جدید “دورِفتن“
(ظفر عمر خاں فانی, کراچی)
آنحضرت صلّی اللہُ علیہِ وسلّم
کی وفات کے چند ہی سالوں بعد یہودیوں کی خوفناک سازشوں کے نتیجے میں اُسوقت
کے مسلمانوں پر ایک ایسا دور آیا جسے دورِفتن (فتنوں کا دور) کہتے ہیں۔ اُس
دور کے بہترین مسلمانوں کے مابین خانہ جنگی ہوئی، جس میں ہزاروں بہترین
مسلمان دونوں طرف سے شہید ہوئے۔ ایسے مسلمان بھی جنہیں دنیا ہی میں پیغمبرِ
اسلام کے ذریعے جنّت کی بشارت دے دی گئی تھی اور ایسے مسلمان بھی جنکے
جنّتی ہونے کے علاوہ کچھ اور ہونے کا مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
بالآخر اس خانہ جنگی کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے اس اپیل پر ہؤا کہ اگر خانہ
جنگی ختم نہ ہوئی تو مسلمانوں کی تمام فتوحات ضائع ہوجائنگی اور مفتوحہ
ممالک مسلمانوں کے خلاف نہ صرف جوابی فتح حاصل کرلیں گے بلکہ مسلمان مرد و
خواتین کو اپنا لونڈی غلام بھی بنا لیں گے۔ پھر اس مفاہمت کے بعدمسلمانوں
کی فتوحات کا دوسرا دور شروع ہؤا۔
موجودہ دور مسلمانوں کا “جدید دورِفتن“ ہے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں
‘عثمانی خلافت‘ کے خاتمے سے مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زوال اور زبوں حالی کا
شکار ہو گئے تھے۔ جسکے نتیجے میں یہودی اپنے سرمائے کی طاقت سے فلسطین میں
ریاستِ اسرائیل قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اب تمام دنیا پر اپنے
بادشاہ کی ٍحکومت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی صورت
میں انہوں نے اپنی عالمی حکومت کا ڈھانچہ بھی کھڑا کرلیا ہے۔ جس کے احکامات
کی تمام اقوامِ ّعالم برضا و رغبت اطاعت کرتی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں فلسطین،
بوسینیا، کشمیر لبنان، شام، عراق، افغانستان، مصر، کئی افریقی ممالک اور
دیگر مقامات پر مسلمانوں کے قتلِ عام میں اقوامِ متحدہ کی سردمہری یا
درپردہ منصوبہ بندی آشکار ہوچکی ہے۔
لیکن تمام آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس جدید فتنے کا خاتمہ کرکے امّتِ
مسلمہ کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے کے لئے اللہ تعالٰی پاکستان کو معرضِ وجود
میں لایا ہے۔ یہودی بھی اِس بات کو سمجھ چکے ہیں، اسلئے پہلے انہوں نے
پاکستان کے اوّل وزیرِاعظم لیاقت علی خاں سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی
کوشش کی اور اسمیں ناکام ہوکر انہوں نے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے محو
کرنے کے لئے سازشوں کا جال بچھادیا ہے(سازش تھیوری کے نقّادوں سے معذرت کے
ساتھ ) اور یہ سازشیں وہ ہیں کہ جنکے متعلّق اللہ تعالٰی قراٰن حکیم میں
ارشاد فرماتا ہے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جائیں، مگر یہ کہ اللہ تعالٰی ان
سازشوں کا توڑ کرنے پر قادر ہے (مفہوم) اللہ کا فرمان سچا ہے اور یہودی
اپنی تمام سازشوں میں ناکام ہونگے اور پاکستان ہی انشاءاللہ عالمِ اسلام کی
قیادت کرتے ہوئے ہہودیوں کو نامُراد کرے گا۔
اس وقت پاکستان میں خودکش بمباری، جسمیں عارضی طور پر کمی آئی ہوئی ہے،
اسطرح سے ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ہمہ جہت خانہ جنگی ہر چہار جانب برپا ہو
جائے اور وہ صفحہ ہستی سے مِٹ جائے۔ اس صورتِحال سے نمٹنے میں ہماری سیاسی
جماعتیں عجیب کنفیوژن کا شکار نظر آرہی ہیں کہ اِن سے کسطرح نمٹیں۔ راقمُ
الحروف بھی اس سلسلے میں ایک رائے رکھتا ہے، جو درجِ ذیل ہے: -
دنیا میں زیادہ تر جرائم مال حاصل کرنے کے لیئے کیئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی
مجرم دورانِ جرم مارا بھی جاتا ہے تو وہ اتفاقّا مارا جاتا ہے ارادتّا
نہیں، کیونکہ ارادتّا مارا جائےگا تو حاصل کردا مال سے عیش و عشرت کی زندگی
کیسے بسر کریگا۔ جب یہ صورتحال ہے تو کوئی بچہ یا جوان خودکش بمبار بننا
کیوں قبول کرتا ہے، اُسے تنہائی میں رکھ کر یقین دلایا جاتا ھے کہ وہ
بمباری کے بعد جنت میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کریگا۔ اس سلسلے میں اسکی
مکمل برین واشنگ کی جاتی ہے اور اس کے خلاف کوئی بات اسکے دماغ تک پہنچنے
نہیں دی جاتی، یہانتک کہ بمباری کا وقت آجاتا ہے اور اسے دھماکے میں ٹکڑے
ٹکڑے ہونے کے لیئے بھیج دیا جاتا ھے اور وہ رضاکارانہ طور پر موت کو گلے
لگا لیتا ہے۔ جنت میں جانے کا یقین اسے اس لیئے ہوجاتا ہے کہ اسے بتایا
جاتا ہے کہ پاکستان میں اللہ کے مغضوب اور گمراہ لوگوں کی حکومت ہے جو عوام
کو بھی اللہ کی نافرمانیوں کے لیئے آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ عوام کو “وضع
میں نصاریٰ اور تمدّن میں یہود“ بنادیا گیا ہے، جس سے ہر طرف عریانی، بے
حیائی اور فحاشی کا دور دورہ ہے۔ سرکاری نگرانی میں عوام کی جان مال عزت
ابرو کا سودا کیا جاتا ہے، جبکہ اسلام حکومت کو عوام کے تحفظ اور انصاف کی
فراہمی کا حکم دیتا ہے۔ اسکے بعد بچے یا جوان بمبار کو اسکی پرواہ نہیں
ہوتی کہ اسے بمباری کے لیئے کہاں بھیجا جارہا ہے۔ وہ اسی جذبہ جہاد سے
مسلمانوں کع مارتا ہے، جس سے مسلمان کافروں سے جنگ کرتے ہیں۔
راقم الحروف کو شک ہے کہ خودکُش بمباروں کو یہودیئوں اور بھارتیوں کے
ایجنٹوں کے ہاتھ فروخت بھی کیا جارہا ہے۔ یہ ایجنٹ جہاں چاہتے ہیں ان سے
بمباری کرواتے ہیں، جسکا واحد مقصد پاکستان میں ہمہ جہت خانہ جنگی کرانا
معلوم ہوتا ہے۔
اچھے طالبان سے پاکستان میں نفاذِ اسلام کا وعدہ کیا جائے اور اسے پورا کیا
جائے اور بُرے طالبان کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر خاتمہ کیا جائے تو اس فتنے پر قابو
پایا جا سکتا ہے۔ |
|