عوام کا مشرف سے پیار

جنرل ر پرویز مشرف پر جو مقدمہ چل رہا ہے وہ میاں صاحب اپنے محسن افتخار چوہدری کا بدلا لے رہے ہیں۔

کیونکہ جمہوریت پر شب خون تو بارہ اکتوبر ١٩٩٩ کو مارا گیا تھا۔ ٣ نومبر کو تو صرف افتخار چوہدری کے پیٹ پر لات ماری گئی تھی۔ افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں انکی گاڑی چلانے والے سمیت تمام قریبی ساتھی ایک ایک کر کے افتخار چوہدری کا ساتھ چھوڑ گئے۔ آخر کیوں ؟ انھیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ صرف افتخار چوہدری کی نوکری بحالی کی تحریک تھی نہ کہ عدلیہ کی بحالی کی۔ لیکن بعض اوقات ایک لمحہ کی بھول کا خمیازہ سالوں بھگتنا پڑتا ہے۔ جب اس شخص کی بحالی کی تحریک کے نام پر اسکی نیک نامی اور جرات انکار کے ترانے پڑھ کرعوام کو گمراہ کیا جا رہا تھا میں اس وقت بھی اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔ میرے قریبی دوست احباب اس شدید نفرت کا مجھ سے سبب پوچھتے ہوئے کہتے تھے کہ آخر اس قوم کے مسیحا نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ میرا معصومانہ جواب ہوتا تھا کہ میرا ایک سادہ سا فارمولہ ہے کسی کو جج کرنے کا اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کا میڈیا اور چند مخصوص مالشئیے صحافی و اینکرز جس شخص کو مسیحا بنا کر قوم کے سامنے پیش کریں تو سمجھ لو وہ شخص کائنات کا بہت بڑا دجال ہے۔ اور جس شخص کو غدار کے طور پر پیش کر کے اسکا توا لگائیں تو جان لو وہ شخص محب وطن اورملک و قوم کے حق میں بہتر ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مشرف کوئی بہت بڑا لیڈر نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کوئی ستاروں پہ کمندیں ڈالی ہیں جو میں اس سے محبت کروں اور اسکا دفاع کرتا پھروں۔ لیکن پھر وہی فارمولا مجھے اس پر مجبور کرتا ہے۔ مشرف مجھے اچھا لگتا ہے وجہ صرف اتنی سی ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں اور انکے مالشئیے صحافی و اینکرز سے نفرت کی وجہ سے۔ ان اینکرز اور بونے بونے فوج کی انگلی تھام کے چلنا سیکھنے والے سیاستدانوں سے نفرت مجھے مشرف سے ہمدردی پر مجبور کرتی ہے۔ سیاستدانوں کا دامن اگر صرف کارکردگی ہی سے خالی ہوتا تو پھر بھی کوئی مشرف کو یاد نہ کرتا بلکہ ان کے دامن تو کرپشن کے دھبوں سے داغدار ہیں۔ انکے پلے نہیں دھیلہ اور کرتے ہیں میلہ میلہ۔

مشرف نے آئین شکنی کی تو اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے جبکہ آپ کے آئین کی دھجیاں ملاں عزیز و طالبان نے بکھیر دیں اور ساتھ ہی آج اعلان جنگ بھی کر دیا ہے مذاکرات کے ترانے گانےوالے ڈوب مریں۔

ملاں عزیز کو تو مالشئیے اینکرز پروگرام میں بلا کر آئین کے خلاف تقریر پوری قوم کو سنواتے ہیں۔

لال مسجد آپریشن کو بھی مشرف کے نامہ اعمال میں ایک گناہ کے طور پر درج کیا جاتا ہے جو کہ زیادتی ہے۔

اگر کوئی بھی ریاست کے اندر ریاست بنائے گا تو حکومت اسکے خلاف آپریشن کرنے میں حق بجانب ہوتی ہے۔ انکو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ نہ مانے اور میڈیا نے بھی جلتی پر تیل چھڑکا اور یہی سب اینکرز اسلام آباد پر قبضہ کی نوید سنا رہے تھے ۔ یہ وہ اینکرز ہیں جو چور کو کہتے ہیں چوری کر لو اور سادھ سے کہتے ہیں جاگتے رہنا آج چور آ سکتا ہے۔ قصہ مختصر آپریشن ناگزیر اور حالات کا تقاضہ تھا۔

آج سیاستدانوں نے ملک کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے اسکی وجہ سے ناصرف مشرف کے دور کو یاد کر رہے ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرف سے ہمیں پیار ہے۔۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186410 views System analyst, writer. .. View More