حکومت سے توقعات اور خدشات

مسلم لیگ (ن)اِس لحاظ سے بڑی ’’مالا مال ‘‘ہے کہ اُسے ورثے میں اتنا ڈھیروں ڈھیر ملا، جو اُس سے سنبھالے نہیں سنبھلتا ۔خود کش حملے ، بم دھماکے ، مہنگائی ، بھوک ،ننگ ، خالی خزانہ ، لوڈ شیڈنگ ، بربادیوں کے بحرِ بے کنار میں غوطے کھاتی معیشت ، برداشت کی حدیں توڑتے عوام اور سب سے بڑھ کر طالبان اور پرویز مشرف۔خادمِ اعلیٰ نے تو حسبِ سابق دِل بہلانے کے بہانے ڈھونڈھ لیے لیکن بڑے میاں صاحب کے حصّے میں آئے طالبان اور پرویز مشرف ۔ وہ دل ہی دل میں یہ تو ضرور کہتے ہونگے کہ
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گَر کو مَیں

یوں تو میاں صاحب نے محترم پرویز رشید کو ’’نوحہ گری ‘‘کافریضہ ادا کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور پرویز رشید صاحب گاہے بگاہے روتے پیٹتے عوام کو ’’کڑوی گولیاں‘‘ کھانے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں لیکن عبث کہ یہ دھیمے مزاج کے پرویز رشید صاحب کے بَس کا روگ نہیں ۔اگر خواجگان (خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق)میں سے کوئی ہوتا تو کوئی بات بھی تھی لیکن پرویز رشید صاحب تو جب انتہائی جلال میں ہوتے ہیں ، تب بھی اُن کے فطری ’’دھیمے پَن‘‘ کو دیکھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

جَلا وطنی کی کوکھ سے جَنم لینے والے میاں صاحب اُس باغ و بہار شخصیت کے مالک میاں نواز شریف سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں ۔طبیعت میں ٹھہراؤ ، چہرے پر گھمبیر خاموشی اور ہونٹ تو جیسے مسکرانا بھول ہی گئے ہوں ۔لیکن ایک بات ہے کہ طبیعت کا جیالا پَن تا حال بر قرار ہے اِسی لیے تو اُنہوں نے پرویز مشرف صاحب کا نام ECL سے نکالنے سے صاف انکار کر دیااور یہ جواز بناتے ہوئے بال ایک دفعہ پھر عدلیہ کی کورٹ میں پھینک دی کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پرپرویز مشرف کا نام ECL میں ڈالا گیا تھا ، اب اُسی سے رجوع کیا جائے ۔مشرف صاحب بھی ماشاء اﷲ صحت یاب ہو کر رات کے 2 بجے AFIC کے پچھلے دروازے سے نکل کر گھر سدھار چکے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے عدالتی پیشی نے اُن کے دِل کے ’’بائی پاس‘‘ کا سا کام کر دکھایا ہو ۔اِس لیے اگر کوئی ’’ہمارے لیڈر‘‘ کا نام ECL میں ڈال کر اپنا شوق پورا کرنا چاہتا ہے تو کرتا پھرے کیونکہ ہمارے کمانڈو کو اب ’’چَک شہزاد‘‘ میں وہ سب کچھ میسر ہے جس کی قوم صرف تمنّا ہی کر سکتی ہے ، حاصل نہیں ۔

اُدھر خادمِ اعلیٰ ہیں کہ طوفانوں کا رُخ موڑنے کے لیے ہمہ وقت بیتاب ۔بیوروکریٹس ، جو کسی زمانے میں’’ فراعینِ وقت ‘‘ہوا کرتے تھے ، اب اُن کے سامنے سہمے ہوئے کبوتربنے بیٹھے ہیں ۔بھلا یہ بیوروکریٹس کس کھیت کی مولی ہیں، خادمِ اعلیٰ تو اپنے وارثِ اعلیٰ کو بھی یہی درس دیتے رہتے ہیں کہ
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پِسر
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

ہمہ وقت ، ہمہ تَن و ہمہ دَم مصروفِ پیکار خادمِ اعلیٰ ایک پَل کے لیے چین سے بیٹھتے ہیں ، نہ کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں ۔خود تو شاید وہ بے خوابی کے مَرض میں مبتلاء ہیں لیکن دوسروں کی نیند ’’ایویں خوامخواہ ‘‘ اُڑائے رکھتے ہیں ۔اگر کوئی دَست بَستہ عرض کرے کہ ’’سرکار سانوں وی ساہ کَڈ لَین دیو‘‘ تو فوراََ ارشاد ہوتا ہے
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دَم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرۂ افتاد

وہ جب کبھی غیر ملکی دَورے پہ نکل جاتے ہیں تو سبھی سُکھ کا سانس لیتے ہیں لیکن یہ ’’سُکھ چَین ‘‘ وقتی اور لمحاتی ہوتا ہے کیونکہ وہ پلک جھپکتے میں جھولی بھَر کر لوٹ آتے ہیں ۔پتہ نہیں اُن کے پاس کون سی ’’گیدڑ سِنگھی‘‘ ہے جس کے زیرِ اثر وہ غیر ملکی سَربراہان کو مَدہوش کرکے ، جھولیاں بھر لاتے ہیں ۔مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ایک خاں صاحب نے KFC کے آپریٹر کو فون کرکے اپنا آرڈر لکھواتے ہوئے کہا ’’4 فرائڈ چِکن ، 6 زنگر برگر ، 6 ہاف لٹر پیپسی اور چپس‘‘ ۔ آپریٹر نے مؤدبانہ انداز میں کہا ’’ سَر ! کِس کے نام پر‘‘؟۔ خاں صاحب نے فرمایا ’’ اﷲ کے نام پر‘‘۔خادمِ اعلیٰ بھی اپنے ’’پَلّے‘‘ سے کچھ نہیں دیتے ، سب کچھ مفت میں بٹورتے ہیں ۔ چین سے 32 ارب ڈالرکے منصوبے اور ترکی سے پتہ نہیں کیا ،کیا کچھ وصول کرچکے ہیں لیکن بہت کچھ وصول کرنے کی تمنّا ۔اُنہوں نے آپریشنز اور خطرناک ملزموں کی گرفتاری کے لیے لاہور ، ملتان ، راولپنڈی ، فیصل آباد ، سرگودھا اور بہاولپور میں پولیس فورس کو ہیلی کاپٹرز دینے کا منصوبہ بنایا لیکن منصوبہ بنانے سے پہلے چین اور ترکی سے مالی معاونت کا وعدہ بھی لے لیا۔شنید ہے کہ فی الحال 6 ہیلی کاپٹرز لاہور ، راولپنڈی اور ملتان کی پولیس کو دیئے جا رہے ہیں ۔چلو اچھّا ہی ہوا کہ اب ہمارے پولیس والے بھی فضاؤں میں تیرتے پھریں گے ۔پہلے تو بیچارے شدید گرمی میں ’’ناکوں‘‘ پر ’’سُک سَڑ ‘‘ جاتے تھے جس کا سارا غصّہ وہ عوام پر ہی نکالتے تھے ۔اب شاید فضائی نگرانی ہی سے بات بَن جائے ۔

تین چار روز پہلے چنیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے خادمِ اعلیٰ نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ پنجاب حکومت اور چینی کمپنی میٹا لَرجیکل کارپوریشن آف چائینہ کے مابین لوہے کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے تاریخی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں اور ابتدائی معلومات کے مطابق چنیوٹ میں لوہے کے اعلیٰ کوالٹی کے اربوں ، کھربوں ڈالر کے ذخائر موجودہیں۔ زمین کی تہہ میں موجود لوہے کے ذخائر کے معیار اور مقدار کا حتمی تعین کرنے کے لیے مذکورہ چینی کمپنی نے 18 ماہ کا وقت مانگا لیکن چھوٹے میاں صاحب نے اپنی انگشت ِ شہادت زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا کہ نہیں ، صرف 10 ماہ میں یہ رپورٹ مل جانی چاہیے ۔اب بیچاری چینی کمپنی’’ وَخت ‘‘میں پڑی ہو گی۔ہم تو یہی عرض کریں گے کہ میاں صاحب ’’ہَتھ ہولا رکھیں‘‘ یہ چینی کمپنی ہے ، آپ کے بیوروکریٹس نہیں ۔خادمِ اعلیٰ نے چنیوٹ میں دُنیا کی سب سے بڑی سٹیل مِل لگانے کا اعلان بھی کیا ۔بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ سٹیل مِل لگانے کے لیے اُنہوں نے کس کا ’’گلا ‘‘ تاڑ رکھا ہے ۔ویسے اگر کوئی میرا مشورہ مانے تو پہلے والی بیچاری ، مصیبت کی ماری ’’سٹیل مِل‘‘ بھی خادمِ اعلیٰ کے سپرد کر دینی چاہیے ۔جس سے خادمِ اعلیٰ کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور شاید برباد سٹیل مِل کے دن بھی پھِر جائیں ۔

کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔یہ یقیناََ خادمِ اعلیٰ کی صحبت ہی کا اثر ہو گا جو وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے رنگ پکڑا اور(پتہ نہیں کہاں سے) ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل کر لیے ۔ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک دوست ملک کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ بات پیپلز پارٹی کو ’’ٹھنڈے پیٹوں‘‘ ہضم نہیں ہو رہی ۔قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ صاحب اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بار بار حکومت سے پوچھتے ہیں ’’بتاؤ ! کیا چکر ہے‘‘ ۔دراصل پیپلز پارٹی والے اِس لیے پریشان ہیں کہ اُن کے دَور میں تحفہ تو دور کی بات ہے کوئی اُنہیں ادھار دینے کوبھی تیار نہیں تھا۔ نواز لیگ کو ڈیڑھ ارب ڈالر ’’ایویں ای‘‘ کیسے مِل سکتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی اِس تلملاہٹ کا مزہ لیتے ہوتے ہوئے حکومت تا حال ڈَٹی ہوئی ہے کہ یہ ’’تحفہ ‘‘ غیر مشروط ہے ۔دراصل یہ پھڈا اِس لیے پڑا کہ جب ’’دوست ملک‘‘ نے ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے تو ساتھ ہی ’’شرارتی‘‘ میڈیا نے شور مچا دیا کہ یہ پیسے سعودی عرب نے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب کی ذاتی گارنٹی پر دیئے ہیں ۔اب ظاہر ہے کہ اگر یہ ’’تحفہ‘‘ ہے تو گارنٹی کیسی اور اگر واقعی گارنٹی دی گئی ہے تو کِس بات کی ؟۔پیپلز پارٹی تو شور مچا رہی ہے لیکن تحریکِ انصاف بالکل خاموش ہے ۔وجہ شاید یہ ہو کہ محترم عمران خاں صاحب تو خود ’’بٹورنے‘‘ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور وہ تو اِس فَن میں اتنے ماہر ہیں کہ ’’کھالیں‘‘ تک اتار لیتے ہیں اِس لیے تحریکِ انصاف نے سوچا ہو گا کہ اگر اُن کارہنما اِس فَن میں طاق ہو سکتا ہے تو کوئی دوسرا کیوں نہیں؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 643865 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More