جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتی

اگر جنگ سے معاملات سدھر سکتے ہوتے تو امریکہ نے تایؤان سے برسہا برس جنگ کی لیکن مسئلہ کیا حل ہوا ۔امریکہ کو کامیابی ملی؟سفید ریچھ افغانستان پر حملہ آور ہوا لیکن کیا یہ ریچھ (روس )افغانیوں کا کچھ بگاڑ سکا۔افغانستان کو فتح کر لیا اس نے؟امریکہ اور اس کے اتحادی (دنیا کی تمام بڑی قوتیں)طالبان کو شکست دے سکیں؟۔جبکہ وہاں ان کی کٹھ پتلی حکومت بھی اقتدار میں ہے۔کتنی طویل جنگ کے بعد بالآخر امریکہ نے بھی منہ پٹا کر واپسی کا پروگرام بنا لیا ہے۔ہمارے اپنے ملک میں طالبان سے مذاکرات کی راہ میں وہ قوتیں رکاوٹ بن رہی ہیں جو نہیں چاہتیں کہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے۔تمام سکیولر سوچ رکھنے والے ان مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے۔دوسری طرف خود امریکہ طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہے لیکن پاکستانی حکومت کو مذاکرات نہیں کرنے دینا چاہتا۔اس کی تو پلاننگ ہی یہ ہے کہ اس کے جانے کے بعد پاکستان اور افغانستان کو آپس میں لڑوا دیا جائے تاکہ ان دونوں ملکوں میں کبھی سکون و امن نہ قائم ہو سکے۔یہی سوچ سیکیولر ذہن رکھنے والے لوگوں کی ہے۔ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح ان مذاکرات کو خراب کیا جاسکے۔اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی بھلائی کے لئے ان لوگوں کو کوئی کام نہیں آتا۔ان کے ذہن میں بس یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ ان مولویوں کو اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں یہ خوا مخواہ ہماری آزادی میں خلل ڈالتے ہیں۔ایسی سوچ ان لوگوں کی بن جاتی ہے جو اپنے عقائد کو اپنے دین اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ہمارا دین تو ہے ہی سراسر امن و سکون کا علم بردار۔اس دین میں تو سلامتی ہی سلامتی ہے۔ہمیں تو ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دے کرآپس میں میل جول قائم کرنے کو کہا گیا ہے ۔اسی لئے جو مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھے یا اس کے قریب سے گزرے تو السلام و علیکم کہے دوسرا اس پہلے شخص کو اس سے بہتر الفاظ میں جواب دے۔یہ بات ناسمجھ لوگوں کو اچھی نہیں لگتی۔اس میں ہمارا جاتا کیا ہے۔صرف زبان سے دعائیا الفاظ ادا کرنے سے کتنی نیکی ہم کما لیتے ہیں اس کا تصور تو کریں۔اس کے برعکس دوسرے کو اپنے دباؤ میں لینے کے لئے جھگڑا فساد پیدا کرنا کچھ لوگوں کو بہت پسند ہوتا ہے اس لئے وہ ہر کام کو جبر و تشدد سے حل کرنے کے قائل ہوتے ہیں۔لیکن دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا واقع بتا دیں جہاں صرف جنگ کے ذریعہ معاملات حل کئے جاتے ہوں۔ مذاکرات ہی بالآخر مثائل کو solve کرتے ہیں۔طالبان سے مذاکرات بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے مگر حکومت کی طرف سے سستی کا مظاہرہ شروع ہوگیا ہے جو نہائت تکلیف دہ بات ہے۔اس سے پتہ چل رہا ہے کہ دشمن قوتیں حکومت ،آرمی اور ISI پر زیادہ ہی دباؤ ڈال رہی ہیں۔یہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ ملک میں امن قائم رہے۔جب سے یہ مذاکرات شروع ہوئے ہیں کافی حد تک دھماکوں اور دیگر تخریب کاری کا سلسلہ تھم گیا ہے۔مگر کچھ لوگوں کو خاموشی اچھی نہیں لگ رہی اور بلاول بھٹو جیسے کہہ رہے ہیں حکومت مذاکرات کے نام پر اندھوں سے راستے پوچھ رہی ہے۔جبکہ خود عقل کے اندھوں کو سندھ میں قحط کے دور میں ناچ رنگ نے گھیر رکھا تھا۔آج ان کو امن کی طرف قدم بڑھانا اس قدر کھل رہا ہے۔اگر خدا نخواستہ یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو جنگ دوبارہ شروع ہونے میں کیا طالبان کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے اور اس سے ہماری پاک آرمی کا مزید نقصان نہ ہوگا۔طالبان نے کیا ایسے مطالبات رکھے ہیں جو ملک دشمنی پر مبنی ہوں۔آخر یہ جنگ کے حامی خود طالبان کے مقابلے پر میدان میں نکل سکتے ہیں ۔جب ان کو اس قدر طالبان سے نفرت ہے تو امریکہ سے اسلحہ لیکر طالبان کے مقابلے میں نکل آئیں اور ایک ایک طالبان فکر لوگوں کو ختم کردیں۔تمہاری حسد کی آگ بھی بجھ جائے گیاور بقول تمہارے ملک کی سرزمین دہشت گردوں سے پاک ہو جائے گی۔باتیں بنانا بہت آسان ہے نکلو میدان میں اور جنگ کے ذریعہامن بحال کرو دوسروں کو یہ لائین نہ دکھاؤ۔اﷲ موجودہ حکومت اور طالبان کو مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
Zahid Raza Khan
About the Author: Zahid Raza Khan Read More Articles by Zahid Raza Khan: 27 Articles with 31750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.