بیٹوں نے گولی ماردی مکافات عمل کا نظام اس دنیا میں ہر
شخص کیلئے ہر دور میں چلا ہے اور چلتا رہتا ہے ابھی پچھلے دنوں ایک شخص جو
کہ کسٹم کلیئرنس کا کام کرتے ہیں ‘فرمانے لگے کہ آپ کو دو بچوں کو دکھانا
ہے۔ دونوں بچے بہرے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ خوبصورت بچے میرے سامنے بیٹھے تھے
لیکن کانوں سے بہرے اور زبان سے گونگے تھے۔ وہ آبدیدہ ہوگئے کہنے لگے دنیا
کا کوئی ڈاکٹر‘ علاج اور ٹیسٹ نہیں چھوڑا‘ بچے ٹھیک نہیں ہوئے۔ آخر تھک ہار
کر میں مجبور بیٹھ گیا تھا کہ علاج کی توقع ہی چھوڑ دی تھی مگر جب کسی نے
آپ کا بتایا تو آپ کے پاس آیا ہوں۔ جب میں نے مرض کی تشخیص کی‘ اس کیلئے
دوائی تجویز کی تو ان سے سوال کیا کہ کبھی آپ کی سوچ یاایمان میں یہ بات
آئی ہے کہ بچوں کے اس مرض کے پس پشت کوئی خدائی پکڑ یا قدرت کا انتقام ہے ۔میری
بات سنتے ہی وہ یکایک چونک اٹھے اور کہنے لگے کہ ہمارے خاندان میں ایک صالح
بوڑھی عورت ہے۔ بچوں کی بیماری کو دیکھ کر ایک دفعہ کہنے لگی کہ آپ کا رزق
ٹھیک نہیں۔ رزق کی خرابی کے اثرات اولاد پر پڑتے ہیں۔ بطور سزا اللہ تعالیٰ
نے بچوں کا دکھ آپ کے گھر والوں پر مسلط کردیا ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا بس
یہی بات میرے دل میں تھی اور یہی لفظ آپ سے بیان کرنا چاہتا تھا کیونکہ آپ
کا شعبہ کسٹم کلیئرنس کا ہے اور اس میں دن رات صرف دو چیزیں چلتی ہیں۔ ایک
جھوٹ دوسرا رشوت اور اس کے اثرات جہاں اپنی زندگی پر پڑتے ہیں وہاں نسلوں
تک اثرات چلے جاتے ہیں۔ میرے قریبی دوست اپنے علاقے کے بڑے زمیندار تھے۔
مزاج میں غرور اور تکبر بہت زیادہ ہے۔ شادی کے پہلے دن سے ہی بیوی کی تھوڑی
سی غلطی مزاج پر بارگراں گزری‘ بیوی سے بول چال چھوڑ دی۔ پہلا بچہ گونگا
پیدا ہوا اور یکے بعد دیگرے تمام اولاد گونگی پیدا ہوئی۔ پہلی اولاد کے بعد
کسی سمجھدارمعالج نے احساس دلایا تھا کہ وقتاً فوقتاً لبوں سے سختی ہوتی ہے
اس کا ازالہ کرو ورنہ یہ خدائی پکڑ تیرے لیے خطرناک ہوسکتی ہے لیکن انہیں
سمجھ ہی نہ آئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اب تک انہی حالات سے مسلسل سامنا
کرنا پڑرہا ہے۔ غور کریں کہ کرے کون اور سزا کون اٹھائے؟۔ ایک بڑے حکمران
کو ان کے بیٹوں نے گولی ماری‘ پھر ٹرالی پر اٹھا کر چند نوکروں نے جنازہ
پڑھا دیا‘بیٹے جنازہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھے مگرلوگوں کے کہنے پر چند
نوکروں نے جنازہ پڑھایا۔ بقول قریبی آدمی کے میت یا تو قبر میں ڈال دی یا
قریبی دریائے سندھ تھا اس میں ڈال دی گئی تاکہ مقدمہ نہ بنے وجہ اس کی یہ
تھی کہ موصوف خود بہت ظالم تھے اور کسی انسان کو قتل کرانا مکھی مارنے سے
زیادہ آسان تھا اور بڑے فخر سے قتل کرتے تھے۔ خدائی پکڑ آخر خدائی پکڑ ہوتی
ہے۔
بحوالہ حال دل
تحریر حضرت حکیم محمد طارق محمود چغتائی دامت برکتہم |