خیبر پختو نخوا حکومت کو تقر یباً 9 ما ہ ہو گئے ہیں ۔
عام انتخابات کے بعد تحر یک انصاف نے جماعت اسلامی ، آزاد ار کان اور قومی
وطن پارٹی کو شامل کر کے حکومت بنائی تھی لیکن چھ ماہ بعد تبد یلی کانعرہ
بلند کر نے والی تحر یک انصاف جن کابنیاد ی مو ٹو کر پشن کے خلاف جہاد کر
نا اور کر پشن کو ختم کر ناتھا ‘ وز یر اعلیٰ پر ویز خٹک کے کابینہ میں
شامل قومی وطن پارٹی کے وزراء کو کر پشن کے الزامات پر فارغ کر دیا گیا ۔
پا کستان کے تاریخ میں پہلی بار دیکھا کیا کہ اسمبلی میں کمزور پو زیشن کے
باوجود اپنے اصولوں کا پاس کر تے ہو ئے ایک گو لیشن جماعت کو کابینہ سے
فارغ کر دیا کیا۔ مو لانا فضل الرحمن جو پہلے سے تاک میں بیٹھے اس انتظار
میں تھے کہ حکومت کو گر ا کر‘ ن لیگ کے ساتھ حکومت بنائی جا ئے کیوں کہ
صوبے میں سیٹوں کے اعتبار سے ’جمعیت‘ تیسر ی سیاسی جماعت ہے‘لیکن اس دفعہ
بھی مولانا کو ناکامی کا سامنا کر نا پڑا جب مسلم لیگ ن کی مر کزی قیادت
اور وز یر اعظم میاں نواز شریف نے مو لانا کے اس خواہش اور کوشش کا ساتھ نہ
دیا ۔
عوام کو یاد ہو گا کہ مو لانا نے صو بائی حکومت کو دباؤ میں لانے اور اپنی
قوت کا مظاہر ہ کر نے کے لئے پشاورمیں مہنگائی ، بد امنی اور مغر بی
حکمرانی کے خلاف جلسہ منعقد کیا تھا لیکن بد قسمتی سے مو لانا کا جلسہ
باوجود یہ کہ جی ٹی روڈ گنجان آباد علاقے میں منعقد ہوا ، راولپنڈی اسلام
آباد اور شہر سے نکلنے کے راستے بند کیے گئے تھے ۔عوامی قوت کا مظاہرہ کر
نے میں نکام رہیں‘ حالاں کہ یہ جلسہ ضلع پشاور کا نہیں بلکہ جمعیت علماء
اسلام خیبر پختونخوا کا تھا ۔ اس فلاپ شو کے بعد مو لانانے صو بائی حکومت
کے خلاف خامو شی اختیار کر دی ۔کر پشن کے الزامات پر فارغ ہو نے والی جماعت
قومی وطن پارٹی اپنے دفاع کے حق میں صو بائی حکومت کے خلاف نقص کار کردگی
کا رونا رو رہی ہے ۔ دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ متا ثر ہ ہو نے والے
صوبے میں جہا ں پر دیگر بے شمار مسائل مو جود ہے وہا ں پر لاء اینڈ آرڈر کی
صورت خراب ہو نا فطری بات ہے ۔ پولیس کا شعبہ ہو یاصحت اور تعلیم کا ‘ تحر
یک انصاف حکومت بلند و بالا نعروں کے باوجو د کو ئی بڑی تبدیلی سامنے نہیں
لائی ہے ۔
تجزیہ کا ر اور سیاسی ناقد ین حکومت پر الزام لگا رہی ہے کہ صوبائی حکومت
مکمل طو ر پر ناکام ہو چکی ہے ۔ امن و امان کی صورت خرب تر ہے ‘ دہشت گردی
تو اپنی جگہ لیکن اغواء برائے تاوان ، چوری ، ڈکیتی کے وار دتوں میں دن بدن
اضافہ ہو رہاہے ۔ سنگین جرائم قتل وغیر ہ میں ملوث لوگ کھلے عام گھوم پھر
رہے ہیں ۔ مو جودہ ا عدادوشمار کے مطابق قتل و غارت اور اغواء برائے تاون
کے مجر موں کے تعد اد میں اضافہ ہو اہے۔ناقد ین یہ بھی سوال اٹھا تے ہیں کہ
حکومت مہنگائی کو کنٹرول کر نے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔ ہر
بازار اور دکان کا اپنا نرخ نامہ ہے ۔ شہر کو صاف رکھنے کے وعدے اور نعرے
تو بہت لگائے گئے لیکن عملی طور پر حالات جوں کے توں ہے۔ ناقد ین اب کہنا
شروع ہو گئے ہیں کہ تحر یک انصاف میں اقتدار کی جنگ شروع ہو چکی ہے ۔ گز
شتہ روز صوبائی کابینہ میں تو سیع و ردوبدل کے بارے میں کہا جار ہاہے کہ اس
فیصلہ نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کے اندر سب اچھا نہیں ہے ۔ خاص کر تحر یک
انصاف کے دیر ینہ کار کن شوکت یوسفزئی کی وزارت کے بارے میں کافی بحث ہو
رہی ہے کہ پہلے بھی اُن سے وزارت اطلاعات کا قلمدان لیا کیا تھا اور اب ان
کو وزیر صحت سے وزیر صنعت بنایا کیا ہے۔ حکومت کے اند ر ان تبد یلیوں کو
اپوزیشن جماعتیں حکومت کی ناکامی سے تعبیر کر تے ہیں‘ لیکن تحر یک انصاف کے
اند ر حلقے اس سے اتفاق نہیں کر تے بلکہ وہ اس طرح کے تبد یلیوں کو پارٹی
پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
تقر یبا ً پا نچ ماہ قبل جب صوبے کے سب سے بڑ ے ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں ایمر
جنسی سروس کے افتتاح کے موقعے پر کا نفر نس ہال میں تقر یر کر تے ہو ئے
شوکت یوسفزئی نے کہا تھا کہ صو بے بھر کے ہسپتالوں میں کوئی نظام مو جود
نہیں ہے ۔ محکمہ صحت میں انتہائی خرابی مو جود ہے‘ سابقہ حکومتوں نے
ہسپتالوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہسپتالوں میں ایک
مکمل سٹر کچر بنا یا جائے‘ چیک اینڈ بیلنس کاسسٹم ہو۔اس کے بعد وزیر اعلیٰ
نے تقر یر کی اور صوبے بھر میں حالات کا رونا رویا لیکن جب مہمان خصو صی
عمران خان ڈئس پر آئے تو انہوں نے وزیر اعلیٰ اور خصوصاً وز یر صحت شوکت
یوسفزئی کو مخا تب ہو کر کہا کہ اب جو کہنا ہے کہہ دے ‘چار ، پانچ ماہ بعد
آپ یہ نہیں کہہ سکوں گے ‘ عوام اور ہم آپ سے پو چھے گے‘ کہ آپ نے محکمے صحت
میں کیا تبدیلی لائی ہے ‘جس پر پورے ہال میں زبردست تالی اور نعرے لگائے
گئے ۔ اُس وقت میر ے ذ ہن میں سوال آیا کہ جس پا رٹی کے سر براہ میڈ یا اور
عوام کے درمیا ن اس طر ح کے بیانات اپنے وزراء کے بارے میں دیتے ہواور ہال
میں مو جود پارٹی کارکن نعرے لگا تے ہو ‘یہ جماعت کچھ نہ کچھ تبد یلی ضرور
لا ئے گی ۔ عمران خان وہ بیانات بھی اپنی پارٹی اور رہنماوں کے بارے میں دے
دیتے ہیں جو د وسری سیاسی جماعتیں سنٹر ل ایگز یکٹوکمیٹی میں بھی نہیں کہتے
۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ز یادہ تر نو اجون ان کی بے لاگ تبصروں اور فیصلوں کو
پسند کر تی ہے ۔ عمران خان نے پانچ ماہ پہلی والی بات کو آج عملی طور پر
جامہ پہنا دیا ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہر چھ ماہ بعد بہتر وزارت نہ چلانے
پر وزارت تبد یل ہو جایا کر یں گی ‘ اس فیصلے نے نو اجوں میں دوبارہ جذبہ
پید ا کر دیا ہے ۔ ان فیصلوں سے حکومت کمزور اور ناکام نہیں بلکہ مضبوط ہو
جائیں گی ۔ عوامی نمائندوں یا وز یروں کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ وہ
ناکامی اور عوامی مسائل حل نہ کر نے کے باوجود وزارتوں سے چمٹے رہیں ‘بلکہ
سیاست میں اس طرح کی تبدیلی ہو نی چاہیے تاکہ وزراء ذمہ داری کا احساس ہو۔
|