یہ بازی جان کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے
کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا سیاسی کارکن ضرور اس شعر سے واقف
ہے۔یہ شعر نصیر کوی مرحوم کا لازوال شعر ہے جو کہ اب ایک نعرہ بن چکا
ہے۔نصیر کوی مرحوم کا تعلق جہلم سے تھا۔جہلم سے یاد آیا کہ نصیر کوی مرحوم
کے ایک اور ہم عصر جو ابھی تک شعرو سخن کی خدمت کر رہے ہیں ان کا تعلق بھی
جہلم سے ہے۔میری مرادبھارت کے معروف ادیب و شاعر ’’گلزار‘‘ سے ہے۔گلزار کا
اصل نام ’’سمپورہ سنگھ کالرہ‘‘ہے۔ ان کی پیدائش جی ٹی روڈ پر ضلع جہلم کے
قصبہ دینہ کے محلہ ’’کالرہ‘‘ سے ہے۔تقسیم کے بعد بھارت جابسے شاعر کی
وابستگی و محبت اب بھی اپنے آبائی علاقے سے تروتازہ ہے۔اسی وابستگی و محبت
کا اظہار گلزار نے کچھ یوں کہ
ذکر جہلم کا ہے ‘
بات دینے کی
چاند پکھراج کا ‘
رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی
ادھڑی ہوئی چاندی
رات کوشش میں ہے
چاند کو سینے کی
اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں ۔ نصیر کوی مرحوم نے نہ جانے کس آہنگ میں کس
ترنگ میں وہ نظم لکھی کہ جس کا حاصل مندرجہ بالا شعرہے مگر عالم گواہ ہے کہ
ان کی بات سچ ثابت ہوئی ۔میرے علاقہ یعنی تحصیل کلرسیداں کے ہر گاؤں بلکہ
ہر ڈہوک میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونیوالے ایک نہ ایک بچے کی
عرفیت ’’بھٹو‘‘ تھی۔کیونکہ اس وقت ہر صاحب بصیرت اور غریب کی امیدوں کا
محور شہید بھٹو کی طلسماتی شخصیت تھی۔ ان کو ہر مسلۂ کا حل ’’بھٹوازم‘‘ میں
نظر آتاتھا۔ اگر تعصبات سے ہٹ کے دیکھا جائے تو آج بھی ’’بھٹوازم ‘‘ ہی
مشکلات کا حل ہے۔
ذرا ماضی میں چلتے ہیں اور بھٹو ازم پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کیوں
’’ہر گھر سے بھٹو نکلا‘‘ کیوں پیٹھ پر ظلمت میں لتھڑے کوڑے جب چوٹ لگاتے
تھے تو کارکن کی زبان سے ’’جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ بلند ہوتا تھا۔کیوں شہید
بھٹو کے عشق میں لوگ ’’آتش ضیاء‘‘میں بے خطر کود پڑتے تھے۔کیوں سالوں کا
جبر تا حال ’’بھٹوازم‘‘ کو مارنہ سکا،کیوں بکاؤمال لکھاریوں کے قلم لاکھوں
کروڑوں صفحے سیاہ کرنے کے باوجودبھٹو ازم کو مدھم نہیں کر سکے۔کیوں قیدوبند
کی صعوبتیں ،جلاوطنی کے دکھ،دیار غیر میں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے صدمے
شہید بھٹوکے شیدائیوں کو متزلزل نہ کرسکیں۔ شہیدبھٹوقبر سے حکومت کرتارہاہے
اور آج بھی کر رہاہے۔اور اگر اس کے فلسفے کو پھر سے اصل روح اور حسن نیت سے
اپنا لیا جائے تو تا قیامت یہ دلوں پر حکومت کرتا رہے گا۔ ہر حال میں لوگ
’’جئے بھٹو ‘‘ کی صدا کو نعرہ مستانہ سمجھ کر بلند کرتے رہیں گے اور بھٹو
ازم کا پرچار بطور عقیدت کرتے ہیں گے۔
سوال یہ تھا کہ کیوں لوگ بھٹو کے نام پر جان نچھاور کرتے رہے اور کر رہے
ہیں۔اس کیوں کا جواب چند فقروں میں یوں دیا جا سکتاہے کہ بھٹو شہید نے سپنے
جو اس ملت غریب کو دکھائے ان سپنوں میں شہید بھٹو نے حقیقت کا رنگ بھرنے کی
کوشش کی اور یہ کوشش کرتے کرتے استعمارواستکبار کی آنکھ میں کھٹکنے لگے
اورپھر انتہائی دلیری و جرات سے موت کو گلے لگا لیا مگر اپنے نظریہ سے
غداری نہیں کی۔
شہید بھٹونے ’’ روٹی،کپڑا،مکان‘‘ کا نعرہ دیا تو اپنی ہزاروں کنال زمین سے
از خود ہاتھ دھودیئے۔ کراچی اسٹیل ملز جیسا عظیم تحفہ ملک کو دیا جس سے آج
تک ہزاروں محنت کش روزی کما رہے اور ملکی ضرورت کا فولاد بھی ملک کے اندر
پوراہورہاہے۔سرمایہ دار جب مزدور کی محنت کا استحصال کر رہا تھا تو اس
استحصال کا خاتمہ ’’نیشنلائزیشن‘‘ سے کیا۔تعلیم عام کرنے کے لئے طلباء کو
سفری سہولیات مفت فراہم کئیں۔فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے پیشہ ور اور غریب
افراد کے لئے ’’پیپلز اوپن یونیورسٹی‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج ’’علامہ اقبال
اوپن یونیورسٹی‘‘ کے نام سے خدمات سرانجام دے رہی ہے۔( نام اس لئے تبدیل
کیا گیا کہ اس فائدہ مند ادارے کو بند کرنا ممکن نہ تھا)یہ ملک دشمن اور
اپنوں کے زخموں سے چور چور تھا اور دو لخت ہو چکا تھا تو دوسری عالمی
اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد پاکستان میں کرواکے اسے عالمی تنہائی سے
نکالتے ہوئے راہبری کی صفوں میں لے ائے اور ایک اسلامی بلاک کا خاکہ پیش
کیا جس میں بڑے بڑے منصوبے دیئے اپنی اور اپنے ملک کی خدمات بھی پیش کیں۔
جب نوے ہزار قیدی اورہزاروں مربع فٹ موجودہ پاکستان کا رقبہ دشمن کے پاس
تھاتو نہ صرف وہ قیدی واپس لئے بلکہ اپنا رقبہ بھی واگزار کروایا۔ جب شکست
سے پاک فوج ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی تو اس کو از سر نو جدید خطوط پر استوار
کیا۔ جب دشمن نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو گھاس کھانے کا اعلان کر کہ ملک
عزیز کے ایٹمی پروگرام کو شروع کیا جس کا ثمر ہم نے شہید بھٹو کی شہادت کے
بعد حاصل کیا۔
کیا وجہ ہے کہ اتنا تابناک ماضی رکھنے والی پارٹی ،ایک غیرطبقاتی اور غریب
پرور منشور رکھنے والی پارٹی،کارکنوں کے اذہان میں میں عقیدہ کی طرح بسنے
والی پارٹی آج محدود ہو گئی ہے۔کیوں آج اس کا ووٹ بینک بکھر ساگیا ہے۔کیوں
آج لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ اب ووٹ کی تقسیم یعنی ’’پروبھٹو‘‘
اور’’اینٹی بھٹو‘‘کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔
اس کا جواب اور موجودہ قیادت کومشورہ صرف اور صرف آخری چند لائنوں میں حاضر
ہے کہ ہم آج ’’بھٹوازم‘‘ کی اصل کو چھوڑ چکے ہیں۔ ہم غریب کی بات کرنے کے
بجائے پرائیوٹائزیشن اور آزاد منڈی کی بات کرتے ہیں۔کارکن کی عزت و تکریم
کے بجائے ’’وننگ ہارسز‘‘ پر توجہ مرکوزکئے ہوئے ہیں۔عوامی خدمت کے بجائے
ہماری ترجیح ’’ذات‘‘ بن چکی ہے۔
اس صورتحال میں ہمیں پھر سے تخت گرانے ہوں گے پھر سے تاج توڑنے ہوں گے اور
پھر سے استعمار کے گریبان میں پکڑنے ہوں گے اور پھر جا کے ’’ ہر گھر سے
بھٹو نکلے گا ‘‘ اور پھر جا کے ’’ راج کرے گی خلق خدا‘‘ |