا اور آپ
قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ مسلم لیگ کے مسلمانوں کی بہتری کے
تمام پروگرام حاجی صاحب کے گھر پر تیار ہو تے۱۹۳۸ء میں سندھ پرا ونس مسلم
لیگ کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا،،قائد اعظم محمد علی جناح نے اس اجلاس کی
صدارت کی ، عبد اﷲ ہارون نے سندھ کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل جاری کی جس
میں سندھ میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔
کانفرنس نہ صر ف سندھ بلکہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے اہم کا نفرنس ثابت
ہوئی۔حاجی عبد اﷲ ہارون نے مختلف اسلامی ممالک کے اخبارات کے نام خطوط بھی
ارسال کیے جس میں کہا گیا تھاکہ وہ مسلمانوں
کے نقطہ نظر کی وضاحت واضح اور درست طو ر پر کریں۔
حاجی عبد اﷲ ہارون۱۹۱۳ء سے ۱۹۱۷ء تک بعداز آ ں ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۷ء اکیس سال تک
کراچی میونسپل کارپوریشن کے رکن کی حیثیت سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی
جدوجہد کرتے رہے۔آ پ کا تعلق کراچی کی قدیم اور پسماندہ بستی ’لیاری‘ سے
تھا چنانچہ آپ نے کراچی کی اس قدیم بستی کو جدید اور عام سہولتوں سے آراستہ
کرنے اور عوام کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کر نے کے لیے ایک منصوبہ پیش
کیا جس کے مطابق لیاری کو بارہ(۱۲) گاؤں یعنی لیاری کو چھوٹی موٹی بستیوں
میں تقسیم کر کے ہر بستی کو یکے بعد دیگرے تمام سہولتوں سے آراستہ کیا جانا
تھا۔اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے حاجی صاحب نے بارہ میں سے
ایک بستی کو نمونتاً تعمیر کرنے کے لیے اپنی جانب سے پونے دو لاکھ روپے کی
رقم کا اعلان کیالیکن نا معلوم کن وجوہات کے سبب حا جی صاحب کے اس منصوبے
پر عمل در آمد نہ ہو سکا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی شہر کی یہ بستی آج
تک ان تمام سہولتوں سے محروم رہی۔
حاجی عبد اﷲ ہارون نے ۱۹۲۳ء میں کراچی کی قدیم آبادی لیاری میں کھڈا مارکیٹ
کے مقام پر جس کا موجودہ نام میمن سو سائٹی (نو آباد) ہے جامعہ اسلامیہ و
یتیم خانہ قائم کیا۔اس جامعہ اور یتیم خانے کے تمام اخراجات حاجی عبد اﷲ
ہارون اپنی زندگی میں خود پورا کیا کرتے تھے۔اب اس ادارے کے انتظامی امور
حاجی عبد اﷲ ہارون ایسو سی ایشن کے سپرد ہیں۔یہ ایسو سی ایشن حاجی صاحب کے
انتقال کے بعد قائم کی گئی۔ ایسو سی ایشن نے حاجی عبد اﷲ ہارون کے مشن کو
جاری رکھنے کے لیے کئی فلاحی پروجیکٹ شروع کیے جس میں پرائمری و سیکنڈری
اسکول یعنی حاجی عبد اﷲ ہارون اسکول ، حاجی عبد اﷲ ہارون ووکیشنل انسٹی ٹیو
ٹ اور حاجی عبد اﷲ ہارون کالج اور اسپتال کا قیام جامعہ اسلامیہ یتیم خانہ
کے احاطہ میں عمل میں آیا ۔کراچی کی پسماندہ بستی میں تعلیمی اور فلاحی
اداروں کا قیام مالی منفعت سے قطہ نظر غریب و نادار افراد کو تعلیم کے
مواقع فراہم کرنا تھا یہی حاجی عبد اﷲ ہارون کا مشن بھی تھا جسے اس
ایسو سی ایشن نے عملی جامہ پہنایا۔حاجی عبداﷲ ہارون اپنے قائم کردہ جامعہ
اسلامیہ اور یتیم خانہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
حاجی عبد اﷲ ہارون نے بر صغیر کے مسلمانوں خصو صاً سندھ کے مسلمانوں میں
علم کی روشنی اجاگر کرنے ، آزادی کی تحریک ، سیاسی بیداری پیدا کرنے اور
مسلمانوں کی آواز بر صغیر کے بر سر اقتدار حکمرانوں تک پہنچانے کے لیے
۱۹۲۰ء میں تر کی کے خلیفہ سلطان وحیدالدین کے نام پر اخبار ’’الوحید ‘‘
جاری کیا۔سندھ کی ممتاز شخصیت اور حاجی عبد اﷲ ہارون کے قریبی ساتھی شیخ
عبد المجید سندھی اخبار کی ادارت میں شامل تھے وہ اس اخبار کے اولین ایڈیٹر
بھی تھے۔الوحید کی اشاعت بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی مفید ثابت
ہوئی، اس وقت کے نامور مسلمان ادیبوں، عالموں، سیاسی شخصیات اور دانشوروں
نے مضامین لکھنا شروع کیے جن کا مثبت اثر ہوا۔ اس وقت یہ اخبار مسلمانوں کا
واحد ترجمان تھا ، اس اخبار کو جاری ہوئے مشکل سے سات ماہ کا عر صہ ہی ہوا
تھا ہندو اور انگریز اس کی مقبولیت سے بوکھلا اٹھے اور بمبئی کی حکومت نے
اخبار کی مقبولیت ، شہرت اور اس کے اس مشن سے جو وہ بر صغیر کے مسلمانوں
خصو صاً سندھ کے مسلمانوں میں جدوجہد آزادی کے سلسلے میں جوش و جذبہ پیدا
کررہا تھا ایک مضمون کی اشاعت کا سہارا لیتے ہوئے اخبار سے ۲۵ ہزار روپے زر
ضمانت کے طور پر طلب کیے اور اخبار کے مدیر قاضی عبد الرحمٰن کو گرفتار
کرکے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا۔
مولانا دین محمد وفائی جو الوحید کے نائب مدیر تھے اور اخبار میں مسلسل
مضامین بھی لکھ رہے تھے کو اخبار کا مدیر مقرر کیا گیاجو بیس سال تک مدیر
کے فرائض انجام دیتے رہے۔مو لانا وفائی کی سر پرستی میں الوحید نے روزنامہ
کے علاوہ ایک تحریک کی حیثیت اختیار کرلی اور یہ اخبار سندھ کے مسلمانوں کی
آواز اور تر جمان بن گیا۔الوحید نے سندھ میں آزاداور بے باک صحافت کی نہ
صرف ابتدا کی بلکہ صحافت میں ایک مثالی کردار ادا کیا۔اس خبار نے بمبئی سے
سندھ کی علیحدگی کی تحریک کو عوام میں عام کرنے اور حکومت وقت پر عوامی
نقطہ نظر کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سندھ کی بمبئی سے علیحدگی
الوحید کے مشن کا ایک حصہ تھی۔۱۹۳۰ء میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد
الوحید کا ایک خاص نمبر ’’سندھ آزادی نمبر ‘‘ شائع کیا جس کی ایک تحقیقی
اور تاریخی حیثیت ہے۔یہ خاص نمبر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی مکمل داستان
ہے الوحید نے خلافت تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔الوحید کے ایڈیٹر قاضی
عبد الرحمٰن کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب مولا نا محمد علی جوہر اور
ان کے ساتھیوں پر کراچی کے خا لقدینا ہال میں بغاوت کا مقدمہ چلا یا جارہا
تھا۔الوحید نے سندھ میں چلنے والی’تحریک نصرت اسلام ‘‘ کو نہ صرف روشناس
کرایا بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ ہندوؤں کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کس
طرح کریں۔المختصر حاجی عبد اﷲ ہارون کے روشن کر دہ چراغ نے بر صغیر
خصوصاًسندھ کے مسلمانوں میں بیداری پیدا کر نے اور انہیں منظم کرنے میں جو
کردار ادا کیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
سندھ کے معروف محقق ، ادیب و دانش ور پیر محمد علی راشدی نے اپنے کالم ’’،
مشرق و مغرب‘‘ جو اخبار جنگ (۶ستمبر ۱۹۸۱ء)میں شائع ہوا سیفیلڈ کی قومی
حیثیت کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی راشدی صاحب لکھتے ہیں ’’بر صغیر کے
دور زریں کا شاید ہی کوئی مسلمان رہنما ایسا ہو جس کا گزر یہاں(سیفیلڈ) میں
نہ ہوا ہو، کیا کیا ْصورتیں وہاں (سیفیلڈ) میں میں نے خود نہیں دیکھیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح، سر آغا خان، محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی
جوہر، مولانا حسرت موہانی، آزاد سبحانی، فضل حسین، فضل الحق، سر سکندر
حیات، سعداﷲ، اکرام خان، سلطان احمد، صاحبزادی عبد القیوم، ڈاکٹر انصا ری،
عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر یار جنگ اور بہت سے بزرگ ہیں جن کے نام یاد نہیں
عبد اﷲ ہارون مرحوم کے گھرسیفیلڈ میں دیکھے اور ایسے سیاسی اور مذہبی رہنما
جن کی مسلم لیگ سے نہیں بنی جب کبھی کراچی آئے تو عبد اﷲ ہارون کے سلام کے
لیے لازمی حاضر ہوئے۔قائد اعظم ۱۹۳۸ء میں اور اس کے بعد عبد اﷲ ہارون کے
انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ’ سیفیلڈ‘ میں ہی
رہا۔مسلم لیگ تحریک خصو صاً نظریہ پاکستان کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً آل
انڈیا ورکنگ کمیٹی اور سندھ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کی میٹنگیں یہیں ہوتی
تھیں۔یہیں تحریک پاکستان کے فیصلہ کن دور کے منصوبے بنے،یہیں حاجی صاحب کا
وہ معرکتہ آلارا خطبہ تیار ہوا جس میں پہلی بار کھل کر یہ اعلان کیا گیا کہ
ہم ہندو کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے ہمارے لیے ہندوستان کا بٹوارہ کرکے ایک
علیحدہ فیڈریشن بننا چاہیے، یہیں انہی خطوط پر شیخ عبدالمجید سندھی کی
قرارداد قائد اعظم کے سامنے آئی(وہ اسی خواب گاہ میں اسی پلنگ پر سلیپنگ
سوٹ میں لیٹے ہوئے تھے جب اس حقیر نے بحیثیت جنرل سیکریٹری سندھ مسلم لیگ
کانفرنس ، ان کی خدمت میں پیش کی)، یہیں نظریہ پاکستان کو ہندوستان میں
مسلمانوں کے سامنے لانے کے لئے بین الصوبائی وفود کا پروگرام بنا ،یہیں
قائد اعظم کی صدارت میں سندھ اسمبلی کے مسلمان ممبروں کی میٹنگ ہوئی،یہیں
میں (پیر علی محمد راشدی) نے قائد اعظم کے جوابی اخباری بیان کا وہ مسودہ
پیش کیا جو ان کے نام سے دوسر ے روز اﷲ بخش مرحوم کے بارے میں شائع ہوا،
یہیں پاکستان اسکیم کی تفصیل مرتب ہوئیں جن کی بنا پر بعد میں (یعنی ۱۹۴۰ء
میں) قرارداد لاہور لکھی گئی ، یہیں پاکستان اسکیم کے سلسلے میں مطالعاتی
میٹنگیں ہوتی رہیں جو کبھی کبھی ۲۰ ونڈسر پیلس دہلی میں بھی ہوئیں جہاں
وقتی طور پر مرکزی اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں مرحوم حاجی صاحب کی رہائش
ہوتی، یہیں پر توقف کر نے کے بعد قائد اعظم ؒ اور لیاقت علی خان مرحوم لندن
روانہ ہوئے، یہیں سکوٹرا فوٹو گرافر نے قائد کی وہ تصویر لی جو بعد میں
آفیشل تصویر شمار ہوئی اور آج پاکستان کے کرنسی نوٹوں کی زینت ہے، یہیں
سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کے بارے میں وقتاًفوقتاً میٹنگیں ہوتی
رہیں، یہیں سے مسجد منز نگاہ سکھر کی واگزاری کے لیے تحریک کا منصوبہ بنا
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ کے مسلمان ہندو کے پنجے سے نکل کر اور مسلم لیگ
کے زیر اثر آکر پاکستان کے حامی بن گئے ، مختصر یہ کہ کانگریس تحریک میں جو
مقام آنجہانی موتی لال نہرو کے انند بھون الہٰ آباد کو حاصل ہوا وہ مسلم
لیگ تحریک میں عبداﷲ ہارون کے اس سیفیلڈ کو میسر تھا۔ فرق صرف یہ رہا کہ
انند بھون اس تعلق کے تقدس کی بنا پر قومی یادگار بن گیا، اور سیفیلڈ پر تا
لا لگ گیااور ’گنبد افراسیاب‘بن کر رہ گیا‘‘۔ پیر علی محمد راشدی کی اس
تجویز پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ’اگر ’’سیفیلڈ ‘ عبد اﷲ ہارون
میوزیم بن جاتا تو نظریہ پاکستان کی جڑوں کو اچھی طرح سے واضح کردینے کا
موجب بنتا۔ کئی تاریخی اہمیت کی چیزیں یہاں جمع کی جاسکتی تھیں جو اب مختلف
جگہوں پر بکھری پڑی ہیں اور مرورایام سے ضائع ہوجائیں گی مثلاً عبداﷲہارون
کے ذاتی سیا سی نوعیت کے کاغذات، قائد اعظمؒ سے پاکستان کے بارے میں ان کی
خط و کتا بت کے فائل، قائد اعظم ؒ کے خطوط ان کے نام ، تقریریں، سیاسی
خطبات، پمفلٹ، کتابیں، اشتہار، اخباری آرٹیکل ان کے روزمرہ کے استعمال اور
خود قائد اعظمؒ کی وہاں رہائش سے متعلق یاد گار چیزیں، اخبارات کے فائل
وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ چیزیں جمع ہوجائیں تو اندرون ہندوستان ۱۹۱۰ء سے لے کر
۱۹۴۲ء تک کی جملہ مسلمان تحریکوں کے ارتقاء کی تاریخ لوگوں کے سامنے آجاتی
اور ان کو معلوم ہو جاتا کہ نظریہ پاکستان کس طرح بنا، کن منازل سے گزر ا ،
اور اس کے حقیقی محرکات کیا تھے۔
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ میں شامل) |