پاکستان اور نظریہ پاکستان

از:ڈاکٹرمحمداشرف آصف جلالی

23 مارچ 1940ء کے تاریخی دن کے تذکرے سال کے بعد اپنے ہمراہ کئی سوالات لائے ہیں یہ دن تحریک آزادی میں سنگ میل ثابت ہوا ۔اس دن ایک قرار داد کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ایک علیحدہ اور آزاد وطن کا مطالبہ کیا ۔اس تاریخی موقع پر بانی پاکستان نے دو قومی نظریے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ’’ اسلام اور ہندودھرم محض دو مذہب ہی نہیں بلکہ در حقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان ملکر ایک مشترکہ قومیت کی تشکیل کر سکیں بلکہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں‘‘ ۔

آج اس دن کے پچھتر سال بعد اگر ہم قرار داد پاکستان کی روح کو موجود ہ پاکستان کے جسم میں دیکھناچاہیں تو ہمیں کئی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔جب لوگ مادر وطن کو کرائے کا مکان سمجھیں تو جذبہ حب الوطنی کیسے اجاگر ہو گا جب عرف عام میں دغا بازی ،نا انصافی ،کرپشن ،لوٹ مار ،لاقانونیت ،بد نظمی اور بد انتظامی کو پاکستانیت کہا جائے پھر پاکستانی ہونے کا معنی و مفہوم کس ڈکشنری سے معلوم ہو گا اوراگر پاکستانی ہونا ناسمجھی ،کام چوری ،دہشت گردی اور گھٹیا پن کا استعارہ ہو تو ارض وطن کا تقدس پیچھے کیا رہ جائے گا ۔

کسی بھی شئی کی آئیڈیالوجی اس کی بقاء کی ضمانت ہوتی ہے کسی شی کا نظریہ ہی اس کی حقیقی شناخت اور تعارف قرار پاتاہے پاکستان شناسی کے لیے نظریہ پاکستان کا ادراک ضروری ہے پاکستان کی نشوونما اور ترقی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی ترقی کا راز کیا ہے پاکستان کو تمام تر خطرات سے بچانے سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے اور اسے کس چیز سے خطرہ ہے اور اس کی بیماریوں سے حفاظت کے لیے ضروری ہے معلوم کیا جائے پاکستان کا مزاج کیاہے بہت سے لوگوں کا یہ نعرہ ہے کہ ہم پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھانا چاہتے ہیں لیکن ان کے رویے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا کردار آگ بجھانا نہیں ہے بلکہ آگ لگانا ہے بہت سے لوگ صدا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پاکستان کی بیماریوں کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی سوچ پاکستان کے لیے روگ کی حیثیت رکھتی ہے اصل میں بات یہ ہے کہ پاکستان کی خوشحالی کے کچھ دعویدار پاکستان کی بیماریوں کے علاج کے لیے اسی میڈیکل سٹور سے دوا لینا چاہتے ہیں جہاں سے امریکا اور برطانیہ لیتے ہیں مگرایسے حضرات کو معلوم نہیں کہ ہمارا اور غیروں کا جب بیماری کی تعریف میں ہی اتفاق نہیں علاج ایک جیساکیسے ہو گا ۔مغرب اپنے ماحول کے لیے جن امور کو صحت مند سرگرمیاں قرار دے رہا ہے ہمارے نزدیک وہ عریانی، فحاشی اور بے حیائی ہے دوسرے لوگ جس بیہودگی کو کلچر اور ثقافت قرار دے رکھے ہیں ہمارے نزدیک وہ گڑبڑ اور خباثت ہے جب مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں اتنا فرق ہے وہ صحت کہتے ہیں ہم اسے بیماری سمجھتے ہیں تو ہرگز علاج ایک نہیں ہے یہ ہی غلط فہمی ہے جس کا شکار وہ لوگ ہو چکے ہیں جو آج پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے درپے ہیں ہمارے نزدیک ملت اورجمعیت کا معیار اورہے جبکہ دوسرے لوگوں کی سوچ اور ہے علامہ محمد اقبال کہتے ہیں ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

آج پاکستان میں جتنے بھی مسائل پیدا ہو چکے ہیں یہ تمام مسائل نظریہ پاکستان سے دوری کی بنیاد پر ہیں پاکستان کے لیے نظریہ پاکستان اس سے زیادہ ضروری ہے جتنا مچھلی کے لیے پانی ضروری ہے ظاہر ہے جب مچھلی کو پانی نہیں ملے گا تو مچھلی تڑپتی رہے گی اور بالآخر اپنی جان دے دے گی آج کی مادہ پرست سوچ،لبرل نظریات اور نام نہاد روشن خیالی اور غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے دن بدن پاکستان اور نظریہ پاکستان کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے پاکستان کے استحکام کے لیے پاکستان کا اپنے نظریہ کے ساتھ رہنا ازحد ضروری ہے اس مقصد عظیم کے لیے نظریہ پاکستان کو درست ماننااور پاکستان اور اس کے نظریہ کی یکجائی کا اہتمام بہت ضروری ہے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اگر پاکستان کے خدودخال کو دیکھا جائے توپاکستان کے روپ میں اس کا نظریہ بہت کم نظر آتا ہے پاکستان کے پیش منظر میں سب سے پہلے نظر آنے والے اس کے حکمران ہیں جب پاکستان کے حکمران امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں اور ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرگرداں نظر آتیں تو پاکستان کی اپنے نظریہ سے رفاقت کیسے رہے گی ۔جب پاکستان کی نہایت مقدس پارلیمان کا کردار پارلیمنٹ لاجز کی لاج نہ رکھ سکے اور وہاں بر سر عام شراب و شباب کا دھندا کیا جاتا ہو توپاکستان کے ہر گلی کوچے کے تقدس کی لاج کون رکھے گا ؟

جب حکمران بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے خواب دیکھتے ہوئے بھار ت کو پسندیدہ ملک قرار دیں اور قوم کے بعض دانشور پاک بھارت باؤنڈری لائن کو ختم کر نے کی تمنا کر رہے ہوں توپاکستان کے دامن میں اس کا نظریہ کیسے سلامت رہے گا ؟جس پاکستان کے ساتھ تھرمیں زندگی تھر تھر ارہی ہواورقحط زدہ بچے بلک بلک کر مر رہے ہیں لیکن قوم کو روٹی کپڑا اورمکان دینے کے دعویدار موھنجوداڑو میں سندھی ثقافت کے نام پر چار ارب روپے بھنگڑوں کی نذر کر دیں وہاں نظریہ پاکستان کیسے نظر آئے گا جس دیس کے ’’مخصوص مفتیوں‘‘ کا قوم کے اربوں روپے ہضم کرنے کا ‘‘ مضاریہ سکینڈل زبان زد خلق ہو اس دیس کے باسیوں کی اداسیاں کیسے دور ہوں گی ؟جس پاکستان کے قیام کے وقت’’ملت از وطن است‘‘ کہہ کر مخالفت کرنے والے اکھنڈ بھارت مزاج کو مراعات سے یوں نوازا جائے کہ وہ اکڑ کر آئین پاکستان کی ایک شق بھی اسلام کے مطابق تسلیم نہ کر ے اور پھر مذکرات کے نام پر اس کی ناز برداری کی جائے وہاں نظریہ پاکستان کا پرسان حال کون ہوگا ؟جب لوگ اپنے ماضی کو بھول کر محض نظریہ ضرورت کے تحت نظریہ پاکستان ریلیاں منعقد کرنے لگیں ۔تو قوم میں نظریاتی پختگی اور وطن سے غیر مشروط وابستگی کیسے آئے گی ؟

آئیے اپنے نظرئیے سے بچھڑتے ہوئے پاکستان کو اس کے نظریے کے ساتھ یکجا رکھنے کے لیے پاکستان کا ساتھ دیں اسے بے گناہ مسلمانوں کا خون کرنے والے امریکی ڈرون سے بھی بچائیں اور اسے شریعت کے نام پر مارے گئے شب خون سے بھی بچائیں ۲۰ لاکھ شہیدوں کے خونسے بننے والی اس مسجد کو نام نہاد روشن خیالی کا مندر بننے سے بھی بچائیں اور بندوق و بارود کا مورچہ بننے سے بھی بچائیں اسے لسانی اور علاقائی تعصبات سے بھی بچائیں اور اسے سامراج کی پیداہ کردہ مشکلات سے بھی بچائیں۔اسے انگریزکے وفادار موروثی سیاستدانوں سے بھی بچائیں اور اسے کانگریسی سوچ کے حامل مذہبی پنڈتوں سے بھی بچائیں اسے بیوو کریسی کی میلی نگاہوں سے بھی بچائیں اور ڈپلو میسی کی پھر تیلی اداؤں سے بھی بچائیں اس سلسلہ میں قرآن مجید ہماری رہنمائی کر رہا ہے ۔
الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآَتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ( سورۃ الحج آیت نمبر ۴۱)
’’وہ لوگ اگر ہم انہیں زمین میں کنٹرول دیں تو نماز قائم رکھیں اور زکوۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اﷲ ہی کے لیے سب کاموں کا انجام ہے ‘‘۔

زمین پر کسی کی حکومت قائم ہو جائے تو وہ نظام صلوۃ قائم کرے جو اس معاشرے کو تمام قسم کے فحش اور ناجائز کاموں سے پاک کر دے ۔زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے تاکہ معاشرے اور سماج کی مکمل بھلائی ،مالداروں کا مال ستھرا ہوجانے کی وجہ سے انہیں گناہوں اورظلم وستم کی طرف مائل نہ کرے اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوں ،وہ بھوک اور ناداری کی بنیاد پر جرائم پیشہ زندگی اختیار نہ کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نیٹ ورک قائم ہو۔ تاکہ نیکی کی قوتیں غالب اور بدی کی مغلوب رہیں ۔نیکی پھلے پھولے اور بدی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دینے میں آج بھی بہت برکت ہے انسانی ضمیر میں کسی کی اچھی بات کی طرف متوجہ ہونے اور اس کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت آج بھی موجود ہے ۔ملت کا خمیر بنجر اور بانجھ نہیں آج بھی زرخیز ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ غیروں کی سازش سے آج ہمارا مزاج بنتا جا رہا ہے جو کوئی کرتا ہے اسے کرتا رہنے دو ۔ اس پالیسی کو امت میں عام کرنے کے لیے نام نہاد، لبرل سوچ اوربندوق و بارود کے زور پر شریعت منوانے کے انداز دونوں نے کردار ادا کیا ہے مگر یہ پالیسی نہ مدنی ہے نہ مکی ہے نہ بدری ہے نہ حنینی ہے نہ کربلائی ہے بلکہ غیروں سے آئی ہے ۔اگر فرمان رسول ﷺ کے مطابق معاشرہ کی کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے والے کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے تو معاشرہ ڈوبنے سے کیسے محفوظ رہ سکے گا ۔

اس ملک کو صحیح اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلیے واشنگٹن کی طرف نہیں گنبد خضرٰی کی طرف متوجہ ہونا ہوگا ۔اسے نحوستوں سے بچانے کے لیے نیو ورلڈآرڈر کے نہیں نظام مصطفےٰ ﷺ کے حوالے کرنا ہوگا اس کوخوش حالی کے لیے موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے کلچر کی طرف نہیں مدینہ اور مکہ کے محور کی طرف لے جانا ہوگا ۔
خدا کرے نہ خم ہو سروقار وطن
اور اس کے حسن کو اندیشہء ماہ وسال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گذارنے کی بھی مجال نہ ہو

گستاخی ہو رہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میرا تو امریکا سے کوئی تعلق نہیں ہے میں ہتھیار کیوں اٹھاؤں ۔قربان ہوجائیے ان اسلاف پر ان دو ننھے منے بچوں پر کہ جب فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دربامیں یہ کیس آیا کہ ایک پادری کو مسلمانوں کے بچوں نے ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کر دیا ہے تو فاروق اعظم نے بچوں کو بلایا اور بڑے بڑے عیسائی جمع تھے اور وہ کہہ رہے کہ آپ ان بچوں سے ہمارے پادری کے خون کا بدلہ لیں تو فاروق اعظم نے ان بچوں کو دربار میں بلایا اور پوچھا کہ تم نے اس کو کیوں مارا تو وہ کہنے لگے کہ اے امیر المؤمنین ہم وہاں گیند سے کھیل رہے تھے تو ہماری بال ان کے گرجا گھر میں چلی گئی تو وہ پادری باہر آیا اور کہتا ہے کہ بلاؤ اپنے نبی محمد کو جو مجھ سے تمھیں یہ چیز واپس دلائے بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا کوئی مشورہ نہیں کیا کہ ابا سے پوچھتے ہیں ۔

بلکہ ان بچوں نے انہیں ڈنڈوں سے مار مار کر اس بے غیرت پادری کا کلیجہ باہر نکال دیا آج ہمیں ان بچوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے غازی ملک ممتاز حسین قادری نے اپنے ننھے بچے کا خیال نہیں کیا رسول اﷲ ﷺ کی عظمت کی خاطر ان کی شان کی خاطر شان رسول ﷺکانفرنس میں شرکت کرنے والے لوگو !غازی ممتاز حسین قادری نے کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ غیرت ایمان کا مظاہرہ کیا اور نبی کریم ﷺ کے عظیم مجاہدین کی صف میں شامل ہونے کے لیے ان بے غیرت شیطان تاثیر کو پورا برسٹ مار کر واصل جہنم کر دیا۔آج آپ سے بہت کام چاہتا ہوں کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ اس مملکت پاکستان میں ایران اور سعودیہ کی لڑائی لڑی جارہی ہے ایک طرف سعودیہ ،سپہ صحابہ کو جماعۃ الدعوہ کو پیسے دیتے ہیں ادھر ایران شیعوں کو پیسہ دیتا ہے اور کچھ بکے ہوئے نام نہاد کے ٹھیکیداروں کو پیسہ دیتا ہے پھر کیا ہو رہا ہے کچھ شیعوں کا تحفظ کر رہے ہیں کچھ تفضیلی ہوتے جارہے ہیں ۔کچھ سعودی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118420 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More