اشتعال انگیز تقریر: عمران مسعود پر کارروائی اور ہیرا لال پرکیوں نہیں؟

ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے خفیہ افسران اور پولیس کومسلمانوں کو پکڑنے کا بہانہ چاہئے۔کہیں سے بھی کوئی سرا مل جائے توفوراً دو چار مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔مسلمانوں کو کوئی قتل کردے توبھی خفیہ افسران اور پولیس کوکچھ نظر نہیں آتا لیکن قتل عام کے ذمہ دار کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر لاکھوں بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ کسی نے دھمکی دی یا نہیں یہ کوئی خفیہ ایجنسی سے پوچھنے کی زحمت نہیں کرتا۔ بس بہانہ چاہئے کہ وہ نریندر مودی کی ریلی کو سبوتاژکرنے کی سازش رچ رہا تھا۔اس کے بعد ہندوستانی (ہندوتوا میڈیا) میڈیا بے سر پیرکی اسٹوری چلانا شروع کردیتا ہے کہ مودی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ یہ اڈوانی مارنا چاہتا تھا۔ یہ آر ایس ایس کے خلاف سازش کر رہا تھا۔یہاں تک کہ کچھ دن قبل تک سچن تندولکر کے خلاف سازش کی بات بھی کہی جارہی تھی اور جوبھی بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا اس کے بارے میں یہ ضرور کہا جاتا کہ یہ تندولکر کو مارنے کے فراق میں تھا۔ کیوں کہ ہندوستانی پولیس، خفیہ ایجنسی اور عدلیہ میں جواب دہی کافقدان ہے اس لئے عدالت بھی پولیس پر پختہ ثبوت پیش نہ کرنے یا جھوٹے ثبوت گڑھنے کے خلاف کوئی ایکشن کا حکم نہیں دیتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ابھی حال ہی رہا ہونے والے سید واصف حیدرپر گیارہ بم دھماکوں میں ملوث کرنے والے پولیس افسران کے بارے میں زبردست تبصرہ کیا جاتا ۔ان پولیس افسران کے خلاف نہ صرف مقدمہ چلایا جاتا بلکہ سید واصف حیدرکے گیارہ سال برباد کرنے کے جرم میں ان پولیس افسران پر جرمانہ عائد کیا جاتااور سخت سزا دی جاتی۔ 65کلو آر ڈی ایکس برآمد کرنے کا الزام عائد کرنے والے افسران دھماکہ خیز مادہ پیش کرنے کو کہا جاتا ورنہ یہ اعتراف کروایا جاتا کہ انہوں نے برآمد کرنے کا جھوٹا الزام کیوں لگایا تھا اور الزام لگوانے کے سرغنہ کو تلاش کرایا جاتا۔ معاملے کی تہہ میں جانا بھی عدالت کی ذمہ داری ہے۔ اب جب کہ مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہے پولیس افسران کے ایک ایک قدم پر نظر رکھی جاتی ہے کہ ان کا یہ قدم کسی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے تونہیں ہے۔ الیکشن کمیشن تمام چیزوں پرنظر رکھتا ہے اور فوراً قدم اٹھاتا ہے لیکن مسلمانوں کے معاملے میں الیکشن کو کمیشن کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس موقع پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے صاف ظاہر ہے کہ نیکر دھاری پولیس اور خفیہ بیورو کے افسران صرف بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کو فائدہ پہونچانے کیلئے گرفتاریاں کر رہے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی دیدہ دلیری تودیکھئے ایک ضعیف عالم دین کو ایک پرانے کیس میں گرفتار کیا گیا جس میں سب لوگ رہا ہوچکے ہیں۔ ا س سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کیا یہ آئندہ عمل کا واضح اشارہ ہے۔ان گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں پر وہی گھسا پٹھا الزام لگایا ہے کہ وہ نریندرمودی کے خلاف سازش کررہے تھے۔ یہاں کی عدالت خوشی خوشی پولیس کو ٹھوس ثبوت پیش کئے بغیر 14 دن یا زیادہ کی ریمانڈ دے دیتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدلیہ میں جواب دہی کتنی ہے کیوں کہ جمہوریت کے چاروں ستون کومعلوم ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی کرلیا جائے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے اورنہ کوئی جواب دہی ہے۔ اسی لئے پولیس افسران بھی اپنی کارکردگی دکھانے اور پولیس میڈل حاصل کرنے کیلئے پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے والے یا اس شعبہ سے وابستہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ اگر تھوڑی سی بھی جواب دہی ہوتی ہے توپولیس اورخفیہ افسران کی ہمت نہیں ہوتی۔یہی حال ہے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کا ہے اگر کوئی مسلمان کسی ہندو لیڈر کے خلاف کوئی اشتعال انگیز تقریر کرتا ہے تو اسے فوراً مختلف دفعات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے جبکہ فرقہ پرست اور فسطائی پارٹی سے وابستہ کوئی لیڈر کتنا بھی زہر اگلے یہاں کا نظام عدل اسے سزا دینے میں ناکام رہتا ہے۔

نریندر مودی کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں کانگریسی امیدوار عمران مسعود کو 14 دنوں کے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا جو اب ضمانت پر باہر ہیں ۔ دیوبند تھانے میں ان کے خلاف درج کیس میں بہت ہی سنگین دفعات لگائی گئیں ہیں ۔مودی کے خلاف انہوں نے جو تقریر کی ہے وہ چھ ماہ پرانی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوٹیج یہ الیکشن کے دوران ہی کیوں جاری کیا گیا اور پولیس نے بغیر کسی تفتیش کے ان کے خلاف اتنے سنگین دفعات کیوں لگائے۔ وہ انہوں نے 2009میں بی جے پی لیڈر وارون گاندھی کے خلاف کیوں نہیں لگائے تھے۔ ان کا بیان انتخابات سے منسلک نہیں تھا۔اس ویڈیو میں ان کے پاس کھڑے شخص کی موت ہو چکی ہے ۔بی جے پی نے اس تقریر پر تنقید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں مسعود کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے اور انہوں نے اس ادارے سے مودی سمیت اپنی پارٹی کے تمام رہنماؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کو کہا ہے۔ وہیں بی جے پی کے نائب صدر مختار عباس نقوی نے یہ الزام لگایا ہے کہ سیاسی سیکولرزم ' طالبان سیکولرزم ' میں تبدیل کر رہی ہے۔نقوی نے کہا کہ کانگریس کے لیڈر جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں اس سے انتخابات کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔اس مبینہ ویڈیو میں عمران مسعود ، مودی کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔عمران مسعود کہہ رہے تھے ،’’میں سڑک کا آدمی ہوں ، اپنے لوگوں کے لئے جان بھی دے سکتا ہوں ... نہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں ، نہ مارنے سے ... وہ ( نریندر مودی ) سمجھتے ہیں یہ گجرات ہے .. گجرات میں صرف چار فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ، جبکہ یہاں 42 فیصد مسلمان ہیں ... " اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد اس پر تنقید ہوئی تھی ۔ اگرچہ عمران مسعود نے بھی اس بیان کے لئے معافی مانگ لی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا ، '' میں مانتا ہوں ، میں نے غلطی کی ہے اور انتخابات کے دوران ایسی باتیں نہیں کہی جانی چاہئے‘‘۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے ممبر اسمبلی ہیرا لال نے کانگریس کی صدر اور ترقی پسند اتحاد کی چیرپرسن محترمہ سونیا گاندھی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے نہایت اشتعال انگیز اور انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے الفاظ کااستعمال کیا جسے ہمیں لکھنا خلاف تہذیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بی جے پی نے اس کے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ ٹیلی ویژن مباحثہ میں بی جے پی کا ایک ترجمان ان کے دفاع میں مکمل طور پر اتر آیااورکہاکہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے۔ پولیس کے ان کے خلاف اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ہم عمران مسعودی کی حمایت نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کی تقریر کو انتہائی اشتعال ،قابل مذمت اورقابل سزا تصور کرتے ہیں۔ ہم صرف امتیاز کے خلاف ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران معسود کو گرفتار کرنے میں پولیس نے نہایت ہی سرعت کامظاہرہ کیا تھا اس سے پہلے بھی جن مسلمانوں نے بھی اشتعال انگیز تقریر کی انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا۔اس سے اکبر الدین اویسی کو ۸ جنوری کو نفرت انگیز تقریر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ نفرت انگیز تقریر کیا ہے اور کون سی چیزیں نفرت انگیز تقاریر، تفرقہ پھیلانے والے کلمات کے زمرے میں آتی ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق وہ ایسی باتیں یا کلام کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا گروہ کو نسل، رنگ، مذکر مونث، معذوری، جنسی سمت، قومیت، مذہب، یا کسی خواص کی بنا پر بدنام کرے۔قابل دراندازیِ قانونی تناظر میں نفرت انگیز باتیں' ایسے ابلاغ، عمل یا مظاہر کو کہتے ہیں جو اس بنا پر غیر قانونی ہو کہ اس سے کسی فرد یا گروہ کے خلاف زیادتی پر اکسانے کا خدشہ ہو، یا یہ کسی کی تذلیل کرتا ہو یا انہیں دھمکاتا ڈراتا ہو۔ان الفاظ پر غور کریں تو ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کا کوئی لیڈر نہیں بچے گا جو ان زمروں میں نہ آتاہو۔ خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو سینا، بجرنگ دل، مہاراشٹر نونرمان پارٹی اور دیگر پارٹیاں رات دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں اور مسلمانوں کے نہ صرف مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں سے تمام حقوق چھین لینے کی بھی باتیں کرتی ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صف اول کے رہنما ایل کے اڈوانی نام بھی سرفہرست ہے۔ انہوں نے مختلف یاتراؤں میں مسلمانوں کے خلاف جم کر زہر اگلتے رہے اور رام جنم بھومی کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں بابری مسجد شہید ہوئی ۔ اس موقع پر کارسیوکوں کو بابری مسجد شہید کرنے کے لئے اکساتے رہے۔ مئی 2009میں بابری مسجد شہادت کے دن ایل کے اڈوانی کی حفاظت پر مامور آئی پی ایس افسر انجو گپتا نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ مرکزی کزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران اس معاملے کی کلیدی گواہ انجو گپتا نے کہا تھا کہ مسٹر اڈوانی کی تقریر اشتعال انگیز اور جوشیلی تھی اڈوانی بابری مسجد کی شہادت کے وقت نہایت خوش تھے وکارسیوکوں کو ورغلارہے تھے بار بار ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ مندر یہیں بنے گا۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج گلاب سنگھ کی عدالت میں بیان درج کرانے والی آئی پی ایس آفیسر نویں گواہ ہیں۔ وہ واحد آفیسر ہیں جنہوں نے اپنا بیان ریکارڈ درج کرانے پر اتفاق کیا تھا جبکہ زیادہ تر آفیسروں نے سیاسی تنازعہ میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا۔محترمہ گپتا کا بیان 1993 میں مسٹر اڈوانی مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونے کٹیار، اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا اور سادھوی رتمبھرا کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کے لئے اہم بنیاد بنا تھا۔ابتدا میں ان آٹھوں افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی، 147، 149، 153 اے، 153 بی اور 505 کے تحت الزامات عائد کئے گئے تھے۔ یہ دفعات عام طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور اکسانے کے معاملہ میں لگائے جاتے ہیں۔ جولائی 2005 میں مسٹر اڈوانی کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے بدامنی پھیلانے کے علاوہ فرقوں کے درمیان دشمنی کا جذبہ پیدا کرنے کے ارادے عوام کو دنگا فساد کرنے، لوٹ پاٹ کے لئے اکسانے کا چارج دوبارہ بحال کردیا تھا لیکن ان کے لوگوں کے خلاف پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ 17برس کے مقدمہ میں ابھی تک(2009) صرف چھ گواہ ہی پیش ہوئے تھے ، مقدمہ کا فیصلہ عمر نوح لے کر آنے والے ہی لوگ سن اور دیکھ سکیں گے۔ مقدمہ کافیصلہ آتے آتے بابری مسجد کے اصل قاتل اڈوانی اگر حیات ہوں گے تو عمر کی کس منزل میں ہوں گے کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔

فروری ماہ کے آخری ہفتے میں (2003) ہی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک نوٹس جاری کیا تھا تاکہ’’ اشتعال انگیز بیان ‘‘دینے کے لئے نریندر مودی، اشوک سنگھل جیسوں پر سخت کارروائی کی جا سکے۔اس نے گجرات پر اپنے آخری حکم (31 مئی 2002) کے تحت توگڑیا، مودی، سنگھل اینڈ کمپنی کے مختلف نفرت انگیز بیانات پر غور کرتے ہوئے جنہوں نے گودھرا کے افسوسناک واقعہ کے بعد ماحول کو زہر آلود بنانے میں کردار ادا کیاتھا، کے سلسلے میں ہدایت دی تھی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی اشوک سنگھل کے ذریعہ دیئے جا رہے نفرت پھیلانے والے بیانات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے بیان آتے رہے تو’’نئے سرے سے تشدد بھڑک سکتا ہے اور پھر پہلے سے زیادہ پریشانی میں رہ رہے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے‘‘۔ (16 ستمبر 2002)سبرامنیم سوامی نے 16 جولائی2011 کو ایک انگریزی روزنامہ (DNA) کے لئے ایک مضمون لکھا تھا ۔انہوں نے اپنے مضمون میں اسلامی دہشت گردی کو ملک کی اندرونی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ووٹنگ کا حق نہ دئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ملک مخالف قرار دیا تھا۔سوامی نے تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے ہندو قوم کو اعلان کر دینا چاہیے اور یہاں غیر ہندوؤں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں یا ان جیسے غیر ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو ووٹ دینے کا حق تبھی ملنا چاہیے جب وہ فخر سے یہ بات تسلیم کریں کہ ان کے آباء و اجداد ہندو تھے۔ سوامی نے اپنے مضمون میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ سخت گیر مسلمان ہندو اکثریت والے ہندوستان پر فتح کو اپنا ایسا ایجنڈا سمجھتے ہیں ، جسے پورا کیا جانا ابھی باقی ہے۔میں مسلم کٹر پسندوں کو ہندوؤں کو نشانہ بنائے جانے کے لیے قصور وار نہیں مانتا بلکہ ہندوؤں کو قصوروار مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو خود کو ون مین آرمی کے طور پر پیش کرتا ہے ، بے حد فرقہ وارانہ باتیں کرتا ہے اور اسے اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔سوامی نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا ، ہمیں مجموعی نقطہ نظر کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوؤں کو اسلامی دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔اگر کوئی مسلم اپنی ہندو وراثت کو قبول کرتا ہے تو ہم ہندو اسے وسیع ہندو سماج کے حصے کے طور پر قبول کر سکتے ہیں ۔دوسرے لوگ جو اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یا جو غیر ملکی رجسٹریشن کے ذریعے ہندوستانی شہری بنے ہیں ، وہ ہندوستان میں تو رہ سکتے ہیں لیکن انہیں رائے دہندگی کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ہندوؤں کو متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ہندو ؤں کو حلال کیا جانا قبول نہیں کر سکتے‘‘۔ اس کے علاوہ ورون گاندھی میں 2009 کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے اپنے انتخابات کے دوران پیلی بھیت کے عام جلسہ کی تھی۔ جس میں ورن گاندھی نے کہا تھا: 'یہ پنجہ نہیں ہے، یہ کمل کا ہاتھ ہے. یہ کٹ …… کے گلے کو کاٹ دے گا انتخابات کے بعد. جے شری رام! رام جی کی جے! ورن گاندھی کاٹ ڈالے گا! کاٹ دیں گے اس ہاتھ کو، کاٹ دیں گے، کاٹ ڈالے گا! ... 'اگر کسی نے، کسی غلط قسم کے آدمی نے، کسی ہندو پر ہاتھ اٹھایا ... تو میں گیتا کی قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میں اس ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا ․․․اس کے علاوہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے وابستہ کئی درجن رہنما اور لیڈر ہیں جو مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن قانون اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑنہیں پایا ہے۔صورت حال یہ رہی کہ پولیس ورون گاندھی کی آواز کا نمونہ تک حاصل نہ کرسکی اور عدالت نے انہیں اشتعال انگیزتقریر سے بری کردیا۔عدالت نے بھی آواز کا نمونہ دینے کے لئے ورون گاندی کو حکم نہیں دیا۔یوپی حکومت کا کمال کہ اس نے اس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل تک نہیں کی۔

اس ضمن میں وزارت داخلہ کی طرف سے سال 1997 میں’’مذہبی خیرسگالی ‘‘بڑھانے کے لئے جاری ہدایات 'پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے میں وہ ریاستی مشینری کی ذمہ داری کو طے کرتا ہے۔ ہدایات نمبر 15 میں کہا گیا ہے کہ’’ ایسے واقعات کو دوبارہ اور فوراً روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مناسب قدم اٹھائے۔ اس سلسلے میں اگرہندوستانی حکومت کی طرف سے سال 1979 میں منظور شدہ شہری اور سیاسی بنیادوں پر بین الاقوامی معاہدے کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت نے اس بات کے لئے اپنے اعہد کا اعادہ کیا ہے۔ کہ وہ'' تعصب، باہمی امتیاز یا تشدد کو فروغ دینے والی اندھی قوم پرستی ، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اقدامات پر قانون کے تحت پابندی عائد کریں گے ۔لیکن یہ صرف کاغذ پر ہے ۔ نریندرمودی مسلمانوں کو کتے کا بچہ تک کہہ دیتا ہے لیکن یہاں کے نظام عدل کو کچھ بھی غلط نظر نہیں آتا۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.