اخبارات میں روزانہ ایسی خبریں ہماری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں ۔
مثلاِِِ قتل ،ڈکیتی ،اغوء برائے تاون ،گینگ ریپ ،چوری،رہزنی او ر دوسرے غیر
قانونی کام یعنی منشیات ، قحبہ خانے وغیرہ ۔ ہم جب بھی دیکھتے ہیں ۔ تو اس
قسم کے کاموں مٰیں ملوث عناصر اتنا بڑا کام کرنے کے باوجود بھی آخر ناقص
تفتیش یا قانونی خامیوں کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں ۔ اور یہ لو گ عادی ہو کر
دیدہ دلیری کے ساتھ دوسرےدن پھر وہی کام شروع کردیتے ہیں ۔ آج تک کسی
حکومتی ذمہ دار نے اس قسم کے جرائم کے لیئے سخت سزا کا کوئ قانون اسمبلی سے
پاس نہیں کرایا ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ ہمارے ملک پاکستان میں جو بھی غلط
کام ہو رہے ہیں ۔ ان سب کا یہی لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ پشت پناہی کر نے
والے ہو تے ہیں ۔ آپ اندازہ لگا لیں ۔ کہ اگر پی پی پی کی پانچ سالہ دور
حکومت میں ان لوگوں نے ایک بھی ایسا قانون اسمبلی سے پاس کرایا ہوتا ۔ کہ
اغوا ء برائے تاوان کی سزا سزائے موت ہو۔ تو آج سابق گورنر سلمان تاثیر
صاحب کا بیٹا یا یوسف رضا گیلانی صاحب کا بیٹا کو ئ سزا کے ڈر سے اغواء
کرنے کی جرات نہ کرتا ۔ میرے خیال میں قتل اغواء برائے تاوان کی سزا قصاص
اور چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹنا ہو تا ۔ تو آج ان لوگوں کی بچوں کو یہ ڈر نہ
ہوتا ۔ لیکن ہمارے سیاستدان وہ قانون بناتے ہیں جو ان کے لیے نہ ہو ۔ جس
قانون کے زد میں یہ لو گ خود آتے ہیں ۔ یہ وہ قانون بنا نے سے طوطا چشمی
اختیا ر کر لیتے ہیں ، جو حد درجے کی منافقت ہے۔ حال ہی میں کے پی کے
اسمبلی نے ارکان اسمبلی اور وزیر مشیروں کی تنخواہوں میں اضافے کا قانون
پاس کیا ہے ۔ لیکن اس حکومت کے کرتا درتا عمران خان نے الیکش سے پہلے قوم
سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اپنےحکومت میں ایسے قانون اسمبلی سے پاس کراؤنگا
۔جو عوام دوست ہو ۔ لیکن اس نے الٹا وزیر دوست قانون اسمبلی سے پاس کرائے ۔
اگر عمران خان اس کی بجائے اغواء برائے تاوان کےلیے سزا کا قانون اسمبلی سے
پاس کراتے ، تو ہم کہتے کہ یہی عوامی لیڈر ہے ۔ لیکن پاکستا ن کی بد قسمتی
ہے ۔ کہ جو بھی یہاں اقتدار میں آتا ہے وہ اپنے کئے ہو ئے وعدے بھول جاتے
ہیں ۔ جہاں بھی کو جرم جیسے ریپ وغیرہ کے کیس ہو جاتے ہیں۔تو یہی وزیر مشیر
فوراِِ وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ او ر مجرموں کے جرم کا رونا شروع کردیتے ہیں ۔
لیکن اس جرم میں یہی وزیر مشیر برابر کے شریک ہیں ۔ جن کے ہاتھ میں اس کا
حل ہےلیکن اپنی کچھ حکومتی مجبوریوں کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں ۔ اس جرائم
کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ تاکہ ہماری
آنے والی نسلوں کی عزت کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ ان لو گوں کو عوام سے کوئ
سروکار نہیں ۔ یہ بس حکومت کرتےہیں ۔ باقی عوام تو یہ وزیر مشیر ان کے باپ
کے نوکر تھوڑی ہیں ۔ کہ ان کے غم میں ہلکان ہو ۔ میں یقین سے کہتا ہوں ،کہ
اگر کسی حکومتی رکن اسمبلی نےاس قسم کی قرارداد اسمبلی میں پیش کیا ۔ تو اس
کی شامت آجائیگی ۔ کیونکہ ان کا تو کاروبا اسی جرائم کی وجہ سے چلتا ہے۔ اس
ملک کی حالت اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتی ۔ جب تک یہاں قرآن کے مطابق اس میں
قانون سازی نہ کیجائے ۔ آپ ایک نظر ایران پر ڈالیں ۔ وہاں پر شیعہ مسلک کے
ماننے والوں کی حکومت ہے ۔لیکن ان کا آئین پورا قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔جو
قتل کی سزا قصاص یعنی قتل ہے ۔چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ۔زنا کی سزا سنگساری
ہے ۔ اور اس لئے کو ئ اس قسم کے جرم کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتا ہے ۔ کاش
ہمارے ملک پکستان میں بھی ایسے قانون بنانے والے حکمران آجائے ۔ تو یہ ملک
اصلی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستا ن بن جائے گا ۔ لیکن ہم پاکستانی آج
بھی اس عطار کےلونڈے سے دوا لیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمار اسسٹم بیمار ہے ۔
اللہ پاکستان کو روشن خیالو ں کے چالوں اور فریب سے محفوظ فرمائیں ۔ اور ہم
کو سچے اور پکے دین کے تابعدا ر بنا لے ۔اور نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں ان
مو لو یوں کی شر سے محفوظ فرمائے۔ یہی لو گ اس پاکستا ن کے خرابی کے اصل جڑ
ہیں ۔ ورنہ اگر یہ چاہے تو کبھی بھی لادین قوتیں پاکستان کو اخلاقی نقصان
نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن یہ بھی اپنےمفادات کے چکر میں اس روشن خیالوں کی ہاں
میں ہاں ملا رہے ہیں ۔ اور ببانگ دہل گلہ پھاڑ پھاڑ کر حکومت وقت کو للکار
رہے ہیں ۔ کہ ہمار ا صبر کا امتحان نہ لو ۔ ہمیں وزارتیں دو ،،ورنہ،، تو آپ
خود سوچ لیں کہ جس انسان کی قیمت صرف ایک یا دو وزارتیں ہو ۔ تو وہ ہمارے
ملک میں اسلامی قانون سازی کے لیے آواز کیا بلند کرلےگا ۔ اللہ ہم کو انکی
چالاکیوں سے اپنے امان میں رکھے ۔ آمین |